راوی کی خشک ریت

ہماری گاڑی چلتے چلتے رک گئی اور ٹریفک بلاک ہوجانے کی وجہ سے کافی دیر تک رکی رہی۔ گاڑی لاہور سے اسلام آباد جا رہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر جھانکا اور یہ دیکھا کہ ہم دریائے راوی کے عین درمیان میں پل کے اُوپر رکے ہوئے تھے۔ یہ دریائے راوی تھا ! اور مجھے اس بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ کیوں کہ میری نظر جہاں تک جا سکتی تھی مجھے ایک صحرا ہی نظر آرہا تھا ۔ ایسا صحرا جو صدیوں سے پانی کا پیاسا ہو اور اُس صحرا کی خشک ریت ہوا کے تیز جھونکوں سے اُڑ رہی ہو۔چیل اور کوئے دور دور تک اُس ریت پر منڈلا رہے تھے اور لوگوں کی طرف سے صدقے کے طور پر پھینکے ہوئے گوشت میں سے اپنا حصہ تلاش کر رہے تھے ۔دریا کے دونوں طرف کناروں پر کشتیاں خاموش پڑی ہوئی تھیں اور اُن کے ملاح پانی کے ریلے اور گاہکوں کے آنے کے منتظر تھے تا کہ وہ دریا کی سیر کی غرض سے آئے ہوئے لوگوں کو اپنی کشتیوں میں بٹھا کر دریا کی سیر کروا سکیں اور اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں۔وہ اس اُمید سے جانے کب سے بیٹھے تھے اور کب تک بیٹھے رہیں گے۔کچھ لوگوں نے تو اپنی جھونپڑیاں بھی دریا کے اندر بنا لیں تھیں جیسے اُنہیں یقین ہو کہ پانی کا اب یہاں سے گزر نہیں ہو گا۔

پانچ دریاؤں کی سرزمین کا بہت اہمیت رکھنے والا یہ دریا اب اپنی آب و تاب کھو چکا ہے۔ افغانستان کی طرف سے جتنے بھی فاتحین آئے وہ اس دریا کی موجوں کو چیر کر ہی لاہور میں داخل ہوئے تھے۔داتا علی ہجویری ؒ نے بھی اسی دریا کے کنارے ڈیرا ڈالا تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی داستانیں اس دریا سے وابستہ ہیں۔ 720 کلو میٹر طویل اور بل کھاتا ہوا یہ دریا کئی بڑے شہروں سے گزرتا ہوا درےائے سندھ میں جا گرتا ہے۔لیکن اب نہ اس کی موجیں ہیں اور نہ ہی اس کے اندر پانی۔ البتہ قرب و جوار کی آبادی کا گندہ پانی اس کے اندر ضرور داخل ہو رہا ہے جو دور سے چھوٹی چھوٹی لکیروں کی ماندگزرتا ہوا نظر آتا ہے۔ میں اس دریا سے جڑی ہوئی اُن ےادوں کی دنیا میں پہنچ چکا تھا جہاں یہ دریا میرے سامنے ایک خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔ وہ گر میوں کی ایک دوپہر تھی جب ہم چند دوست مل کر اس دریا کی سیر کے لیئے اپنے گاﺅں سے لاہور آئے تھے۔اُس وقت یہ دریا اپنی پوری آب و تاب سے بہہ رہا تھا ۔ اس کی مچلتی ہوئی لہریں اس کے حسن کو مزید گہنا رہی تھیں۔دور دور سے آئے ہوئے لوگ اس کی اس شان و شوکت سے اپنے دلوں کو بہلا رہے تھے۔کچھ لوگ گرمی کے اثر کو دور کرنے کے لیئے اپنے پاﺅں پانی کے اندر ڈال کر بیٹھے ہوئے تھے تو کچھ منچلے اس میں ڈبکیاں لگا رہے تھے۔بچے اور عورتیں کشتی کی سیر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ لوگ درختوں کے سائے میں کپڑا بچھا کر بیٹھے اپنے اپنے گھروں سے لائے ہوئے طرح طرح کے کھانوں میں مگن تھے۔ کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے بھی ادھر اُدھر پھر رہے تھے۔ اس طرح پھیری والوں کی بھی دوکان داری چل رہی تھی اور ملاحوں کی بھی۔ہم بھی اس خوبصورت اور با رونق جگہ سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ درختوں کی چھاﺅں ، دریا کا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی اور کشتی کی سیرمجھے ابھی تک نہیں بھولی۔ہم نے اپنی زندگی کا ایک خوبصورت دن اس دریا کے کنارے گزارا دیا تھا ۔ اور وہ خوبصورت دن ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے جسے ہم بھلانا بھی چاہیں تو نہیں بھلا سکتے۔کیونکہ وہ خوبصورت ماضی بھول جانے کے قابل نہیں۔

میں جب ماضی کی یادوں سے باہر نکلا تو میری آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ میں نے اپنی جیب سے رومال نکالا اوراپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوﺅں کے سیلاب کو تھام لیا۔ میں اپنے ان بے قابو آنسوﺅں کو کبھی بھی نہ روکنے کی کوشش کرتا اگر مجھے یہ یقین ہو تا کہ میرے یہ آنسو دریائے راوی کی کھوئی ہوئی موجوں کو واپس لا سکتے ہیں اور اور اس کی مدتوں سے پیاسی خشک ریت کی پیاس بجھا سکتے ہیں۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 109654 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.