شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے
برسوں پہلے اپنی شاعر ی میں قوم کو ایک ولولہ انگیز پیغام دیا تھاکہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہءگندم کو جلادو
مجھے یہ شعر اس لئے یا د آیا کہ کچھ عرصہ قبل پنجاب سمیت پورے ملک میں
لوڈشیڈنگ کی ستائی ہوئی عوام نے سڑکوں پر آکر جو کچھ کیا وہ اس شعر کی بلکل
درست عکاسی کرتا ہے۔ عوام آخر ہتھے سے اکھڑ ہی گئے۔ عوام کا ایک سیلاب
جابجا امڈ آیا جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے تیونس ، مصر اور لیبیا میں امڈ آیا
تھا ، فرق صرف اتنا تھا کہ ان ممالک کی عوام اپنی نااہل و کرپٹ ، غاصبانہ
سوچ کی حامل اور ظلم و جبر سے لبریز حکومت کےخلاف سڑکوں پر آئی تھی اور
ہماری عوام ابھی چونکہ اصل زمہ داران کا ادراک کرنے کی صلاحیت سے مالا مال
نہیں ہے اور شائد ہماری قوم کی قوت برداشت دوسری قوموں کے مقابلے میں کہیں
زیادہ ہے اس لئے ہماری عوام تاحال فقط لوڈ شیڈنگ کے خلاف سراپااحتجاج نظر
آئی ، عوام کو درپیش دیگر مسائل کے لئے خود عوام کا احتجاج شائد اس لئے بھی
ناپید ہے کہ ان کو ملک میں کوئی ایسی لیڈر شپ نظر نہیں آتی جو موجودہ
حکمرانوں کی جگہ لے سکے۔ عوام کو اور باتوں کی سمجھ آئی ہو یا نہیں بہرحال
یہ سمجھ ضرور آچکی ہے کہ صرف چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ
حکمرانوں کی تبدیلی کے بعد بھی یہی جاگیردارانہ ، وڈیرانہ اور سرمایہ
دارانہ سوچ کا حامل طبقہءاشرافیہ جو قیام پاکستان کے چند برسوں بعد سے ہی
ہم پر جدی پشتی حکمرانی کرتا چلا آرہا ہے ان ہی میں سے پھر کوئی ملک پر
قابض ہوجائے گا اور کچھ عرصہ بعد عوام اور ملک کا یہی حال ہوگا جو ابھی ہے
یعنی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اقتدار کی تبدیلی پاکستان میں ایک ایسا
پسندیدہ میوزیکل چیئر گیم بن چکا ہے جس میں ہمارے سیاستدان پوری تندہی سے
شامل ہیں۔ ہمارے لیڈران عوام کو محض اپنے اپنے مفادات کی خاطر استعمال میں
لاتے ہیں ہماری عوام کبھی یہ بات نہیں سمجھ سکیں گے کہ موجودہ حکومت کے اس
طویل دور اقتدار میںعوام شروع دن سے ہی مہنگائی ، بیروزگاری ، ٹیکسز کی
بھرمار، زخیرہ اندوزی اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کا تنہا ہی سامنا کررہے تھے
تب عوام کے احتجاج میں شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے خواہشمند یہ سیاستدان کہا ں
تھے؟ اور اب کہا ں سے اور کیوں انھیں عوام کو درپیش تکالیف کی یاد آگئی؟آج
ہر سیاستدان یہی کہتا نظر آرہا ہے کہ ہم عوام کی طاقت سے موجودہ کرپٹ
حکمرانوں کو گھر بھیج دیں گے۔اپوزیشن جماعتوں کو عوامی طاقت کا تو بہت خیال
ہے مگر رہنما ﺅ ں میں سے کوئی ایک بھی ابھی تک اسٹیٹ لائف بلڈنگ سے گر کے
ہلاک ہونے والے نوجوان کے اہل خانہ کی مالی مدد کرنے نہیں پہنچا،بلکہ
صورتحال یہ ہے کہ الٹا غمزدہ بوڑھے والدین بیٹے کی حادثاتی موت کا زخم دل
پرلئے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے
سیاستدانوں کو عوام سے ، عوامی مسائل سے، عوام کو درپیش تکالیف سے غرض ہے
یا صرف اپنے اقتدار میں آنے سے۔ اصل بات یہ ہے کہ اب میوزیکل چیئر گیم کا
آغاز ہوا چاہتا ہے۔ سیاسی رسہ کشی زور پکڑرہی ہے۔ موجودہ حکمرانوں سے
امریکہ اب زیادہ خوش نظر نہیں آتا، ڈومورکے مطالبات تشویش اختیار کرتے
جارہے ہیں۔ ۔ لوڈشیڈنگ کی ستائی عوام پہلے ہی سڑکوں پر ہے یعنی صرف چنگاری
