ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی
ششماہی رپورٹ کے مطابق جنوری تا جون2012ءکراچی میںمختلف نوعیت کے تحت1257
افراد جاںبحق تھے اور اب سال 2012ءکے آخر میں رپورٹ کے مطابق 2284افراد پر
تشدد واقعات میں جاں بحق ہوچکے ہیں جس میں غیر سیاسی بنیادوں پر ہلاک کئے
جانے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔جبک قابل ذکر بات یہ ہے کہ
انسانی حقوق کی تنظیم کی اپنی ایک رپورٹ کے مطابق لیاری گینگ وار کے نتیجے
میں سینکڑوںافراد کو اغوا کے بعد،اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بیشتر
افرادہلاک کئے گئے ۔جبکہ ڈکیتوں کی مختلف وارداتوں میں ،سمیت مختلف علاقوں
میںافراد کی لاشوں کی بازیابی کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہیں۔ پولیس کی جانب
سے مقابلوں میں افراد ہلاکت کے علاوہ پچاس سے زائدپولیس اہلکاروں کو بھی
اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔دیگر ذرائع کے مطابق مختلف نوعیت کے واقعات
میں79بچے اور 93خواتین بھی ہلاک ہوئیں۔جبکہ ماہ اپریل کا مہینہ 260افراد کی
ہلاکتوں کے ساتھ سب سے زیادہ تشدد رہا۔قابل افسوس صورتحال یہ ہے کہ کراچی
جیسے بین الاقوامی شہر میں انسانی لاشوں کے سر دھڑ سے کاٹ کر فٹ بال کی طرح
پیروں میں اچھالے جاتے ہیں لیکن کسی بھی سول سوسائٹی یا این جی او کو اتنی
زحمت نہیں ہوئی کہ ان ہیبت ناک واقعات پر کسی بھی قسم کا مظاہرہ یا احتجاج
کریں ۔ انسانی جسم کی اس بھیانک بےحرمتی پر انسانیت کانپ اٹھی ہے ، لیکن بے
حس سول سوسائٹی اور نام نہاد این جی اوز کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی رد
عمل یا کسی بھی ٹی وی اینکر کی جانب سے کوئی پروگرام نہیں کیا گیا ۔ بلکہ
الیکڑونک میڈیا کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ہمارے معاشر ے میں پر تشدد
واقعات میں اضافہ باعث تشویش ہی نہیں بلکہ لمحہ ءفکریہ ہے کہ قانون نافذ
کرنے والے ادارے اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام نہیں دے رہے۔صرف لیاری
گینگ وار کی زد میں آکر 84افراد کی ہلاکتیں سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کا
پول کھول دیا تھا کہ جرائم پر قابو پانے اور ٓاہنی ہاتھوں سے نپٹنے کے دعوے
کس قدر کھوکھلے ہیں۔کراچی میں جہاں جرائم پیشہ عناصر ،سیکورٹی اداروں سے صف
آرا ہوکر انھیں شکست دئے جا رہے ہیں وہاں معاشرے کا سب سے بھیانک کردار
اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں۔سینکڑوں افراد کو اغوا کے بعد
ہلاک کئے جانے کی رپورٹ اس صورت میں ہوئی ہیں کہ ان کے مطالبہ پورا نہ ہونے
پر ہلاک کیا گیا ۔ ان افراد کی تو کوئی رپورٹ ہی نہیں ہے جس میں ہزاروں
لوگوں کو بھتہ اور تاوان کی غرض سے اغوا کیا گیا ہو اور تاوان وصول کرنے کے
بعد جان سے مارنے کی دہمکی کے بعد خوفزدہ کرکے چھوڑ دیا گیا ہو۔اس ہولناک
حقیقت سے تمام ادارے آگاہ لیکن بے بسی کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔کراچی
مختلف النسل قومیتوں پر مشتمل ملک کی معاشی شہ رگ ہے ، ڈھائی کروڑ کی آبادی
میں غیر مقامی پولیس ، رینجرز اور ایف سی کی قلیل تعداد کا جرائم پر کنٹرول
پانا نا ممکن ہے۔سیاسی مصلحتوں اور عدم برداشت کی پالیسی کی وجہ سے سیکورٹی
ادارے عضو معطل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری اور اغوا
برائے تاوان کے وارداتوں کے خلاف سینٹ ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں
بائیکاٹ بھی کیا جاتا رہا اور حکومت پر دباﺅ ڈالنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن
ایسا لگتا ہے جیسے قائد کے شہر کو قاتلوں کے سفاک ہاتھوں میں جان بوجھ کر
