جعلی ڈگری کا سد باب ضروری

پاکستان میں جعلی پر منتخب ہونا اور جعلی ڈگری پر سیاست کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی کئی لوگ اثر رسوخ والے ہونے کی وجہ سے جعلی ڈگری پر انتخابات میں حصہ لیتے اور کامیاب ہوتے رہے اور جب کسی پر اعتراض کیا گیا تو ان کے خلاف دائر ہونے والے کیس کو اتنا لٹکایا گیا کہ ان کے پانچ سال پورے ہو گئے مگر ان کا کیس زیر التوا رہا جس کی وجہ سے عام لوگوں میں یہ تاثر عام ہوا کہ پاکستانی معاشرے کا یہ حکمران طبقہ وہ واحد طبقہ ہے جو کسی بھی قانون سے بالا تر ہے اور جن کے اثر رسوخ کی وجہ سے اعلیٰ عدالتیں ان کو سزادینے سے قاصر ہیں مگر اب کی بار آزاد عدلیہ کی وجہ سے ان کا یہ تاثر غلط ثابت ہو ا ہے اور کئی ایک امیدوار جو کہ پہلے جعلی ڈگری میں ملوث تھے اب کی بار شکنجے میں آئے ہیں جو کہ عام پاکستانی کے لئے باعث خوشی ہے کیونکہ عام لوگوں نے محسوس کیا ہے کہ حکمران طبقہ بھی کسی قانون کے شکنجے میں آ سکتا ہے اعلیٰ عدلیہ نے روزانہ کی بنیاد پر ان کے کیسسز کو سن کر ان پر فیصلء مرتب کرنے کا ٹاسک مختلف عدالتوں کو دیا ہے اور جو لوگ ایسے لوگوں کو بچانے کی کوشش میں مصورف ہیں ان کے خلاف کاروائی کا عندیہ بھی دیا ہے -

پاکستان میں مختلف ضلعی عدالتوں نے جعلی تعلیمی اسناد سے متعلق زیرِ سماعت مقدمات میں ایک سابق وفاقی وزیر اور صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کے ایک سابق رکن کو سزا سنائی ہے جعلی تعلیمی اسناد سے متعلق عدالت میں پیش نہ ہونے پر دو سابق ارکان اسمبلی کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے گئے ہیں جن پر بہت تیزی سے کاروائی کا آغا ز ہو چکاہے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے ایڈیشنل سیشن جج نے صوبائی اسمبلی کے سابق رکن خلیفہ عبدالقیوم کو جعلی ڈگری کے مقدمے میں تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی اور اْنہیں کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا ہے خلیفہ عبدالقیوم ڈیرہ اسماعیل خان کے سٹی ون پی کے 64 کے انتخابی حلقے سے صوبائی اسمبلی کے لیے 2008 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے تھے بلوچستان سے سبی کی ایک مقامی عدالت نے سابق وفاقی وزیر ہمایوں عزیز کْرد کو جعلی ڈگری رکھنے کا الزام ثابت ہونے پر ایک سال قید اور پانچ ہزار جرمانے کی سزا سنائی ہے وہ گذشتہ عام انتخابات کے دوران جھل مگسی کے علاقے سے قومی اسمبلی کے حلقہ267 سے پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے سابق رکن اسمبلی ناصر علی شاہ جب کہ پنجاب اسمبلی کے سابق رکن اقبال لنگڑیال کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے گئے ہیں اور امید ہے کہ ان کے خلا ف بہت جلد کاروائی عمل میں لائی جائے گی صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقے ڈیرہ غازی خان کی ضلعی عدالت نے سابق رکن صوبائی اسمبلی میر بادشاہ قیصرانی پر جعلی ڈگری رکھنے کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی ہے میر بادشاہ قیصرانی نے سنہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد اْنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکر لی تھی اس سے پہلے مظفر گڑھ کی ایک عدالت نے سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی پر جبکہ بہاولپور کی عدالت نے عامر یار ورن پر فرد جرم عائد کی دی ہے اور ان کے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے جس کا فیصلہ شاید اس تحریر کے چھپنے تک ہو چکا ہوالیکشن کمیشن نے بلوچستان سے