لکھ دی لعنت ہو تم پر، شہیدوں کو
چھیڑتے ہو
صاحبو ! لولی لنگڑی نگران حکومتوں کے قیام کے بعد جوں جوں انتخابی سر
گرمیوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے عالمی منصوبہ سازوں نے پاکستان خصوصا
´ خیبر پختون خواہ اور کراچی میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی اضافہ کر
دیا ہے جہاں انتخابی جلسوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے وہاں سیکورٹی اہلکاروں
اور قافلوں پر بھی حملے کیے جارہے ہیں لیکن بڈبیر پشاور میں گرڈ اسٹیشن پر
حملہ جس میں سات افراد جاں بحق اور چار افراد کو اغوا ءکر کے حملہ آور ساتھ
لے گئے ہیں جن کی تعداد پچاس کے قریب بتائی جاتی ہے جنھوں نے گرڈ اسٹیشن
میں داخل ہو کر نہ صرف اہم تنصیبات کو تباہ کر دیا بلکہ قیمتی گاڑیوں اور
دیگر سامان کو بھی آگ لگا دی جس سے تقریباً ایک ارب کا نقصان ہوا ہے ایک
نئے رجحان کی نشاندہی کرتا ہے کہ دشمن ہمیں کس حد تک بے سرو پا کرنے کی
منصوبہ بندی لئے ہوئے ہے ادھر پاکستانی طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان
نے اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جب کہ آئی ایس پی آر بضد ہے کہ یہ
حملہ طالبان ہی نے کیا ہے ،جو اپنے اوپر دباؤ کم کرنے کے لئے واقعہ سے
لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں ،اگر اسی بات کو سچ مان لیا جائے تو پھر اس
بات کو بھی تسلیم کر لینا چائیے کہ ان پاکستانی طالبان کے پیچھے دراصل
امریکہ ہی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت فضل اللہ کی افغانستان میں موجودگی ہے
جو سوات کے طالبان کا سر براہ ہے اورجس کی حوالگی کا مطالبہ پاکستانی حکومت
اور سیکورٹی ادارے کئی بار افغانستان سے کر چکے ہیں جو افغانستان سے
پاکستان کے سرحدی علاقوں میں درجنوں حملوں کا مرتکب ہو چکا ہے جس میں
سینکڑوں معصوم بچے عورتیں اور بے گناہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ
پاکستان پہلے ہی توانائی کے حوالے سے بحران کا شکار ہے جس کے لیئے حال ہی
میں ایران سے گیس پائپ لائن کا معائدہ کیا گیا ہے جس پر بھارت کو ایٹمی
معائدہ کی رشوت دینے اور پاکستان کو صرف لالی پاپ پر ٹرخانے والا امریکہ
اور اس کے حواری سیخ پا ہیںجو دھمکیوں اور پابندیوں کے ساتھ ساتھ توانائی
کے بحران پر قابو پانے کے لیئے پاکستان کو معاونت دینے کی لالچ بھی دے رہے
ہیں تربیلہ ،منگلا اور دیگر منصوبوں میں معاونت جاری رکھنے کا ڈھنڈورا پیٹا
جا رہا ہے یو ایس ایڈ کا اشتہار بھی پاکستانی ٹی وی چینلز پر چلایا جاتا
رہا ہے اس امداد کی آڑ میں امریکہ حسبِ روایت جو کھیل کھیلنے کی پالیسی پر
گامزن ہے اس کا انکشاف کرتے ہوئے پشاور واپڈا کے ایک افسر نے کہاہے کہ جب
سے پیسکو میں یو ایس ایڈ کی معاونت کا پروگرام شروع ہوا ہے یو ایس ایڈ کے
انسٹریکٹرزکی تعیناتی اوردفاتر قائم ہوئے ہیں ان کی مداخلت پیسکو کے
معاملات میں اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ تمام فیصلوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں
جس کی وجہ سے واپڈا کی تنصیبات پر حملے بڑھ گئے ہیں بڈبیر کا حالیہ واقعہ
بھی اسی مداخلت کا نتیجہ ہے ، جس پر قومی سلامتی کے اداروں کو غور کرنا
چائیے یہ وہی پالیسی ہے جس کے تحت سی آئی اے کے ایجنٹ بلیک واٹر کے روپ میں
پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرتے نظر آئے ریمنڈ ڈیوس جیسے ہزاروں ایجنٹ
ہمارے اداروں میں اس طرح سرائت کر چکے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آرہا دوست کون
اور دشمن کون ہے کیوں کہ بد قسمتی سے بعض پاکستانی بھی ملک دشمن عناصر کے
ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے ڈالروں کے عوض دھرتی ماں سے غداری کے مرتکب ہو رہے
ہیں جس کی ایک بڑی مثال ڈاکٹر شکیل آفریدی کی ہے جس کو پولیو مہم کی آڑ میں
استعمال کیا گیا اور اسامہ کو ایبٹ آباد میں ڈھونڈھ نکالا گیا اور اب
پاکستان میں پولیو جیسی اہم مہم مشکوک ہو کر رہ گئی ہے یعنی امریکہ پاکستان
کو دودھ تو دیتا آرہاہے لیکن مینگنیوں سے بھر کر ،اسی طرح جی ایچ کیو سمیت
