آج امت مسلمہ دنیا میں جس ذلت و
بے بسی سے زندگی کے دن گن رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ چمکتے سورج
کی طرح واضح ہے۔ دنیا بھر میں کوئی ایک بھی اسلامی ملک ایسا نہیں کہ جس کی
بات مانی جائے یا کم از کم اس کی بات میں کوئی وزن ہو۔ ہر طرف خواری و
رسوائی ہی اس امت کا مقدر ہے۔لاوارث بچے کی طرح ہر کوئی اس امت پر ظلم
کررہا ہے۔دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک امت مسلمہ کا ہی خون
بہتا نظر آئے گا۔ امت مسلمہ پہ تنی عزت عظمت کی چادر تار تار ہو چکی ہے۔
قوت و رعب کے عظیم الشان قصر مشید میں ایسی دراڑیں پڑیں کہ دنیا پہ حکمرانی
کرنے والی امت مسلمہ کے لیے اپنی ساکھ بحال کرنا محال ہوگیا۔ مسلمان طرح
طرح کی مشکلات میں پھنس کر رہ گئے۔ پستی کی گھاٹی میں اتنی دور جاگرے کہ اب
اس سے نکلنا ناممکن نظر آنے لگا۔
یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ برصغیر کی عظیم علمی، روحانی اور سیاسی شخصیت حضرت شیخ
الہند مولانا محمود حسنؒ جب تحریک ریشمی رومال کے سلسلے میں مالٹا کی چار
سالہ قید سے رہا ہوکر اپنے وطن واپس لوٹے تو ایک دن بیان میں ارشاد فرمایا:
”ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں۔“ فرمانے لگے: ”میں نے جہاں
تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور
دنیوی، ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک
ان کا قرآن کو چھوڑ دینا، دوسرا آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔“
اگر بصیرت کے ساتھ غور کیا جائے تو امت کی پستی اور حوادثات و آفات سے
دوچار ہونے کی بالکل واضح وجہ و مرض وہی اختلاف امت اور قرآن کو چھوڑنا ہے
۔ قرآن مجید حکم دیتا ہے: ”واعتصمو بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا“ اور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”المومنون کجسد واحد“ جب قرآن و حدیث
کے ان احکامات کو پس پشت ڈالا تو مصائب چاروں طرف سے آپڑے۔ آج مسلمان اسی
حکم عدولی کی وجہ سے دنیا میں ذلت کا نشان بن کر رہ گئے ہیں۔
تمام اہل کفر مل کر مسلمانوں پر ایسے ٹوٹ پڑے ہیں جیسے بھوکا کھانے کی پلیٹ
پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ ظلم و سربریت عالم اسلام کا مقدربن چکی ہے۔ مسلمانوں سے
جینے کا حق بھی چھینا جارہا ہے۔ ہر قت یہود و نصاریٰ کی طرف سے کی جانے
والی سازشیں امت مسلمہ کی راہ میں کانٹوں کی طرح بکھری پڑی ہیں جن کا مقصد
امت مسلمہ کے مادی وسائل پر قبضہ کرنا اور روحانی قوت کو تباہ کرنا ہے۔ نئی
نسل میں تہذیبی، فکری اور ارتدادی یلغار کی دیوہیکل مصیبت بھی سر پر کھڑی
ہے۔ آج ملتِ اسلامیہ عظیم عددی اکثریت کے باوجود قابل رحم ہے۔ تمام شعبہ
ہائے زندگی اغیار کی یلغار کی زد میں ہیں۔ ایک طرف حکومت و اقتدار میں عرصہ
حیات تنگ کیا جارہا ہے تو دوسری طرف ملحدانہ نظریات پھیلائے جارہے ہیں۔ ہر
طرف فحاشی و عریانی کا دور دورہ ہے۔ رقص و سرود اور شراب و کباب کی محفلیں
سر عام سج رہی ہیں۔ اسلام اور قرآن کا نام لینے والے مسلمان تمام جرائم اور
بداخلاقیوں میں غرق ہیں۔ ہمارے بازار جھوٹ، فریب، سود اور قمار سے بھرپور
ہیں۔ ان کے چلانے والے نہ ہندو ہیں اور نہ ہی سکھ۔ یہودی نہ عیسائی بلکہ
ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ ہمارے سارے محکمے رشوت، ظلم و جور، کام چوری اور