این اے 161 سے جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے آغا محمد کی ڈگری جعلی قرار دے کر ان کا معاملہ پشین کے سیشن جج کو بھجوا دیا ہے سابق رکنِ قومی اسمبلی نے اپنی تعلیمی اسناد کے بارے میں الیکشن کمیشن میں نظرثانی کی اپیل دائر رکھی تھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے مقامی عدالتوں کو جعلی ڈگریوں سے متعلق مقدمات کو چار اپریل تک نمٹانے کا حکم دے رکھا ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق ابھی تک 189 ارکان نے ابھی تک اپنی ڈگریوں کی تصدیق نہیں کروائی اور سپریم کورٹ نے ان سابق ارکان کو پانچ اپریل تک اپنی تعلیمی اسناد کی تصدیق کروانے کی مہلت دی ہے۔ان ڈگریوں کی تصدیق نہ کروانے والوں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جو شاید اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں لیکن اب کی بار آزاد عدلیہ اور اذاد الیکشن کمیشن کی موجودگی میں شاید ان کی بالا تری ختم ہو جائے اب کی بار ہونے والے الیکشن میں اس بات کا قوی امکان ہے کوئی بھی جعلی ڈگری والا پاکستان کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں نہیں پہنچ سکے گا اس بات کو اور زیادہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے کہ ڈگریوں کی تصدیق کے لئے آن لائن سسٹم ترتیب دیا جائے اور جس طرح نادرا الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کی جانچ پڑتال ہوتی ہے بلکل اسیطرح ڈگریوں کی جانچ بھی کی جا سکے کیونکہ پاکستان میں جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں ان کے ملازمین کی ڈگریوں تو فورا سے پہلے تصدیق ہو جاتی ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ اتینے اعلیٰ ترین ایوانوں میں جانے والے اور پاکستانی قوم کے فیصلے کرنے والوں کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال میں طرح طرح کے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے اور جو لوگ جعلی ڈگریوں پر منتخب ہو بھی جاتے ہیں ان کے کیسوں کو اتنا لٹکایا جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹرم پوری بھی کر لیتے ہیں تب بھی ان کا فیصلہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے حقداروں کی حق تلفی ہوتی ہے اور ایسے لوگ ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں جن جو ان پڑھ ہونے کے ساتھ ساتھ فراڈ اور کرپشن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن ڈگریوں کی تصدیق کے لئے ایک مضبوط منظم اور فوری طور پر کاروائی کرنے والا نیٹ ورق قائم کرتے ہوئے ان معاملات کی خوردبینی چھان بین کرئے کیونکہ یہ ایک شخص کا معاملہ نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے تاکہ پڑھے لکھے اور مخب وطن لوگ اعلیٰ ایوانوں میں پہنچ کر پاکستان کی خدمت کر سکیں اور حقدار وں کو ان کا حق مل سکے ایسا کرنے سے ہی ہم پاکستان کو اور یہاں کے عوام کے حالات کو بدل سکتے ہیں پڑھے لکھے اور صاف شفاف لوگ ہی پاکستان کو درپیش بحرانوں سے نکال سکتے ہیں دوسری صورت میں کچھ بھی نہیں بدلے گا ماسوائے کرسی پر بیٹھے ہویء شخص کی جگہ کوئی اور لے لے گا اور نعرہ لگایا جائے گا کہ تبدیلی آ گئی مگر یہ تبدیلی عوام نہیں مانگ رہے بلکہ وہ تبدیلی مانگ رہے ہیں جس سے ان کے حالات زندگی بدل سکے جس دن ایسا ہو گا اس دن پاکستان کو ترقی یافتہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا -
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227176 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More