کو ہوا دینے کی دیر ہے اور کرسی خالی۔ خدارا عوام پر رحم کرو اگر ہم ایک
نئی صبح کے خواہشمند ہیں تو ہم سب کو اپنا اپنا انداز فکر بدلنا ہوگا۔ مرض
معلوم نہ ہو سکے تو یہ بدقسمتی ہے لیکن اگر تشخیص کے بعد بھی علاج سے گریز
کیا جائے تو افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی سیاست کا مرض اصل میں ہے کیا
؟ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا خاتمہ کہا ں جاکر ہوتا ہے؟ اور غربت کو ناپنے والا
پیمانہ کونسا ہے؟ یہ کچھ سوالات ہیں جو اکثر ذہنوں میں اٹھتے ہیں اس لئے ان
کے جواب بھی ضروری ہیں۔ من مانی ، فوج کی سیاست میں مداخلت ، جاگیرداروں
اور طاقتوروں کا ظلم و ستم ، احتساب سے بے نیاز یا ظالمانہ احتساب سے
خوفزدہ نوکرشاہی۔ یہ ہے وہ وائرل انفیکشن جس میں ہمارا سیاستدان مبتلا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کا خاتمہ اپنے بچے فروخت کرنے یا یتیم خانے میں جمع
کروانے سے ہوتا ہے ۔ غربت کو ناپنے والا آلہ خودکشی ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے
بعد سے زرداری صاحب کی خوش قسمتی رہی یا پھر مہنگائی، پرمژدگی اور مایوسی
کے پاٹ میں پسی ہوئی زخموں سے نڈھال عوام کی بدقسمتی کہ ملکی اور عالمی سطح
پر ایسے حالات پیدا ہوگئے یا ازخود پیدا کردیئے گئے کہ حکومت اپنی مدت پوری
کرتی نظر آرہی ہے اور عوام کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھنے کے بجائے اس پوری
ہوتی ہوئی حکومتی مدت کو جمہوری حکومت کی کامیابی قرار دئیے جانے کا سرکاری
راگ الاپا جا رہا ہے۔ ملک میں اس وقت جو صورتحال ہے وہ اس سے قبل بھی ہر
دور میں رہی ہے ۔ اگر خلوص دل سے صورتحال کو سنبھالنا مقصود ہوتا تو یہ کب
کی سنبھل چکی ہوتی مگر ہمارے حکمران تو بس کرسیاں سنبھالنے کی تگ ودو میں
لگے ہوئے ہیں ۔ ہر شخص اس سے زاتی فائدہ اٹھانے کے چکر میں سرگرداں نظر آتا
ہے۔ حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلاجارہاہے، دونوںطرف غلط
فہمیاں اور دوریاں جنم لے رہی ہیں ۔ یہی دوریاں اور غلط فہمیاں اکثر اوقات
حوادث پیدا کرتی ہیں۔جس معاشرے میں انصاف اور قانون کی دھجیاں بکھیر دی
جائیں وہاں پھرماضی میں برپا ہوئی کراچی ، کوئٹہ ، گوجرانوالہ اور لاہور
جیسی لاقانونیت جنم لیتی ہے اور جہا ں لاقانونیت کا دور دورہ ہو وہا ں لوگ
خود قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور انصاف دینے اور دلانے کے لئے
عدالتوں کے بجائے سڑکوں کا رخ کرتے ہیں اور جب مظلوم عوام سڑکوں پر نکلتی
ہے تو حالات کیا ہوجاتے ہیں یہ کسی حکمران یا اپوزیشن سے پوشیدہ نہیں۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنے اپنے دائرہ کار کا بخوبی علم ہوتا ہے،
پاکستان کی صورتحال قابل تعریف نہیں ہے۔ ماضی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے
کہ غیر سیاسی فیصلوں اور غیرسنجیدہ قیادت کے غیر زمہ دارانہ رویئے نے قومی
یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان ہی پہنچایا ہے، 1971کا سقوط ڈھاکہ بھی اسی
غیر زمہ دارانہ رویئے کا مظہر تھا ۔ پاکستان جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس
میںسیاستدانوں کو میوزیکل چیئر گیم کی تگ ودو سے باہر نکل کر حق و سچ کہنے
کی جرآت کر نی چاہئے اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے حق کی آواز بلند
کرنے والوں کا ساتھ بغیر کسی لالچ کے دینا چاہئے نہ کہ اپنے اقتدار کی راہ
