پاکستانی عوام کی حالت نہیں بدل
سکتی کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس ملک کی سیاست پر وڈیرے ،جاگیر دار اور سرمایہ
دار جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور عوام کا یوں ہی استحصال ہوتا رہے گا
غریب دن بدن غربت کی دلدل میں دھنستا جائے گا اور امیرزادے مزید اس ملک کے
غریب عوام کا خون چوسنے کے لیے کوچہ بازاروں میں اپنے قلعے مضبوط بنارہے
ہیں یہاں سب کچھ امیروں کے لیے ہی بنا ہے سب سیاسی پارٹیاں عوام کے ساتھ
فراڈ کررہی ہیں غریبوں کے نام پر سیاست کرنے والے غریبوں کا ہی خون نچوڑ
رہے ہیں ابھی سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم جاری ہے اور ٹکٹوں کے حصول
کے لیے بولیاں لگائی جارہی ہیں ایک غریب سیاسی ورکر جو ساری عمر اپنا خون
پسینہ ان سیاسی ٹھگوں کے لیے گلیوں اور بازاروں میں بہاتا رہا جس نے اپنے
روزگار کی پرواہ نہ کی مگر اپنی سیاسی جماعت کے جلسہ میں بغیر کسی لالچ کے
پہنچا جذباتی ترانوں پر بھنگڑے اور لڈیاں بھی ڈالی مخلاف سیاسی جماعتوں سے
دنگے فساد بھی کیے مگر جب الیکشن میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا وقت آیا تو
کہاں گئے وہ درزی ،وہ موٹر مکینک ،وہ جیالے اور متوالے جنہوں نے اپنی پارٹی
اور اپنے قائدین کے لیے ماریں کھائی کیاان غریب سیاسی ورکروں کا کوئی حق
نہیں کہ وہ بھی الیکشن میں حصہ لیں کیا پارٹی کی فیس فرض ہو چکی ہے ایک
غریب ورکر ساری عمر ان سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں یوں ہی کھیلتا رہے گاجو
غریب سیاسی ورکر اس مہنگائی کے دور میں اپنے گھر کے اخراجات برداشت نہیں
کرسکتا وہ ان سیاسی گروﺅں کو کہا سے پیسے لاکر دے اور جن کے پاس پیسے ہیں
انہوں نے اپنے ہی خاندان میں ٹکٹوں کی بندر بانٹ کردی اس الیکشن نے لاکھوں
غریب پارٹی ورکروں کو انکے قائدین کے اصلی چہرے ضرور دکھادیے ہیں کہ کیسے
کیسے بھیس میں یہ لٹیرے عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں یہاں پر نہ صرف
پارٹیوں پر خاندانوں کا قبضہ ہے بلکہ اس ملک پر بھی چند سیاسی خاندانوں نے
ہی قبضہ کررکھا ہے اپنے آپ کو میرٹ زدہ ظاہر کرنے والی سیاسی جماعت مسلم
لیگ ن نے بھی ٹکٹیں خاندانوں کو دیدی میں اپنے پڑھنے والوں کو صرف چند نام
بتا دیتا ہوں باقی سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا اندازہ آپ خود لگا
لیں ابھی حال ہی میں مسلم لیگ ن نے سینٹر مشاہد اللہ خان کی دو بیٹیوںردا
خان(قومی اسمبلی)انا فیصل (صوبائی اسمبلی سندھ)سے مخصوص نشستوں کے لیے
نامزد کیا ہے مسلم لیگ ن لاہور کے صدر پرویز ملک خود ایم این اے ،اہلیہ
شائستہ پرویز قومی اسمبلی کی مخصوص سیٹ کے لیے ن لیگ کے امیدوار ہیں ۔خواجہ
سعد رفیق خود قومی اسمبلی کے لیے بھائی سلمان رفیق صوبائی اسمبلی کے لیے ،
سعد رفیق کی اہلیہ غزالہ سعد رفیق اور خالہ کی بہو لبنی فیصل مسلم لیگ ن کی
طرف سے صوبائی اسمبلی کی امیدوار ہیں ،سینٹر جعفر اقبال کی اہلیہ بیگم عشرت
اشرف سابقہ ایم این اے رہیں بیٹی زیب جعفر ،بھتیجی مائزہ حمید اور داماد
ملک ذوالفقار مسلم لیگ ن کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں ،ڈیرہ غای
خان سے تعلق رکھنے والے سردار ذوالفقار کھوسہ سینٹر ہیں انکا ایک صاحبزادہ
قومی اور دوسرا صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہے سابق ایم پی اے سمیع اللہ
چوہدری کی اہلیہ سمیرا چوہدری ،مسلم لیگ ن سندھ کے جنرل سیکریٹری کی اہلیہ
فوزیہ ایوب،بیگم کلثوم نواز کی سیکریٹری راحیلہ کی بہن سعدیہ ندیم مسلم لیگ
ن سندھ کے ایڈیشنل سیکیٹری نہال ہاشمی کی اہلیہ ارباب نہال مسلم لیگ ن کی
طرف سے مخصوص سیٹوں کے لیے امیدوار ہیں کیا اس ملک میں غریب پارٹی ورکر کا
کائی حق نہیں اور انکی بے شمار قربانیاں بھی کسی کام کی نہیں جو انکو کسی
بھی پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیے کیونکہ ہر سیاسی پارٹی کی طرف سے یہ شرط رکھی
گئی تھی کہ ٹکٹ فارم کے ساتھ ٹکٹ کی فیس جو لاکھوں میں تھی اسکا بنک ڈرافٹ
بھی ساتھ منسلک کریں اور دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں جو پارٹی ورکر ہوتے
ہیں انکے پاس پیسہ ہی تو نہیں ہوتا اس کے علاوہ تو وہ سب حب الوطنی والی
اشیاءسے مالا مال ہوتے ہیں جو ہمارے ان سیاسی لیڈروں میں ختم ہو چکی ہے ان
سب حقیقتوں کے بعد اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے والوں کے کھیل پر اب حیرت
نہیں ہوتی کیونکہ یہ لوٹ مار کا کھیل شروع سے ہی جاری ہے جسکے رکنے کے آثار
کہیں دکھائی نہیں دیتے مگر ایک روشنی کی کرن موجود ہے کہ یہ اندھیرے اس وقت
ہماری جان چھوڑیں گے جب ہم خود متحد ہوجائیں ہوکر ان سیاسی سینما گھروں کی
ٹکٹوں کی سے جان چھڑوا لیں گے اور اپنے جیسے غریب انسان کو ووٹ دیکر اسمبلی
میں بھیجیں گے جسے نہ تو کسی پروٹوکول کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی وہ ڈرائنگ
روم میں بیٹھ کر غریبوں کے نام پر سیاست کریگا ورنہ یہ سیاسی بندر ہمیں یوں
ہی نچاتے رہیں گے ایک ضرب المثل کہ کھانے پینے کو بندریا اور مار کھانے کو
ریچھ ،جیسا کام تو ہمارے ساتھ ہو ہی رہا ہے اب اگر ڈگڈی والوں سے ہم نے
اپنی جان چھڑوانی ہے اور پاکستان کو ان یرغمالیوں سے بچانا ہے تو پھر اپنے
جیسے غریب کو سپورٹ کریں ووٹ دیں اسے کامیاب کروائیں تاکہ کل کو وہ آپ کے
درمیان ہی رہے نہ کہ وہ اسلام آباد کے سیکٹروں میں کہیں گم ہوجائی - |