سونپ دیا گیا ہو ۔سیکورٹی اداروں کی جانب سے عوام کو تحفظ کی فراہمی میں
ناکامی میں سیاسی مصلحت انگیزیوں کا بڑا عمل دخل ہے ۔ تمام دنیا نے دیکھا
کہ ایک جانب تو گینگ وار کے ذمے داران کے خلاف سر کی قیمتیں مقرر کیں جاتیں
تو دوسری جانب اسی گروپ کو راضی کرنے کےلئے حکومتی ایوانوں سے سرکاری وفود
بھی جاتے تھے اور کیس بھی واپس لے لئے گئے۔جب غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہو تو
خیر کی توقع کس سے کی جائے ؟ ۔کراچی کو ہمہ اقسام کا مقتل گاہ بنا کر
شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس اس قدر دوچند کردیا گیا ہے کہ ہلکی سی آہٹ
بھی دل کو خوفزدہ کردینے کا سبب بن گئی ہے تو دوسری جانب فرقہ وارانہ
ہلاکتوں نے جلتی پر پٹرول کا کام کیا ہوا ہے۔ ان تمام صورتحال میں حکومت کی
سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ وزرات داخلہ کا قلم
دان باقاعدہ طور پر کسی وزیر کے پاس چند ماہ سے زیادہ نہیں رہا ۔جب تک
ارباب اختیار شہریوں کو امن اور تحفظ فراہم کرنے کےلئے سنجیدگی کا مظاہرہ
نہیں کریں گے اس وقت تک امن کے لئے کی جانے والی کوئی کوشش کامیابی کا زینہ
نہیں چڑھ سکتی۔تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔حکومتی اداروں کو محض
اپنی کارکردگی تنخواہوں کے حصول کی جانب ہی مرکوز نہیں رکھنی چاہیے بلکہ
انھیں عوام کی جان و مال کا تحفظ دینے کےلئے عملی کردار ادا کرنے کی ضرورت
ہے۔اور عملی کردار ادا نہیں کیا گیا تو شہر میں بھڑکتی آگ کے شعلوں تک کو
بجھانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ جبکہ کراچی کی معاشی ابتری کے علاوہ یہ
صورتحال عبرت ناک ہے کہ کراچی کی چھ ہزار تجارتی مارکیٹوں سے ہر ماہ 30کروڑ
سے زائد بھتہ وصول کیا جاتا ہے ۔ 2013میں صرف دوماہ 50سے زائد تاجروں کو
قتل اور زخمی کیا جاچکا ہے ۔70سے زائد بم یا کریکر دہماکوں میں لاکھوں روپے
کی جائیداد کو نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ایشا کی سب سے بڑی کباڑا مارکیٹ شیر
شاہ ، جوڑیا بازار ، صرافہ مارکیٹ ، الیکڑونس مارکیٹ ، پاکستان چوک ،کھارا
در ، میٹھا در ، بوہرا پیر ، حاجی کیمپ، لیمارکیٹ ، رنچھوڑ لائن ، جوبلی
مارکیٹ ، گل پلازہ ، تبت سینٹر ، ایم اے جناح روڈ کی اسپیئر پارٹس مارکیٹ،
لیاری کی ٹمبر مارکیٹ میں کاروبار کرنے والوں کو روزانہ 300سے زائد بھتی کی
پرچیاں ملتی ہیں ، کراچی کا سب سے پُرامن کہلائے جانے والا علاقہ کھارادر،
میٹھادر ، بولٹن مارکیٹ تو جیسے میدان جنگ بن چکا ہے۔ لیاری میں ایک ہزار
ایکڑ پر مشتمل کباڑی مارکیٹ ایشا کی سب سے بڑا کباڑا مارکیٹ ویرانی کا شکار
ہوچکی ہے۔ مارکیٹ کے صدر حاجی زاہد نے تصدیق کی ہے کہ شیہر شاہ مارکیٹ کے
دوکانداروں کی اکثریت ، ڈیفنس ،کلفٹن ،لیاقت آباد ، عزیز آباد جیسے علاقوں
میں منتقل ہوگئے ہیں۔کراچی سکتا بلکتا ہوا ، انسانوں کی قتل گاہ بن چکا ہے
لیکن حکومتی ادارے خاموش ہیں ، آپریشن کرنے والے اداروں کو منشیات کے اڈے ،
جرائم پیشہ افراد کی کمین گائیں ، اور دہشت گردوں کے گڑھ نہ تو زمین سے نظر
آتے ہیں اور نہ ہی فضائی نگرانی میں انھیں ایسے منظر انھیں دکھائی دیتے
ہیں۔کراچی میں نو گو ایریا کے علاقوں کی فہرست میں جن جن علاقوں کی نشاندہی
کی گئی ہے ،وہ صرف انتیس علاقے نو گو ایریا نہیں ، بلکہ سفید پوش کراچی
والوں کے لئے پورا کراچی ،مکمل سندھ اور تمام پاکستان نو گو ایریا ہے۔خدارا
پاکستان کی معاشی شہ رگ اور ماں سے کھیلنا بند کریں۔ یہ کھیل بہت مہنگا پڑے
گا ۔ اس کا خمیازہ کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا ۔ کراچی کو دیوار سے لگانا
بندکیا جائے۔کراچی معاشی ماں ہے ۔ ماں کی حرمت کا ہی کچھ خیال کرلیں۔ماں تو
سب کے سانجھی ہوتی ہے۔ |