الیکشن 2013 ،ہر طرف ایک غلغلہ
ہے سیاسی پارٹیاں، انتخابی امیدوار، الیکشن کمشن ، ریٹرننگ افسر، کارکن،
پارٹی رہنما سب ہی مصروف ہیںاور کچھ پریشان بھی۔ یہ اُن کے لیے مشکل وقت ہے
اور قوم کے لیے مشکل مرحلہ ،اللہ کرے کہ یہ مرحلہئ شوق بخیریت طے ہو اور
قوم مخلص اور ایماندار قیادت کے تحفے سے سرافراز ہو۔
الیکشن یوں تو دنیا میں کہیں بھی ہوں مشکل ہوتے ہیں لیکن پاکستان جیسے
آمریت کے عادی ملک کے لیے مزید مشکل ہیں اس لیے بھی کہ کوئی اپنی ہار قبول
کرنے اور دوسرے کی جیت سہنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، انتخابی برادری منشور
سے زیادہ اہم ہو تی ہے اور دولت ان سب سے بڑھ کراہم کیونکہ انتخابی مہم
چلانے سے لیکر لوگوں کو جلسے جلسوں میں لانے تک پیسہ بڑھ چڑھ کر بولتا ہے
اور سیاستدانوں سے معذرت لیکن غریب عوام کا ووٹ خرید نے کے لیے بھی یہی
پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔
ملک میں عام انتخابات میں اب بہت کم دن رہ گئے ہیں الیکشن کمشن اور سیاست
دان ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں ۔ ریٹرننگ افسران کے سوالات اور سیاستدانوں
کے جوابات زبانِ زد عام بھی ہیں اور موضوع بحث بھی اگر چہ تنقید کے بعد
سوالات کا معیار شاید بہتر ہو گیا تھالیکن اصل مسئلہ یہ نہیں بلکہ ایماندار
اور اہل قیادت کا انتخاب ہے اور اس وقت قوم دیکھ رہی ہے اور حیران ہے کہ
اُس کی رہنمائی کا دعویٰ کرنے والوں میں سے بے شمار کی ڈگریاں ہی جعلی ہیں،
کسی پر قرضوں کی نادہندگی کا الزام ہے ،کسی پر سزا یا فتگی کا یا مجرمانہ
سرگرمیوں کا۔ اس وقت الیکشن کمشن کا عملہ اگر چہ پوری طرح متحرک ہے اور
ایسے لوگوں سے انتخابی عمل کو صاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چونکہ سانپ
کا کاٹا رسی سے بھی ڈرتا ہے اس لیے قوم کا خوف بالکل بجا ہے کہ کیا الیکشن
واقعی شفاف ہو سکتے ہیں اور کیا واقعی ہم ایک پاکیزہ قیادت کی شروعات کر
سکیں گے جبکہ انہی بڑے لوگوں کو پھر ٹکٹ مل رہا ہے اور پھر وہی پارٹیاں
برسر پیکار ہیں جنہیں باربار آزمایا جا چکا ہے ہر پارٹی کے اصل نمائندہ وہی
لوگ ہیں جو پچھلے، اس سے پچھلے اور اس سے پچھلے الیکشن میں بھی موجود تھے۔
اگر چہ الیکشن کمشن نے کئی بڑے لیڈروں کے کاغذات نامزدگی نامنظور بھی کئے
ہیں لیکن ایک حلقے سے اور اگلے کسی حلقے سے یہ منظور کر لیے گئے ہیں کیوں
کیا وہ وہاں باکردار اور آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق ہو گئے۔ الیکشن ایک
انتہائی حساس معاملہ ہے جس میں ہم اپنی قیادت منتخب کرتے ہیں جنہوں نے اگلے
پانچ سال نہ صرف اس ملک کی با گ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے بلکہ انہوں نے ہی ان
سالوں میں پوری دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کرنی ہو گی لہٰذا اس چنائو
میں ہر مکتبہ ئ فکر کی احتیاط ضروری ہے لیکن ہم اس میں اتنے ہی غیر محتاط
ہیں ۔اب اگر الیکشن کمشن نے کچھ کچھ اقدامات شروع کیے ہیں تو اسے اِن کا
دائرہ وسیع کر دینا چاہیے جیسا کہ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ کوئی
امیدوار انتخابات میں فتح کے بعد بھی اگر کسی ایسے فعل کا سزاوار پایا گیا
جو قانون کے مطابق قابل گرفت ہو تو تب بھی اُسے نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
میں یہ سطور لکھ ہی رہی تھی کہ مجھے ایک اخباری خبر کے ساتھ ایک ای میل
موصول ہوئی جو خیبر پختونخواہ سے طاہرہ نوید نامی ایک سوشل ویلفئیر آفیسر
نے بھیجی تھی اور اُنہوں نے اپنا احوال لکھا تھا کہ کیسے ان کے سماجی بہبود
