چکنے گھڑے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مملکت خداداد پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں واقعی آزادی ہے اور لوگ پوری طرح واقعی آزاد ہیں۔ آزادی کا اصل مفہوم یہیں سے شروع ہو کر یہیں پر ختم ہوتا ہے۔

یہاں پر اس سر زمین پر کوئی بھی کبھی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اور کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ یہاں پر آزادی ہی آزادی ہے۔ اصل آزادی یہ ہے۔


اب ذرا دیکھئے لیاقت علی خان کو مار دیا ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
۱۹۷۱ میں ملک توڑ دیا۔ سب نے مل کر ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
جنرل ضیاء نے بھٹو کو لٹکا دیا ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
جنرل ضیاء سمیت کئی جنرلوں کو بم سے اڑا دیا گیا ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
نواز شریف نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
مشرف نے شریف فیملی کو ملک سے نکال باہر کیا ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
بے نظیر دن کی روشنی میں ہزاروں کے سامنے قتل ہوئی ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
وزیر داخلہ کا ماضی سب کو پتہ ہے۔ موصوف آج وزیر داخلہ ہیں ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
طاہر قادری صاحب نے خواتین کے زیور تک بکوا دئے ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
اجمل پہاڑی بھائ با عزت بری ہو گئے۔ ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
کامران فیصل کو خود کشی کروائی گئی ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
عمران خان کی بیٹی امریکہ میں انصاف کو ترس گئی ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
ڈرون حملوں نے نئے ریکارڈ قائم کر ڈالے ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
ادھر وینا ملک نے اپنے آپ کو بے لباس کر دیا ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔
ادھر کرکٹرز نے قوم کو بے لباس کر دیا ۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔

پیدا ہونے سے پہلے ہی بچہ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ زرداری انکل کے سوئس اکاؤنٹ میں کتنے ارب ڈالر موجود ہیں۔ اور میرے حصہ میں آئی ایم ایف کا کتنا قرض آتا ہے۔ ماشاءاللہ کامران خان اور حامد میر کی آواز گھر گھر جاتی ہے۔

چونکہ یہاں پر آزادی حاصل ہے آپ کچھ بھی کر لیں۔ اس لئے کہ کچھ نہیں ہوتا۔ اصل آزادی اسے کہتے ہیں۔

آخر کچھ کیوں نہیں ہوتا اس کی وجہ اس مضمون کے عنوان میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید کہ میری بات دل نادان پہ اثر کر جائے۔ لیکن ہمیں نہ جانے کیوں دلی یقین ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔

یہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں۔ ورنہ ہماری دیدہ دلیری اور دانستہ اعمال کی فہرست اتنی طویل ہے جتنی شیطان کی عمر۔

تو صاحب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری چھوٹی چھوٹی شیطانیاں کس کھاتے میں آتی ہیں۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ ہماری حرکتوں کو پکڑتا پھرے۔

آپ کی وابستگی کسی سیاسی جماعت سے ہو سکتی ہے۔ اس لئے گزارش ہے کہ معزز قارئین میں سے کسی کو تپنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ

بات آپ کی نہیں بات ہے زمانے کی
پروفیسر خیر اندیش
Murtaza Nasir
About the Author: Murtaza Nasir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.