پتہ نہیں آپ میری اس بات سے متفق
ہونگے یانہیں کہ اگلے وزیراعظم نواز شریف ہونگے۔ اس بات کا یقین مجھے
مولانا فضل الرحمان کی وجہ سے ہے،کیوں؟ اسکا جواب آخر میں۔
پرانے زمانے میں ایک کہاوت بڑی مشہور تھی کہ"بنیے کا بیٹا ہے کچھ فائدہ
دیکھ کر ہی گرا ہوگا"۔ایک بنیے کا بیٹا پانچ پیسےکاتیل لینے گیا، واپسی میں
ایک جگہ گر گیا، کسی نے آکربنیے کو بتایا کہ آپکا بیٹا تیل لاتے ہوئے گر
گیا ہے اور تیل بھی گرگیا ، بنیے نے جواب دیا وہ بنیے کا بیٹا ہے کچھ فائدہ
دیکھ کرگراہوگا۔ جب بیٹا واپس آیا تو اُس نے بتایا، ابا جب میں واپس آرہا
تھاتو راستے میں ایک روپیہ پڑا تھا، اگر میں اٹھاتا تو سب دیکھ لیتے اسلیے
میں وہاں ایسے گرا جیسے ٹھوکر لگی ہو، پانچ پیسے کا تیل تو گرا مگر میں نے
ایک روپیہ اٹھا لیا۔ بنیے نے کہا مجھے معلوم تھا کہ میرا بیٹا کچھ فائدہ
دیکھ کر ہی گرا ہوگا۔
جنرل ایوب خان کا 1964 میں صدارتی انتخاب کا مقابلہ محترمہ فاطمہ جناح سے
تھا اور ملک بھر میں اتفاق رائے یہ تھا کہ اگر ایوب خان عہدے سے علیحدہ
ہوکر صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے تو ہار جائیں گے۔ آئین کے تحت صدر مملکت
کے عہدے پر رہتے ہوئے ایوب خان دوبارہ صدر مملکت بننے کے لئے انتخابات میں
حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ البتہ دو تہائی اکثریت کی حمایت سے آئین میں ترمیم
کرکے وہ اس آئینی پابندی کو ترمیم کے ذریعے ختم کر سکتے تھے ۔ ایوب خان کو
ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے جن دو ووٹوں کی ضرورت تھی ان
میں ایک ووٹ مولانہ مفتی محمود کا بھی تھا۔ مولانہ مفتی محمود نے ایوب خان
کو ووٹ دیا اور بعد میں اعتراض کرنے والوں کو بتایا کہ اگر ایوب خان صدارت
چھوڑ کرانتخابات لڑتے تو محترمہ فاطمہ جناح جیت کر پاکستان کی صدر بن جاتی
اور اسلامی نقطہ نگاہ سے عورت کا سربراہ مملکت بن جانا جائز نہیں ہے۔ انیس
سو ستر کے انتخابات میں مولانہ مفتی محمود کی جماعت جمعیت علمائے اسلام نے
سرحد [موجودہ خیبر پختونخواہ] اسمبلی میں چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی
اور ایک غیر جمہوری مطالبہ پیش کیا کہ وہ ایسی جماعتوں کی حمایت کریں گے جو
انہیں سرحد کا وزیر اعلی بنائیں گی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت صوبائی
اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد چالیس تھی اور چار اراکین کے ساتھ مفتی محمود
وزیر اعلیٰ بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کا نام
نیشنل عوامی پارٹی تھا، غفار خان بھی زندہ تھے اور ولی خان بھی مگرسیاسی
حالات کی وجہ سے مفتی محمود کا مطالبہ ماننےپرمجبور تھے لہذا مفتی محمود
وزیر اعلیٰ بن گئے۔ جنرل ضیاالحق نے 1977 میں حکومت پر قبضہ کیا تو اُس نے
پاکستان قومی اتحاد کی جماعتوں کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی تو جمعیت
علمائے اسلام نے اسکو قبول کرلیا اور اسکےتین وزیر جنرل ضیاالحق کی حکومت
میں شامل ہوگئے۔
مفتی محمود کی 1980 میں وفات کے بعد جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کے معاملے
پر جھگڑا ہوگیا اور جمعیت کے دو گروپ بن گئے جس میں سے ایک کے سربراہ
مولانہ فضل الرحمان بنے اور دوسرئے گروپ کے سربراہ مولانہ سمیع الحق بنے۔
