کراچی میں ‘طالبانائزیشن‘ ڈھول

ایم کیو ایم کے علاوہ سب چھوٹی بڑی پارٹیوں نے ‘نظامِ عدل ریگولیشن‘ کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ اس کی افادیت کو سمجھتے ہوئے اسکی منظوری بھی دے دی ہے- دیکھا جائے تو یہ معاہدہ صحیح معنوں میں جمہوریت کی طرف ایک عملی قدم ٹھرتا ہے کہ اس کا منشا و مدعا لوکل سطح پر مسائل کا حل تلاش کرنا ہے کہ یہ معاہدہ سوات کے مقامی باشندوں کی آواز تھی- اس معاہدہ کا نفاذ حکومت کا ملک کی ’سلامتی‘ کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے اور اس کی بڑے پیمانے پر منظوری سے عیاں ہے کہ ہمارے سیاستدان ’عالمی استعمار‘ کی ‘استعماریت‘ سے بخوبی آگاہ ہیں اور پاکستان کو بچانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ نظامِ عدل کے باوجود اگر پھر بھی علاقہ میں امن نہ ہوا تو اس سے یہی ثابت و اخذ و عیاں ہوگا کہ ملک میں غير ملکی یعنی’افغانی، بھارتی طالبان‘ اور عالمی سامراج کے ‘مقامی ایجنٹ‘ جو کہ ‘ڈالروں‘ کے عوض کاروائیاں کرتے ہیں، ملک کے خلاف سرگرم ہیں اور استعماری ایجنڈا میں مدد دے رہے ہیں- ہمارے سیاستدانوں کے لیے اس معاہدہ کی منظوری ایسی ہے جیسے:
’کر دیتی ہے جو ساری عمر کی تاریخ کو روشن
حیاتِ مختصر میں ایک گھڑی ایسی بھی ہوتی ہے‘

لڑکی کو کوڑے مارنے کی وڈیو ہو، یا گلے کاٹنے کی وڈیو ہو، کاروکاری ہو یا لڑکیوں کے سکولوں کا جلانا ہو، یا اور کوئی انفرادی یا مقامی نوعیت کا واقعہ ہو، ایسے واقعات کو ‘شہہ سرخی‘ بنانا ملک سے زیادہ غیر ملکی مفاد کو عزیز رکھنے کے مترادف ہے- لڑکی کو کوڑے مارنے کی سزا پر واويلا کرنيوالے چڑھتے سورج کے پجاري ہیں، سب اپنے اپنے نمبر بنا رہے ہیں اور محض اپنی سیاست چمکا رہے ہیں جس سے ان کے مفاد پرست ہونا ثابت ہو جاتا ہے- يہ درست کہ سرعام سزا دينا صحيح نہیں ہے کہ اس سے مجرم کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے- ليکن ان لوگوں نے سرعام کوڑے مارنے کو ’بال کی کھال اتارنے‘، ’بانس کو شہتير دکھانے‘ کےمصداق حد سے زيادہ بڑھا چڑھا کر ایسے پيش کيا ہے کہ جس سے بذاتِ خود ’طالبان‘ معصوم نظر آنے لگتے ہیں- ایم کیو ایم کو دیکھیں، ایسے واقعات پر فورا جلسہ کر ڈالتی ہے، ٹیلی فونک خطابوں کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے یا پھر ریلی نکالتی ہے کہ دیکھو ‘سارے جہاں کا درد ہے، ہمارے جگر میں‘- یہی بات اگر کراچی کے باشندوں سے ویری فائی کی جائے تو جواب ملتا ہے،‘ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘- اين جی اووز، حقوق نسواں کی علمبردار تنظیمیں اليکٹرانک و پرنٹ ميڈيا، موقع تاکنے والے سياستدان، خود ساختہ جلاوطنی اختیار کئے ہوئے لیڈر اور ملک میں ’پڑھے لکھے ان پڑھ‘ کوڑے مارنے کے واقعہ کو ايسے بڑھا چڑھا کر پيش کر رہے ہیں جيسے دکھ درد کو محسوس کرنے والا دنيا میں ان سے بڑا کوئی اور ہے ہی نہیں- حالانکہ دیکھا جائے تو يہ سب حرکتیں، یہ سب ریلیاں، یہ سب ٹیلی فونک تبلیغ و واعظ، صرف اسلام کے خلاف ’استعمار‘ کا پراپيگنڈہ ہے اور کچھ نہیں-