کامرہ ائیر بیس ، مہران بیس پر حملوں میں بھی شامل ایسے بد قسمت پاکستانیوں
کے نام سامنے آئے ہیں جو ہوس زر کی بھینٹ چڑ گئے دراصل پاکستانی سیکورٹی
اداروں کو سہالہ پو لیس سنٹر میں تر بیت دینے کے بہانے آنے والے سی آئی اے
کے اہلکاروں نے سیکورٹی فورسز کو تربیت کم اور پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کا
نیٹ ورک قائم کرنے کی طرف زیادہ توجہ دی ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں لاہور میں دو
افراد کے قتل کے بعد جب پاکستان نے سی آئی اے کے تمام ایجنٹوں اور چیف کو
پاکستان سے نکالا تو امریکہ نے بہت واویلا کیا تھا اور پھرکیری لوگر بل کی
آڑ میں سی آئی اے کے اہلکاروں کی دوبارہ واپس پاکستان لانے کے لئے بضد رہنا
بھی تاریخ کا حصہ ہے یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے
پانچ سالوں میں جس طرح امریکیوں کو سینکڑوں کے حساب سے بغیر سیکورٹی کلیرنس
کے ویزے جاری کیے گئے ان کے کیا مقاصد تھے اس کا ثبوت حسین حقانی کی تخلیق
میمو گیٹ کی صورت میں سامنے آیااور آج حسین حقانی امریکہ میں بیٹھ کر
پاکستان کے مفادات کے خلاف امریکیوں کو اپنے قیمتی مشورے دیتے دکھائی دیتے
ہیں وطن کے ان جیسے غداروں اور ہوس زر کے مارے حکمرانوں کی وجہ سے وطن عزیز
آج سلامتی کے حوالے سے خطرناک ترین دور سے گزر رہا ہے بد قسمتی سے نظریہ
پاکستان کی دعویدار مسلم لیگ ن کی قیادت جو اقتدارکی باری کے لئے باولی
ہوئی جاتی ہے کو پیپلز پارٹی نے چاروں شانے چت کر کے ان امریکی کاسہ لیسوں
کی ایک معقول تعداد نگران سیٹ اپ میں بھی گھسیڑ دی ہے جو حالیہ انتخابات
میں اپنے جیسے امریکی کاسہ لیسوں کو جتوا کر اقتدار میں لا کر امریکیوں اور
ان کے اتحادیوں کو افغانستان سے فرار کے لئے محفوظ راستہ دینے کی راہ ہموار
کریں گے ؟ ایک طرف امریکی افغا نستان سے بھاگ رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان
کو تباہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں خود ہی اپنی دی ہوئی امداد کو بر باد
کرنے کے لئے دہشت گردی کی کاروایوں میں تیزی لائی جارہی ہے تاکہ پاکستان
اپنے معاملات میں الجھا رہے اور وہ اس تذ بذب کی کیفیت سے فائدہ اتھاتے
ہوئے افغانستان میں اپنی مرضی کا سیٹ اپ قائم کر کے خود تو یہاں سے کوچ کر
جائیں لیکن پاکستان اس کے اثرات بھگتنے میں لگا رہے اور امریکہ کا دستِ نگر
ہمیشہ ہمیشہ بنا رہے ادھر پاکستان فوج کے سربراہ نے ایساف کے کمانڈر سے
مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان سے پاکستان پر حملوں کو روکنے میں ایساف اپنا
کردار ادا کرے یعنی ہم جس کے سبب دہشت گردی کا شکار ہیں اسی عطار کے لونڈے
سے دوا مانگتے ہیں اگر ہم نے امریکی شر سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس
کی معاونت کسی بھی شعبے میں قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے تمام امریکی سی
آئی اے کے اہلکاروں سمیت یو ایس ایڈ اور ایسی دیگر این جی اوز کو پاکستان
سے نکال باہر کرنا ہو گا امریکہ نے پاکستان کو اتنی امداد گزشتہ 65سالوں
میں نہیں دی جس سے کہیں زیادہ گزشتہ دس سالوں میں امریکہ کی اس دہشت گردی
کی جنگ میں پاکستان کا مالی نقصان جو 70ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے ہوا ہے جب
کہ ایساف کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی کہیں زیادہ یعنی 45ہزار سویلین اور فوجی
اس دہشت گردی کی جنگ کا شکار ہوگئے ہیں یعنی سود وزیاں کے اس حساب میں
پاکستان کے حصہ میں سوائے خسارے کے کچھ حاصل نہیں ہوا سو پاکستان کو اب
ہاتھ جوڑ کر امریکہ کو کہنا ہوگا کہ بابا تمہای دوستی اور امداد سے تو بہ
ہم ایسے ہی بھلے ہیں ،کیونکہ یہ بات ہمارے حکمران تو کہنے سے رہے عوام کو
تو ان حکمرانوں نے لوٹ مار کے اس کلچر میں اس قدر بے حال اور بے حس کر دیا
ہے کہ ان کی حالت بھی اس ہجڑے کی سی ہوگئی ہے جسے جب شریر بچوں نے بہت تنگ
کیا تو اس نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ”لکھ دی لعنت ہو تم پر، شہیدوں کو
چھیڑتے ہو “ |