2013 کے انتخابات

جمشید خٹک

پاکستان کی کل آبادی تقریباً 18 کروڑ ہے ۔پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951 میں دوسری 1961 میں ، تیسری 1972 اور آخری دفعہ 1998 میں کرائی گئی ۔اُس کے بعد باقاعدہ مردم شماری کا عمل نہیں دہرایا گیا۔الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 8 کروڑ 57 لاکھ ہے ۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے ۔کہ پاکستان کی آدھی آبادی ووٹ دینے کی اہل نہیں یا تقریباً 10 کروڑ آبادی بچوں پر مشتمل ہے ۔جن کے ووٹ ابھی تک نہیں بن سکے ہیں ۔ 1998 کے مردم شماری کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں اور بچیوں کی تعداد 7 کروڑ اور 19 سال سے زیادہ مرد وخواتین کی تعداد ساڑھے پانچ کروڑ ریکارڈ کرائی گئی ہے ۔گویا ملکی آبادی کا زیادہ تعداد جوانوں پر مشتمل ہے ۔جو کہ خوش آئند بات ہے ۔ کہ ملک کی ترقی کیلئے نوجوان نسل موجود ہے۔

KPK میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 1 کروڑ 23 لاکھ ہے ۔جس میں خواتین ووٹرز کی تعداد 52 لاکھ 61 ہزار ہے ۔ جبکہ مردوں کی تعداد 70 لاکھ 49 ہزار ہے۔2008 کے انتخابات میں KPK میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 1 کروڑ 6 لاکھ تھی ۔گویا 2013 میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 1 کروڑ 23 لاکھ تک جاپہنچی ۔یہ اضافہ تقریباً 16 فی صد بنتا ہے ۔پانچ سالوں میں یہ اضافہ 16 فی صد کے لحاظ سے سالانہ تقریباً 3.2 فی صد بنتا ہے ۔KPK کے 25 اضلاع میں سب سے زیادہ ووٹروں کی تعداد 13 لاکھ 81 ہزار ضلع پشاور کی ہے ۔ضلع پشاور کے بعد دوسرا نمبر رجسٹرڈ ووٹروں کے لحاظ سے ضلع مردان کا ہے ۔جہاں پر رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 9 لاکھ 17 ہزار ہے ۔باقی 23 اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ان دو ضلعوں کے مقابلے میں کم ہے ۔سب سے چھوٹا نوزائیدہ ضلع تور غر ہے ۔جس کے ووٹروں کی تعداد کا فی کم ہے ۔

پولنگ سٹیشنوں کے لئے مقررشدہ جگہوں کا تعین کیا جا رہا ہے ۔ پولنگ آفیسرز کی تقرری کی جارہی ہے ۔قومی اسمبلی کے تمام حلقوں کیلئے کل 273 ریٹرینگ آفیسرز اور اسسٹنٹ ریٹرینگ افسروں کا نو ٹیفیکشن جاری کیا گیا ہے ۔مبصرین ، پولنگ افسروں کے عملے کیلئے بھی کو ڈ آف کنڈکٹ کا طریقہ جاری کیا گیا ہے ۔اس وقت تقریبا ً 230 کے قریب سیاسی پارٹیاں الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر رجسٹرڈ ہیں ۔ 178 سیاسی پارٹیاں الیکشن کمیشن سے رابطے میں ہیں ۔سیاسی پارٹیوں کو نشانات الاٹ کیے جارہے ہیں ۔الیکشن کمیشن کے پاس 171 نشانات مختلف سیاسی جماعتوں کو الاٹ کرنے کیلئے موجود ہیں ۔ماسوائے دو چار پارٹیوں کے علاوہ باقی سیاسی پارٹیوں کو نشانات مل چکے ہیں ۔ بہت ساری سیاسی پارٹیاں نام کے طور پر کاغذوں پر نظر آتی ہیں ۔لیکن عملی طور پر چند سیاسی پارٹیاں سر گرم عمل ہیں ۔سیاسی دنگل شروع ہوچکا ہے ۔سیاسی پہلوانوں کی کھینچاتانی جاری ہے ۔سیاسی مصلحتوں ، ذاتی مفاد اور اقتدار کی ہوس کی خاطر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔

اتنی کثیر تعداد میں سیاسی پارٹیوں کا وجود بذات خود ملک میں سیاسی انتشار کی غمازی کرتی ہے ۔ملک کے ہرکونے سے بھانت بھانت کی بولیوں کی صدا گونج رہی ہے ۔سیاسی لیڈران ملک کے کئی حصوں میں قومیت کا پرچار کررہے ہیں ۔کئی مذہب کے نام پر لوگوں کے دینی جذبے کو آزما رہے ہیں۔کئی پر سماجی انصاف کا بول بالا ہونے کی باتیں ہورہی ہیں۔اور کئی پرآسودگی ، خوشحالی غریب اور کسان کے نا م پر سیاست کھیلا جارہا ہے ۔سیاسی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں کسی بھی جماعت کا اکثریت میں ووٹ
حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آرہا ہے ۔مختلف الخیال جماعتیں اپنے اپنے مخصوص علاقوں سے ووٹ حاصل کرکے پارلیمنٹ تک تو پہنچ سکتی ہیں ۔ لیکن ہنگ پارلیمنٹ کی وجود میں آنے کے بعد قومی فیصلوں پر متفق ہونا مشکل نظر آتا ہے ۔سیاسی اختلافات کی وجہ سے قومی اُمور کے فیصلے جو ڑ توڑ کی نذر ہو جائینگے۔ ممبران کی وفاداریاں بدلنے کی روش پھنپتی رہے گی۔