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ‘آوازِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘ کے مصداق جب سب نے عدل معاہدہ کی تائید کی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ بیس سال سے بارہ پندرہ سیٹوں تک محدود ایم کیوایم اس کی مخالفت کا ڈھول بجائی جا رہی ہے کہ تھکنے ہی میں نہیں آتی؟ کیا اس نظام عدل کے نفاذ سے ایم کیو ایم کو سیاسی، مالی، یا جانی خطرہ ہے؟ یا کیا مہاجر قومی موومنٹ اس معاہدہ کی مخالفت محض خود کو ‘روشن خیال‘ ظاہر کرنے کے لیئے کر رہی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیا سیاسی عمل کے بغیر روشن خیالی ممکن ہے؟ اور کیا ایسا کرنا ملک و عوام کے مفاد میں ہے؟ کیا کہیں ایم کیو ایم، کراچی میں ‘طالبانزیشن‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنی لسانییت پسندی کی پیاس کو بجھا تو نہیں رہی کہ وہاں پر ‘پٹھان‘ آباد ہو رہے ہیں؟ کیا یہ علاقائی گروہ، ‘طالبانائزیشن‘ کو پٹھانوں کے لیئے بحثیت تشبیہ استعمال کرکے کراچی پر اپنا ‘حقِ ملکیت‘ جتا رہی ہے؟ کیا کراچی کسی کی جاگیر ہے؟ سب سے اہم بات یہ کہ ایم کیو ایم کس منہ سے شریعت، عدل معاہدہ، طالبانزیشن، ملائیت، مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت کو ناپسند کرتی ہے، اس کی آڑ میں خود کو ‘جدیدیت پسند‘ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ یہ تو بذاتِ خود بیک وقت ملائیت، آمریت، لسانیت، ‘شریعت‘، طالبانزیشن، اسلامائزیشن، کی پیدوار ہے یعنی ‘ضیائی ‘باقیات ہے؟؟

بات معمولی ہے کہ ملک میں موجود ‘غیر ملکی ایجنٹ‘ ہوں، یا ملکی طالبان ہوں، یا ‘عالمي استعمار‘ ہو، یہ لوگ پاکستان ميں دہشتگردي کو روکنے کی تمام کوششوں، امن معاہدوں، آپريشنز، مذاکرات وغيرہ کسی کو بھی پھلتا پھولتا ديکھنا پسند نہيں کرتے کيونکہ اس سے اس کے اپنے ’عزائم‘ ميں رکاوٹ پڑتی ہے۔ اگر امريکہ اور ایم کیو ایم واقع ہی امن وامان کے خواستگار ہیں تو انہیں’سوات امن معاہدے‘ کی افاديت کو سمجھتے ہوئے اسی طرز کو افغانستان ميں بھی لاگو کرنے پر ضرور سنجيدگی سے سوچنا چاہئیے تھا-

حاصل بحث، ’آٹا گوندھتی ہلتی کيوں ہو‘ کےمصداق ‘طالبان‘ ايک بہانہ ہیں کسی ملک پر چڑھائی کرنے کا، ‘ریاست کے اندر ریاست‘ کو قائم رکھنے کا- علاوہ ازیں طالبانوں سےاسلام مخالف حرکتیں پيسے کے عوض کروائی جاتی ہیں تاکہ ڈرونزز حملوں کو اخلاقی سپورٹ مل سکے- حیرانگی ہے کہ جب ساری دنيا ايک ہوکر نخيف سے شخص اسامہ کو نہ ڈھونڈ سکی تو کيونکر یہ لوگ طالبان پر قابو پاسکیں گے؟ القاعدہ کے تب تک ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ ورلڈ بالخصوص مسلم ورلڈ ميں ’استعمار‘ در نہیں آتا- یہ مذہبی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ وسائل پر قبضہ کی جنگ ہے، یہ سرمایہ دار کی بقا کی جنگ ہے، نو آبادیاں بنانے کی سازش ہے جو اسلام کی آڑ میں صیہونی لڑ رہا ہے-

Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 65023 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.