30 اکتوبر 2011 کو لاہور میں
تحریک انصاف کا عظیم الشان جلسہ ہوا تو مفاد پرست عناصر نے تحریک انصاف کا
رُخ کرنا شروع کیا جسکی وجہ سے سونامی کے مضبوط ہونے کا تائثر پیدا ہونے
لگا۔ بڑے بڑے مگر بد نام زمانہ پرانے اور روایتی سیاست دان تحریک انصا ف
میں شامل ہونے لگے جِن میں سے بعض مشروط اور بعض غیر مشروط طور پر عمران
خان کے ساتھ چلنے کو تیار ہوئے۔ یہاں ایک بہت ہی اہم سوال نے جنم لیا اور
وہ یہ کہ کیا اِن آنے والے پرانے کھلاڑیوں نے تحریک انصاف کے نظریات کے
سامنے گُٹھنے ٹیک دئیے یا تحریک انصاف کے لیڈروں کے زمینی حقائق کو تسلیم
کرتے ہوئے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا۔کیونکہ جو لوگ بھی کپتان کی ٹیم میں شامل
ہوئے اُن میں شاید ہی کوئی ایسا ہو کہ جس پر کرپشن اور بد عنوانی کے
الزامات نہ ہوں۔ باہر حال یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہر دور میں چڑھتے ہوئے
سورج کی پوجا کی ہیں اور اپنے غلیظ مفادات کو اولین ترجیع دی ہے۔ آج کے
تحریک انصاف میں آئی جے آئی، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اورجے یو آئی سمیت کئی
بیماریوں کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ چونکہ تحریک انصاف کے مسودہ آئین میں یہ
بات واضع طور پر لکھی گئی ہے کہ جو لوگ ذاتی مفادات کیلئے سیاسی وفاداریاں
تبدیل کرتے ہیں اُن کو پارٹی میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ لیکن پھربھی ہر
قسم کے لوگوں کو آذادانہ طور خوش آمیدید کہا گیا۔
میرے خیال میں اُس وقت ضرورت اِس امر کی تھی کہ تحریک انصاف کے قائدین پہلے
ہی یہ سوچ لیتے کہ آخر یہ لوگ اتنی جلدی اپنی وفاداریاں کیوں تبدیل کر لیتے
ہیں ۔ اِس کا جواب بہت ہی سادہ سا ہے،یہ لوگ ہوس،اقتدار اور دولت کے پجاری
ہیں اور ذیادہ دیر تک اِن چیزوں کو ٹھکرا نہیں سکتے اور جہاں کہیں سے بھی
موقع ملے اپنی پیاس بُجھانے چلے آتے ہیں۔ یہ لوگ ماضی میں کسی اور جماعت کا
حصہ تھے آج سونامی کا حصہ ہیں اور کل شاید کسی اور کے آستین میں گُھس جائیں۔
کیونکہ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھُپی نہیں ہے کہ یہ سب لوگ اقتدار پر
براجمان ہونے اور تحریک انصاف کے ٹکٹ سے الیکشن لڑنے کیلئے ہی شامل ہوئے
ہیں۔ لیکن یہاں ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے پہلے ہی یہ
فرما دیا تھا کہ کسی ایسے شخص کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا جس کے اُوپر
کرپشن کے چارجز ہوں۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ تحریک انصاف نوجوانوں کو آگے لے
کر آئیگی۔ لیکن حال ہی میں سوات کے جلسے میں اعلان کیا گیا کہ نوجوانواں
کوصرف 25% ٹکٹ ملے نگے۔ اَب یہ لوگ کرپٹ بھی ہیں اور نوجوان بھی نہیں ہیں۔
اسلئے پارٹی پالیسی کے مطابق اِن لوگوں کو الیکشن کا ٹکٹ دینا درست نہیں ہے۔
لیکن اگر اِن میں سے کسی کو ٹکٹ نہ ملا تو یہ بات بھی ذہن نشین کر لی جیئے
کہ جس طرح اِنہوں نے عمران خان کی بیعت کی اسی طرح عمران خان کو چھوڑنے میں
بھی ذیادہ وقت نہیں لگے گا۔کیونکہ یہ لوگ نعرے لگانے کیلئے نہیں بلکہ اپنی
شان میں نعرے لگوانے کیلئے تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔
قصہ مُختصریہ ہے کہ کوئی کہے یا نہ کہے، عمران خان اپنے اکثر پُرانے اور
ایماندار ساتھیوں کی نظروں میں کافی حد تک گِر چُکے ہے اور نئی دولہنوں کے
نخرے تو ویسے ہی آپ کو معلوم ہیں کہ خدا جانے کب کیا مانگنے لگ جائے۔ اﷲ
کرے کہ میری پیش گوئی غلط ثابت ہوجائے لیکن میرا مطالعہ اورہماری تاریخ
مجھے یہ بات لکھنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ آنے والے چار سے پانچ سالوں تک
تحریک انصاف کے پاس گِنتی کے لوگ بچ چکے ہونگے۔اور اگر یہ ہجوم اسی طرح حدِ
نظر تک برقرار ہوں، تو نظریات کی دھجیاں اُڑ چکی ہونگی۔ بالکل اُسی طرح
جیسے قائداعظم، علامہ اقبال، ذوالفقار علی بھٹو اور کئی عظیم لیڈروں کے
نظریات کے ساتھ ہوا۔ واﷲ اعلم۔۔۔ |