بے رحمی کی تربیت گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ کام کرنے والے بھی کوئی مجوسی
نہیں، بلکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں۔ کیا ان حالات
میں ہم آپس میں دست و گریباں رہیں گے؟ ان تمام برائیوں سے صرف نظر کرکے ہم
ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالتے رہیں گے؟ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو جنگ و
جدل کا درجہ دیتے رہیں گے؟ معمولی مسائل کو کفر و اسلام کا معیار بناتے
رہیں گے؟ کیا سب مسلمانوں کا خدا، رسول، قرآن اور ایمان ایک نہیں ہے؟ تو
پھر ایک دوسرے کے خلاف اس قدر نفرت کیوں؟
اگر روز محشر ہم سب کے ماویٰ و ملجا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے
یہ سوال فرما لیا کہ میری شریعت اور میرے دین کے خلاف بغاوت ہورہی تھی۔
اسلام کے نام پر کفر کی تشہیر کی جاری تھی۔ قرآن و سنت میں کھلے عام تحریف
کی جارہی تھی۔ اللہ و رسول کی نافرمانی اعلانیہ کی جارہی تھی۔ ان حالات میں
تم کہاں تھے؟ تم نے ان سیلابوں کے آگے بند کیوں نہ باندھا؟ کیوں تم نے اتنے
اہم فریضے کو چھوڑکر چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا؟ ذرا
سوچیے تو سہی اگر یہی سوالات پوچھ لیے گئے تو کیا ان کا کوئی جواب ہم سے بن
پڑے گا؟
اگرچہ آج سیاسی اختلافات، اقتصادی مفاد پرستی اور بہت سی دوسری خرافات کا
رکنا مشکل ہے۔ کیا دین و مذہب کے نام پر کام کرنے والی جماعتیں اور لوگ بھی
اختلافات ختم نہیں کرسکتے؟ کیا تمام مذہبی و نظریاتی لوگ اللہ کے دین کی
خاطر اپنے اختلافات کو اعتدال پر لاکر ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوسکتے؟
اگر آج ہم اسلام کے بنیادی اصول کی حفاظت اور الحاد و بے دینی کے سیلاب کی
مدافعت کو ضروری سمجھ لیں تو تمام اختلافات اعتدال پر آسکتے ہیں۔ ہماری
جتنی طاقت و صلاحیت آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صرف ہورہی ہے، اگر وہی طاقت
کفر و الحاد، بے دینی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی کے خلاف خرچ ہوتی
تو ہم اپنے بنیادی مقصد میں کامیاب ہوجاتے۔
یہ بات یاد رہے کہ حدیث مبارک میں کفر کو ملت واحدہ فرمایا ہے اور مسلمانوں
کو جسد واحد فرمایا ہے اس لیے کفار تمام مسلمانوں کو بلا تفریق اپنا دشمن
تصور کرکے ان پر نظریاتی، فکری، تہذیبی اور عسکری حملہ بلا امتیاز کرتے
ہیں۔ کفار تو یہ بات سمجھ گئے کہ تمام مسلمان ایک ہیں اور کافر بھی ایک ہیں
لیکن صد افسوس! مسلمان یہ بات ابھی تک سمجھ نہ پائے اسی لیے دنیا میں خسران
ان کا مقدر بنا ہوا ہے۔ جب تک ہم آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیج
بوتے رہیں گے، اسی طرح نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ لہٰذا دنیا میں سربلندی سے
جینے کے لیے اپنے تمام اختلافات کو بھلاکر جسد واحد اور سیسہ پلائی دیوار
بننا ہوگا۔ یہی شریعت کا حکم ہے اور یہی وقت کی پکار ہے۔اگر ہم نے اس حقیقت
کو اب بھی نہ سمجھا تو ہمیشہ کی ذلت و رسوائی ہمیشہ کے لیے ہمارا مقدر بن
جائے گا،ہم ہمیشہ ہی اغیار سے زندگی کی بھیک مانگتے رہیں گے۔خدا کرے کہ ہم
سب اس حقیقت کو سمجھ کر بلا امتیاز صرف اسلام اور مسلمان کے لیے کام کرنے
والے بن جائیں۔ |