جنرل ضیاالحق کے 1985 کےغیر جماعتی انتخابات میں بھی جمعیت علمائے اسلام ف
نے حصہ لیا جبکہ اُس وقت کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس میں حصہ نہیں لیا تھا
۔مولانہ فضل الرحمان نے اپنے والد مولانہ مفتی محمود کی سنت کی خلاف ورزی
کرتے ہوے 1994 میں بینظیربھٹو کی پیپلز پارٹی سے اتحادکرلیااور ایک عورت کی
حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اُس کے اتحادی بھی بنے۔ بینظیربھٹونے
مولانہ کو خارجہ امور کی کمیٹی کا چیرمین بنادیا تھا۔ امور خارجہ کی الف ب
سے ناواقف مولانا نے جسطرح اس کا استمال کیا اسکی کوئی مثال نہیں ملتی،
مولانا نے 1994 میں صرف ایک ماہ کے عرصے میں بے انتہا دورئے کیے جس پر
حکومت کے 6 لاکھ 35 ہزار روپے سے زیادہ خرچ ہوئے۔ مولانہ فضل الرحمان کو
مولانا ڈیزل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بینظیربھٹو کی حکومت کے دوران مولانہ
بینظیربھٹو سے ڈیزل افغاستان بھیجنے کے لیے پرمٹ لیاکرتے تھے یہ ہی وجہ ہے
بینظیربھٹو اور پیپلز پارٹی کے لوگ اپنی نجی محفلوں میں انکو مولانہ ڈیزل
کہا کرتے تھے۔
پرویزمشرف کی سیاسی غلطیوں کے دوران ہی 2008 کے انتخابات ہوئے۔اس انتخابات
میں متحدہ مجلس عمل کاشیرازہ بکھر چکا تھا لہذا علاوہ مولانہ فضل الرحمن کی
جماعت کے متحدہ مجلس عمل کی کسی جماعت نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، چونکہ
2008 میں مولانہ کی جماعت جمعیت علمائے اسلام ف کو فوجی قیادت کی مدد بھی
حاصل نہیں تھی اسلیےمولانہ فضل الرحمن کو قومی اسمبلی کی 7 اور صوبائی میں
خیبر پختونخواہ میں 14، بلوچستان میں 10 اورپنجاب میں صرف دو نشستیں ملیں۔
شاید بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو کہ 2008 میں مولانہ کو ڈیرہ اسمائیل
خان سے شکست ہوئی تھی جو ان کی آبائی سیٹ ہے، مولانہ بنوں سےکامیاب ہوئے
تھے۔ اگرچہ مولانہ کی جماعت 2008 کےانتخابات میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ
کرپائی تھی مگر مسلم لیگ ن کی حمایت ختم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کو حکومت
قائم رکھنے کے لیےآصف زرداری اور مولانہ کی دوستی بہت کام آئی۔ مولانہ نہ
صرف 2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کے اتحادی بن گے بلکہ کشمیر سے
متعلق خصوصی کمیٹی کی چیئرمین شِپ حاصل کی، مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تو وہ
کچھ نہ کرسکے لیکن اس چیئرمین کے زریعے اپنے معاشی معاملات بہتر کرتے رہے۔
وہ، اُن کے بھائی اور اُن کی پارٹی کے ممبران حکومت کے اتحادی ہونے کے ناطے
تمام مراعات بلکہ کچھ زیادہ ہی حاصل کرتے رہے، بلوچستان کا ہر ممبر تو وزیر
تھا لہذا جو حاصل نہ ہوا ہو وہ کم۔ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی چالوں کا
تو ہر کوئی معترف ہے،2010 میں اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ کے حصول
کیلئے مولانا نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا ڈرامہ رچا کر کامیابی سے
مولانا شیرانی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کرلی۔ اس کے
بعد مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی سے گلگت بلتستان کی گورنر شپ کا
مطالبہ کیا تھا لیکن ان کے دوست آصف زرداری نے ان کے اس مطالبے کو تسلیم
کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ گلگت بلتستان میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی
اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومت تھی۔ مولانہ فضل الرحمان کا گلگت
بلتستان کی گورنر شپ کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو وہ کچھ عرصے بعد حکومت سے
علیدہ ہوگے، شروع شروع میں تو حکومت نے مولانہ کومنانے کی کوشش کی مگرجب وہ
اپنے مطالبات پر اڑے رہے تو آصف زرداری نے بھی اُنکی پرواہ نہیں کی، اور
اسطرح پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کا اتحاد ختم ہوا۔
پیپلز پارٹی کی گذشتہ پانچ سال میں جو کاکردگی رہی اُس سے ہر ایک واقف ہے ۔
گذشتہ پانچ سال پیپلز پارٹی کےدور حکومت میں دہشت گردی ، ٹارگیٹ کلنگ،
بدترین کرپشن ، بری گورننس، طویل لوڈشیڈنگ، غربت کیساتھ اندرونی وغیرملکی
قرضوں میں اضافہ ہوا۔ خود کش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی یلغار نےکوئٹہ اور
پشاور جیسے بڑے شہروں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ ان تمام حالات کی وجہ
سے پیپلز پارٹی اور اُس کے رہنما اپنی حکومت کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی
سیاسی طور پر ختم ہوچکے تھے۔ مولانا فضل الرحمان انتہائی چالاک اورمعاملہ
فہم سیاستدان ہیں، اپنی سیاسی پوزیشن کے بارئے میں بھی وہ اچھی طرح جانتے
ہیں، آنے والے انتخابات میں اپنی کامیابی کے لیے پہلے تو انہوں نے متحدہ
مجلس عمل کے مردہ گھوڑئے میں جان ڈالنے کی کوشش کی مگر انکے پرانے اتحادی
ان کی چال میں نہ آئے۔ مولانا فضل الرحمان بھی بنیے کے بیٹے کی طرح تیل
لینے جارہے تھے یعنی سیاسی ہاتھ پیر ماررہے تھے کہ اچانک دسمبر 2012 میں
علامہ طاہر القادری پاکستان آئے اورپاکستانی سیاست پر چھاگئے اورجب جنوری
2013 میں علامہ نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو پاکستان کی سیاست میں ایک
بھونچال آگیا۔ نوازشریف کو اپنی آتی ہوئی باری دور جاتی نظر آئی تو انہوں
نے ایک کانفرنس میں ان جماعتوں کو بلالیاجو یا تو حکومت مخالف تھیں یا پھر
وہ علامہ طاہر القادری کے دھرنے کے خلاف تھیں ۔ مولانا فضل الرحمان بھی اس
کانفرس میں شامل تھے۔چار دن بعد علامہ طاہر القادری کا دھرنا ختم ہوگیا
اوراسکے ساتھ ساتھ علامہ کی سیاست بھی ختم ہوگی۔
شروع میں میں نے لکھا کہ "پتہ نہیں آپ میری اس بات سے متفق ہونگے یانہیں کہ
اگلے وزیراعظم نواز شریف ہونگے۔ اس بات کا یقین مھجےمولانا فضل الرحمان کی
وجہ سے ہے،کیوں؟" اسکا جواب یہ ہے کہ شاید مولانہ کی تیز آنکھوں نے بنیے کے
بیٹے کی طرح وہ روپیہ نواز شریف کی شکل میں دیکھ لیا ہے۔ ایسی وجہ سے نہ وہ
اب زرداری کے دوست ہیں اور نہ ہی اپنے پرانے اتحادیوں کے اتحادی۔ بنیے کے
بیٹے کی طرح وہ سیاسی ٹھوکر کھاکر مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش میں
لگے ہوئے ہیں۔ بنیے نے کہا تھامھجے معلوم ہے کہ میرا بیٹا کچھ فاہدہ دیکھ
کرہی گرا ہوگا، مولانہ مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمان کی سیٹ
ایڈجسٹمنٹ کی کوشش اس امید پر ہی ہوگی کہ اگلے وزیراعظم نواز شریف ہونگے۔
بنیے کے بیٹے کی داستان صرف ایک کہانی ہے، مگرمولانا فضل الرحمان کی داستان
ایک حقیقت ہے۔ |