سب سیاسی جماعتوں کے ماضی کو اگر پرکھا جائے ۔تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے ۔کہ سیاسی جماعتوں نے جتنے وعدے کئے تھے ۔ اُن کے دور اقتدار میں وہ سارے وعدے ایفا نہ ہوئے ۔نہ ہو سکتے ہیں ۔اگر بلند بانگ دعوے ایفا نہیں ہو سکتے ۔تو کیوں غریب عوام کو کھبی اے کبھی دوسرے دلفریب نعروں میں پھنسا کر جھوٹ کے وعدے کئے جائیں۔بہت ہو چکا ۔ ان سیاسی نعروں کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔یہ درست ہے ۔کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے ۔اور راتوں رات کوئی بھی سیاسی جماعت دودھ کی نہریں نہیں نکال سکتی ۔ہماری قومی پیداوار ، ہماری برآمدات ، ہمارا خزانہ اس قابل نہیں ۔ کہ ہم اتنے لمبے چوڑے وعدوں کو پورا کر سکیں ۔ہم اگر صرف سسٹم کو درست کرلیں ۔ تو یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔قانون کی عملداری کو یقینی بنائیں ۔ تو سسٹم میں بہتری آسکتی ہے ۔عام تاثر یہ ہے ۔ کہ اس دفعہ انتخابات صاف وشفاف ہونگے۔الیکشن کے بارے میں جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر نہایت سختی سے عمل کیا جائیگا۔لیکن پاکستان کی تاریخ 1951 میں ہونے والے انتخابات سے لے کر سال 2008 کے انتخابات تک انتخابات میں دھاندلی کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔

2008 کے انتخابات کے نتیجہ میں قومی اسمبلی کی ممبران کی تعدادبشمول 60 نشستیں مختص برائے خواتین اور 10 برائے غیر مسلم 342 ہے ۔جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی تعداد پنجاب میں 371 ، خیبر پختونخواہ میں 124 ، سندھ میں 168 اور بلوچستان میں 65 ہے ۔قومی وصوبائی ممبران کی تعداد الیکشن 2013 کیلئے بھی یہی رہیگی۔

قومی اسمبلی کا ممبر بننے کیلئے ووٹرز کی تعداد مقرر شدہ نہیں ہے ۔ہر حلقے کے ووٹرز کی تعداد مختلف ہے ۔اسی طرح صوبائی اسمبلی کے ممبران کیلئے بھی ووٹرز کی تعداد مقرر نہیں ہے ۔بلکہ ہر حلقے میں یہ تعداد مختلف ہے ۔قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے حلقہ بندیوں کی تقسیم مقامی و انتظامی بنیادوں پر کیا جاتا ہے ۔بعض علاقوں سے اس پر تنقید کی آوازیں بھی آرہی ہیں ۔خاص طور پر صوبہ سندھ اور کراچی میں خصوصی طور پر حلقہ بندیوں پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔حلقہ بندیوں کا معاملہ سیاسی ہے ۔جس کے حل ہونے کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی ۔قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر بننے کیلئے اُمیدوار کی عمر کم از کم 25 سال ہونا شرط ہے ۔جبکہ ایک ووٹرکیلئے عمر کی حد 18 سال ہے ۔صرف وہی افراد ووٹ ڈالنے کے حقدار ہیں ۔جنکا نام الیکٹرول رول میں درج ہے ۔

لاکھوں کے حساب سے روزگار کے سلسلے میں پاکستانی بیرونی ممالک میں قیام پذیر ہیں۔جو پاکستان کو ایک خطیر رقم بھیجتے ہیں ۔یہ بیرونی ملک پاکستانی تقریباً 13 ارب ڈالر ہر سال زر مبادلہ کی شکل میں پاکستان بھیجتے ہیں ۔جو ہماری بین الاقوامی ادائیگیوں میں بہت مدد گار ثابت ہو تے ہیں ۔لیکن ابھی تک ان بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹوں کے بارے میں گو مگو کی کفیت جاری ہے۔سپریم کورٹ نے ایک سیاسی جماعت کی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے حکم دیا ہے ۔کہ بیرونی ملک پاکستانیوں کیلئے ووٹ ڈالنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنا جمہوریت کے بنیادی اُصولوں کے منافی ہے ۔اُمید کی جاتی ہے ۔ کہ حکومت ان بیرون ملک پاکستانیوں کے جذبات و احساسات کا خیال کر کے اُنھیں یہ مواقع ضرور فراہم کریگی۔

الیکشن قوانین کے باوجود الیکشن کے دوران ان پر عمل درآمد کرنا ایک نا ممکن عمل نہیں ۔لیکن مشکل ضرور ہے ۔ہماری دُعا ہے ۔ کہ اس دفعہ انتخابات صاف و شفاف ، پُرامن اور خوشحالی کا باعث بنیں۔الیکشن کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کر کے ملک وقوم کو دُنیا کی نظروں میں سرخرو کریں۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 24971 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.