کیا ایسا اقتدار چاہتے؟

شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

پانچ سالوں سے پاکستانی غریب عوام کو در در کی ٹھوکریں کھانے ، ظلم و ستم اور دھوکہ دینے والوں کے لئے الیکشن کی صورت میں یومِ حساب آنے والا ہے۔ ہر دفعہ کی طرح اس مرتبہ بھی سیاسی قائدین و سیاسی ارکان نے غریب عوام سے ووٹ لینے کے لئے تگ و دوجاری کر رکھی ہے۔ ایک ووٹ جو کہ غریب کی اصل طاقت ہے جس سے وہ آج تک ناواقف ہے اور رہے گا۔ہر سیاسی پارٹی اس مرتبہ کے الیکشن میں حصہ لینے اور جیتنے کی بھر پور امید رکھتے ہوئے عوام کی سوچ کے مطابق اپنا اپنا منشور لائے ہیں تاکہ عوام کو یہ بتا سکیں کے پچھلے سالوں کی طرح اس مرتبہ ہم آپ پر ظلم وستم کا ہتھ ہولا رکھیں گے کیونکہ اس مرتبہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی آمد آمد نے پرانے کھلاڑیوں کے دن رات کا سکون چھین لیا ہے۔ہر سیاسی قائدین اور مقامی سیاست دان عوام کے لئے سیاسی اسٹالز لگائے بیٹھے ہیں اور عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اپنی وفاداریوں اور کام جو کہ خالصتاً عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئے گئے تھے کو بار بار ان کا سہارا لے کر اگلی مربتہ بھی اقتدار میں آنے اور مزہ لینے کی جستجو ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔عوام بھی خوب جانتی کہ ان کے کئے گئے فلاحی کاموں سے غریب عوام کتنی مستفیدہو رہی ہے۔ضلع میانوالی کی سیاست بھی عجیب و غریب رخ اپنائے ہوئے ہے۔ضلع کو اﷲ تعالی نے دو ایٹمی بجلی گھر اور ان سے 1300 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا ضلع بنا رکھا جو کہ خود اپنی ہی بنائی ہوئی بجلی استعمال کر نے سے محروم ہے۔کروڑوں روپے کی زرعی اراضی دریا برد کرنے والی قوم کو اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ۔سیاسی رہنماﺅں اور مقامی رہنماﺅں نے بھی چپ کا روزہ رکھا لیا ہے۔کروڑوں روپے کا خالص منافع وفاقی حکومت روزانہ لے رہی ہے مگر اس قوم کو جس نے اپنی زرعی اراضی اس لئے دریابردکی تھی کی قوم اورعوام کوسکھ ملے گا لیکن بجائے سکھ کے عوام کے حصے میں دکھ اور پریشانیاں ڈال دی گئی ہیں۔ضلع بھر میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 گھنٹے سے تجاوز کر گیا ہے۔گرمی کی شدت میں اضافہ سے مرد،خواتین،بچوں کے ساتھ ساتھ بزرگ مریضوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ہر حلقہ کے سیاسی نمائندے ہر دفعہ کی طرح عوام سے وعدے کرتے اور کیے گئے وعدوں کو نبھانے کا عزم کرتے لیکن یہ الگ بات کہ ان کے عوام سے کئے گئے وعدے کبھی وفا نہیں ہوئے۔اس دفعہ بھی جذباتی نعرے اور وعدے کئے جا رہے ہر سیاسی نمائندہ اپنی جماعت کے منشور کو ہر جگہ بیان کرتا اور اس کو پورا کرنے کے لئے پرعزم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مخالفین کو بھی نیچا دیکھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔میرے نزدیک یہ سب سیاسی ارکان صرف اور صرف ایسا اقتدار چاہتے جہاں غریب کو مزید غریب بنانے کی کوشش کی جائے، مہنگائی کو مزید اوپر لایا جائے، بےروزگاری ،بدامنی ، لوٹ مار، کرپشن،دھوکہ دہی، جھوٹ وغیرہ کو فروغ دیا جائے،ایسا اقتدار چاہتے جہاں جعلی ڈگریوں کی بنیادوں پر الیکشن لڑسکیں،کروڑوں روپے کی ٹھیکے بغیر کسی جانچ پڑتال کے اپنے رشتہ داروں کو دیئے جاہیں،ایسا اقتدار چاہتے جہاں عوامی فلاح کے نام پر اربوں روپے اپنے بنک اکاﺅنٹس میں ڈالے جائیں،غریب سے روٹی ، کپڑا اور مکان چھین لیں۔ ایسا اقتدار چاہتے جہاں خود تو پرٹوکول کے ساتھ آئیں جائیں لیکن غریب کو پبلک ٹرانسپورٹ بھی میسر نہ ہو، خود تو رہیں پولیس کی رکھوالی میں لیکن غریب عوام کی رکھوالی چور ،ڈاکو کریں۔ایسا اقتدار چاہتے کہ ڈرون حملے ہوتے رہیں، ملکی سلامتی خطرے میں چلی جائے لیکن اپنا کمیشن وقت پر ملتا رہے چاہے بے گناہ لوگ ہزاروں کی تعدادمیں مر جائیں، بے گھر ہوجائیں،۔ ایسا اقتدار چاہتے جہاں پورے پانچ سال اسمبلیوں میں بیٹھ کر ایک لفظ منہ سے نہ بولا گیا ہو، جہاں یہ اپنی تھکن اترانے کے لئے اور سونے کی غرض سے آئیں۔ایسا اقتدار چاہتے جہاں ان سے کوئی نہ پوچھے ، جس کو مرضی سزا دیں، جس کو مرضی نوکری سے ہٹا دیں، جس کو مرضی عزت دیں ، جس کو مرضی ذلت دیں، جس کی عزت لوٹ لیں ۔ایسا اقتدار چاہتے جہاں غیر ملکیوں کو آقامانا جائے اور غریب کو دہشت گرد سمجھ کر سکیورٹی کے نام پر گھنٹوں چیکنگ کی جائے،یہ ایسا اقتدار چاہتے جہاں یہ غریب کی پہنچ سے کوسوں دور ہوں، اپنے لئے تو بہتر علاج و معالجہ ہو، اعلیٰ تعلیمی حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک جا سکیں، عظیم و شان سرکاری رہائشی گھر ہو، نوکروں کی لائنیں ہوں، گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہو ں۔ایسا اقتدار چاہتے جہاں ان کے آنے سے پہلے سڑکوں پر ٹریفک کو روک دیا جائے چاہے کوئی ایمرجنسی کی حالت میں مریض زندگی و موت کی جنگ لڑ رہا ہو، چاہے مائیں سڑک کنارے، رکشے یا گاڑی میں ہی بچوں کو جنم دیں ۔یہ ایسا اقتدار چاہتے جہاں عوام کے قسمت کے فیصلے ان کے ہاتھوں میں ہوں،جہاں سانس لینا بھی ان کی مرضی کا ہو،جہاں سرکاری وسائل کو غلط استعمال کیا جائے، جہاں اپنی من مانی کی جائے، جہاں عیش کی جائے،جہاں پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے، انڈسٹریز،حکومتی مشینری اور نہ جانے کون کون سے ادارے کو انا کی بھینٹ چڑھا دیئے جائیں۔یہ ایسا اقتدار چاہتے جہاں یہ خود تو ٹیکس نہ دیں،جہاں یہ خود بنکوں سے قرضے لے کر معاف کرالیں۔یہ ایسا اقتدار چاہتے جہاں اپنے ہی لیڈروں کی اموات کا پتہ نہ لگا سکیں، جہاں بچوں سے والدین چھین لیے جائیں،دہشت گردی کے نام پر فوجی جوانوں، پولیس اہلکاروں اور افسران کوغیر جنگ میں دھکیل دیا جائے،جہاں غلط پالیسوں کی وجہ سے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا جائے۔ یہ ایسا اقتدار چاہتے جہاں غریب تو بجلی و گیس اور دووقت کی روٹی کو ترسیں ۔یہ ایسا اقتدار چاہتے جہاں جعلی ڈگری والے ان کے نمائندے ہوں،جہاں حکومت گزر جانے کے بعد بھی اپنی اور رشتہ داروں کی سکیورٹی کے لئے فل پروٹوکول ہو۔یہ ایسا اقتدار چاہتے جہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ساتھ بیرون ملکوں میں قید پاکستانیوں کو رہا کر نے کے لئے کوئی اقدامات نہ کرنے پڑیں اور پتہ نہیں یہ کیسے کیسے اقتدار چاہتے جس کی نہ تو مجھ کو سمجھ نہ ہی آپ کو سمجھ۔پس آخرمیں صرف اتنا لکھوں گا کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اور ایسے اقتدار چاہنے والوں اور غریب لوگوں کو دھوکہ دینے والوں کے لئے یوم حساب دور نہیں اور اس مرتبہ اس کو ووٹ دیں جو اس جیسا اقتدار نہ چاہتا ہو۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 88646 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.