کے محکمے کی صوبائی وزیرستارہ ایاز نے انہی پیشہ ورانہ اختلافات کی بنا پر
تین دن حبسِ بے جا میں رکھا اور اب بھی محترمہ طاہرہ نوید کا ان کے خلاف
مقدمہ زیر سماعت ہے جبکہ اُن کے مطابق وزیرموصوفہ اقربا پروری اور اسی جیسے
دوسرے افعال میں ملوث ہیں تو کیا وہ الیکشن لڑنے کی حقدار ہو سکتی ہے۔
طاہرہ نوید تو اس نا انصافی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور الیکشن کمشن اور
اس سے پہلے عدالت بھی پہنچ چکی ہیں لیکن یہ ہمت پوری قوم کو کرنا ہوگی۔ یہ
تو ایک مثال تھی جو مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی وزیر کی ہے لیکن کیا
اب بھی ایسے امیدوار ان مخصوص نشستوں پر منتخب نہ ہونگے بلکہ بہت سے شکست
خوردہ تو بعد میں ممبر سینٹ بن جاتے ہیں اور یوں نمائندگی اور اختیار غیر
نمائندوں کے درمیان ہی گردش کرتا رہتا ہے اور اقتدار ان کے لیے ہی مخصوص
رہتا ہے۔ اس وقت الیکشن کمشن کی باری ہے وہ اگر اس فرض سے بخوبی عہدہ برائ
ہو جائے جو قوم نے اُن پر ڈالی ہے، ایک چھاننی میں سے امیدواروں کو چھان
لیں، کھرا اور کھوٹا الگ کر دیں تو آگے عوام اپنی باری یعنی ووٹ میں شاید
کچھ آسانی محسوس کریں اور اگر شعور کی کمی کی بنا پر وہ ووٹ کا غلط استعمال
کر بھی لیں تواتنا نقصان نہ ہو جتنا ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
ٍ آج کل یہ بحث بھی خوب چل رہی ہے کہ آئین کے مطابق ایسے فرشتے کہاں سے
آئیں گے تو عرض ہے کہ اب بھی اس ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے ہمیشہ
ایمانداری اور خلوص نیت سے اپنا کام کیا ہے اور اس بات سے کسی کو انکار
نہیں کہ انسان خطا کا پُتلا ہے لیکن یہ ضرور معلوم کیا جائے کہ یہ خطا
قصداََ کی گئی یا غیر ارادی طور پر ایک غلط فعل سرزد ہوا، اور قتل عمد اور
قتل خطا کی سزا جدا رکھی جائے لیکن اگر ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلیں گے تو
قے کی شکایت کسی سے کیسے کریں گے ان سارے اقدامات کے ساتھ ساتھ اگر عوام کو
بھی ووٹ کا درست استعمال سکھایا جائے تو کچھ عجب نہیں کہ ہم پاکیزہ قیادت
کا ایک گروہ اوپر لا سکیں اگر چہ میڈیا چینلز چھوٹے پیمانے پر ہی سہی کچھ
نہ کچھ کر رہے ہیں کہ عوام کو ووٹ کا درست استعمال بتایا جا سکے لیکن ابھی
بہت کام کرنا باقی ہے۔انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بھی بنا نا ہے اس
میں ملکی اور غیر ملکی دونوں مداخلتیں روکنی ہیں۔ اگر بھارت سے الیکشن کمشن
کی ویب سائیٹ ہیک کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے تو کسی قسم کی بیرونی مداخلت
یا اثر اندازی بھی خارج از امکان نہیں ،خود ملک کے اندر سے بھی با اثر
شخصیات کا دبائو پڑ سکتا ہے ۔ الیکشن کمشن کو یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی عشق
کے امتحان اور بھی ہیں انتخابات کے نتائج بھی ظاہر ہے ہر ایک کی مرضی کے
مطابق نہیں ہونگے لیکن اللہ کرے وہ سب کے لیے قابل قبول ہوں اور دل سے مان
لئے جائیں۔
قوم امید کرتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ آنے والا الیکشن اُن کے لیے مخلص
قیادت لائے ایک ایسی قیادت جو اپنی ذات سے زیادہ ملک کو اہم سمجھے جو اپنے
نفع سے اور اپنا خزانہ بھرنے سے زیادہ ملکی خزانے کی فکر کرلے اور اور جو
یہ نکتہ سمجھ لے کہ اگر وہ اپنی آنے والی نسلوں کی بجائے ملک کی آنے والی
نسلوں کی فکر کرے تو یہ ملک ، یہ قوم خود ان کی آنے والی نسلوں کو وہ عزت و
احترام دے گی کہ وہ مالا مال ہو جائیں گی۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور
ہمیں اس کی عزت اور وقار کا ذریعہ بنائے۔ |