ایک ہی راستہ

تاریخ شاہد ہے کہ نمرود اور فرعون جیسے جابر اور متکبر بادشاہوں کا ظلم و ستم جب حد سے بڑھنے لگا تو قادر مطلق نے اِبراہیمّ اور موسیّ جیسے بُت شکن مبعوث فرمائے،جنہوں ہر اُس بُت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا۔ جو اَنا رَبُکمُ الاَعلی کا دعوی لیکر اُ ٹھا تھا اور خدُا کے بندوں کو اپنا غلام بنانے میں مصروف تھا۔ بقول اقبال
خونِ اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیّ طلسمِ سامری
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی، باقی بُتان آذری

کل اگر ایک نمرود تھا تو آج اُس کے لاکھوں پیروکار فرزندانِ توحید کو آگ میں جھونک رہے ہیں، کل اگر ایک فرعون تھا تو آج کئی فرعون اَنا رَبُکُمُ الاَعلی کا دعوی لئے ہوئے ہیں۔ اور خدا کے بندوں کو خاک و خون میں نہلا رہے ہیں۔ افغانستان میں کُشت و خون کا گرم بازار ہو یا فلسطین میں اِسرائیلی درندگی، کشمیری مسلمانوں کا قتلِ عام ہو یا خواتین کی آبرو ریزی۔۔۔۔ یا وطن عزیز پاکستان کی فضاوءں میں بڑھکتی ہوئی دہشت گردی کی آگ۔۔۔۔یہ سب کچھ آج کے فرعونوں کے لئے کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن اگر کسی ایک یہودی یا عیسائی کو مسلمانوں کے ہاتھوں ذرا سی ٹھیس پہنچے تو وہ پکار اُٹھتے ہیں کہ یہ دہشت گردی ہے، یہ انتہا پسندی ہے،یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ مسلما نوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں ،تو دوسری طرف وہ متاثرین کی امداد کرتے ہیں۔ تاکہ باقی رہنے والی نسل ہمیشہ کے لئے اُن کی ممنون اور غلام بن کر رہے۔ اور یہی ان کے موثر ہتھکنڈے ہیں جن کے ذریعے وہ امت مسلمہ کی مجموعی قوت کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔
امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کو ختم کرنے کے لئے یہ شیطانی قوتیں کبھی تو انہیں آپس میں لڑاتی ہیں، کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر خود اسلامی ممالک میں فضائی حملےکرتیں ہیں۔ جس میں کئی معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ اسلامی ممالک میں سے ایسے لوگ بھی ان کو مل جاتے ہیں جو ان حملوں کو جا ئز قرار دیتے ہیں۔ تاکہ اس طرح خود کو اُن کا وفا دار ثابت کر سکیں۔

پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے بھی خود کو امریکہ اور برطانیہ کا وفا دار ثابت کرنے کیلئے نہ صرف ان حملوں کو جائز قرار دیا بلکہ خود امریکہ کو اڈے بھی فراہم کئے۔صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک اور خطر ناک نظریہ جس کو اسلامی ممالک کے سامنے پیش کیا وہ تھا اُن کا نعرہ “ سب سے پہلے پاکستان“ جو در اصل مغربی اصطلاح “ نیشلزم“ کے مترادف ہے۔ اس نظریہ کے تحت ہر شخص کو چاہییے کہ اپنے وطن کے لئے جئے اور اپنے وطن کے لئے مرے۔ لیکن اسلا می تعلیمات کی روح سے مومن صرف اللہ تعالی کے لئے جان دیتا ہے۔ جان اُسی کی دی ہوئی ہے اور اُسی کے لئے قربان کرنی ہے ۔کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہے۔ جیسا کہ سورہ انعام کی آیت ١٦٢ میں ارشاد ربانی ہے۔ “ یہ بھی کہ دو کہ میری نماز میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے “

اس مشرکانہ نظریہ کا دوسرا خطرناک پہلو یہ ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک کے خلاف اگر یہود و نصاری اگر میدان میں اتریں تو دوسرے اسلامی ملک کو اُن کی مدد نہیں کرنی چاہئے۔ اس طرح وہ مسلمانوں میں تو پھوٹ ڈالتے ہیں لیکن ہم پچھلے بارہ سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ خود کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں آپس میں متحد ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ ایک دوسرے کا مل کر مقابلہ کر رہے ہیں۔
لہذا مسلمان ممالک کو نیشنلزم (وطنیت) کے اس بت کو توڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و اتفاق سے رہنا ہوگا۔ تاکہ یہود و نصاری کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ صرف یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر امت مسلمہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی غلامی سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔
F-Rehman
About the Author: F-Rehman Read More Articles by F-Rehman: 8 Articles with 6848 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.