ہموار کرنے کی سعی کی خاطر۔ویسے اقتدار کی کرسی کا نشہ بھی عجیب نشہ ہے ،
انسان اس کرسی کو دور سے دیکھنے سے مخمور ہوجاتا ہے تو اس پر بیٹھنے والا
مدہوش کیوں نہ ہو؟ ہماری تاریخ میں اس کرسی کے حصول کے لئے کیا کیا جتن
نہیں کئے گئے ہیں ۔آج کے حکمران کلمہءحق کہنے والے کو یوں غائب کرواتے ہیں
کہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ۔پاکستان میں اس
وقت ہر کوئی کرسی کی کھینچاتانی میں لگا ہوا ہے عوام پر کیا گزر رہی ہے کو
ئی پرسان حال نہیں۔صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لئے کوئی مﺅثر ادارہ نہیں
بن سکا جس کے باعث پاکستان میں دل کی دھڑکن کی رفتار سے بھی زیادہ تیز
رفتاری سے کھانے پینے سے لیکر ہر شے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس بے وجہ
مہنگائی نے ہر گھر کا بجٹ متاثر کر رکھاہے ۔ ہر گھر کا سکون برباد کررکھا
ہے۔ ہر گھر کا موضوع مہنگائی ہے، آٹا مہنگا ہوگیا، تیل مہنگاہوگیا، سبزی ،
دالیں ، گوشت اور پٹرول کی قیمتیں تو آسمان سے باتیں کررہی ہیں ، کوئی
پرائس کنٹرول کمیٹی نہیں ہے جو اس بڑھتے ہوئے طوفان کے آگے بند باندھ
سکے۔اس پر متضاد سی این جی کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ بندش نے عوام کو دھکے
کھانے اور گاڑیوں کو دھکا لگانے پر مجبور کردیا ہے۔ روٹی ، کپڑا اور مکان
کا نعرہ لگانے والو ں نے رفتہ رفتہ غریب عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین
لی ہے، عوام کی جیبوں پر ظلم کی انتہا کر دی گئی ہے ، ضروریات زندگی انکی
دسترس سے دور کرکے ان کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ بجلی کا بحران ناقابل
برداشت حد تک تجاوز کرچکا ہے ۔ عوام موم بتی اور لالٹین کے زمانے میں چلے
گئے ہیں، بلب سے زیادہ موم بتی خریدی جارہی ہے ، یوں سمجھ لیں کہ ہم اجالوں
سے اندھیروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ پورا پاکستان بجلی کے شدید بحران سے دوچار
ہے مگر ایوان صدر، وزیر اعظم ہاﺅس اور پارلیمنٹ کی عمارتیں پوری آب و تاب
سے جگمگارہی ہوتی ہیں، ان ایوانوں کے باسی ولایتی کمبل اوڑھ کے سکون کی
نیند سوتے ہیں جبکہ بے چارے عوام سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کروٹیں بدل بدل کر
راتیں گزار رہے ہیں۔ تنخواہوں اور پینشن میں 15فیصد جبکہ مہنگائی میں
100فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔ معلوم نہیں وہ دن کب آئیگا جب حکمرانوں اور
عوام کے مسائل یکساں ہونگے؟ ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ حکمرانوں کے بدلنے
سے تقدیریں بدلنے لگیں گی ، بیماروں کو دوا ، بھوکوں کو غذا اور ستم زدوں
کو نجات مل سکے گی۔ اگر محض چہرے بدل ڈالنے سے ملک کی تقدیر بدل سکتی تو
خواجہ ناظم الدین اور ایوب خان سے لیکر میاں اور بی بی تک کو خیر باد کہنے
سے کچھ تو بھلا ہوا ہوتا۔ دودھ کی نہریں نہ سہی ، نلکوں میں پانی تو آتا۔
حکمرانو ں کے چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، کسی ایک کی رخصتی پر ظلم تمام
ہوتا ہے اور نہ ہی خیر کی فصل لہلہاتی ہے۔ اجتماعی عوامی شعور کا یہی وہ
لمحہ ہے جو قوموں کی زندگی میں اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے اور یہاں فتح و
شکست نہیں ، منزل کی طرف سفر کرنا ہی مقصود ہوتا ہے۔ کاش ہمارے حکمران بھی
اس بڑھتے ہوئے عوامی اجتماعی شعور کا احساس کرلیں ۔ |