مُغلوں کے دور میں ایک بار جنگ
کے آثار نمایاں ہوئے۔ لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ دِلّی کے تمام قَصّاب
بھی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جنگ میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی۔
بادشاہ نے اُنہیں حیرت سے دیکھا اور کہا۔ ”یہ جنگ ہے، بچوں کا کھیل نہیں۔“
قَصّاب برادری کے سربراہ نے دست بستہ جواب دیا۔ ”حضور! ہم روزانہ جانور
پچھاڑتے ہیں، کُشتوں کے پُشتے لگا دیتے ہیں۔ ہم سے اچھی جنگ کون لڑے گا؟“
بادشاہ نے سمجھانے کی کوشش کی مگر جب دیکھا کہ قَصّاب جنگ میں شریک ہونے پر
بضد ہیں تو اُن کا دستہ بنانے کی اجازت دی۔ قَصّابوں کا دستہ بنا۔ جنگ کا
طبل بجا۔ تمام دستے روانہ ہوئے۔ قَصّابوں کا دست جنگ کے میدان میں پہنچا تو
سہی مگر کچھ ہی دیر میں غائب ہوگیا! تین چار دن بعد جنگ کچھ تھمی تو بادشاہ
نے فوج کے تمام دستوں کی کارکردگی دریافت کی۔ قَصّابوں کا دستہ غائب تھا۔
اِس دستے کے ارکان کو تلاش کرکے دربار میں لایا گیا۔ بادشاہ نے قَصّاب دستے
کے ”کمانڈر“ کو مخاطب کیا۔ ”تم لوگ تو بڑی بڑی باتیں کرتے تھے کہ کُشتوں کے
پُشتے لگانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جنگ کے میدان میں کیا ہوگیا تھا؟“
قَصّاب دستے کے ”کمانڈر“ نے دست بستہ وضاحت کی۔ ”حضور! کُشت و خون تو ہمارے
خون میں ہے۔ ہم لڑنے سے کب بھاگے؟ بات یہ ہے کہ جنگ کے میدان میں تو اَندھی
مچی ہوئی تھی اور ہم لوگ رَگ پٹّھا دیکھ کے کاٹتے ہیں!“
اگلے وقتوں میں لوگ اپنے حصے کا کام کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ جس راہ کے
بارے میں کچھ معلوم نہ ہو اُس پر گامزن ہونے سے اجتناب برتا جاتا تھا۔ کوئی
بھی غلط کام کرتے ہوئے دس پندرہ مرتبہ سوچا جاتا تھا۔ دِلّی کے قَصّابوں کو
بھی اُصولوں کا پاس تھا، اقدار کا احترام ملحوظِ خاطر تھا۔ جو کام کرنے کا
نہ تھا یا کرنا نہیں آتا تھا وہ نہ کیا، پیچھے ہٹ گئے۔ جنگ کا تجربہ نہ تھا
تو خاصے پُرامن طریقے سے گوشہ نشینی اختیار کی۔ یہ نہیں کہ انٹ شنٹ ہاتھ
چلاکر جنگ ہی کا مزا کِرکِرا کرنے بیٹھ گئے! غور فرمائیے کہ لوگ چُھرے،
بُغدے اور مِڈّھی رکھتے ہوئے بھی اُصولوں کی پاس داری کیا کرتے تھے، اقدار
کا خیال رکھا کرتے تھے! آج حالت یہ ہے کہ لونڈے لپاڑے معمولی سا پستول
لہراتے ہوئے شہر کو لُوٹنے نکل پڑتے ہیں!
پہلی بار یہ قصہ پڑھا تو ہمیں خیال آیا کہ جنہیں ہم ملک چلانے کے لیے منتخب
کرتے ہیں اگر وہ بھی ایسی ہی وضع داری اور اُصول پسندی دِکھائیں تو کیا بات
ہے! ایک زمانہ تھا جب ٹیکس افسران کھال اُتارنے کا فن سیکھنے کے لیے
قَصّابوں سے رابطہ کیا کرتے تھے! اور یہ ہُنر اُنہوں نے ایسی توجہ اور
جامعیت کے ساتھ سیکھا کہ بعد میں قَصّاب اپنے بچوں کو کھال اُتارنے کا ہنر
سیکھنے کے لیے ٹیکس کے دفاتر میں اپرنٹس شپ کرانے لگے! اب قَصّاب اور ٹیکس
افسران مل کر ذبح کرنے اور کھال اُتارنے کا فن سیاست دانوں سے سیکھتے ہیں!
جن کے ہاتھ میں مُلک کی باگ ڈور آتی ہے اُنہیں دیکھ کر آسانی سے سیکھا
جاسکتا ہے کہ قومی خزانے کو کِس طرح ذبح کرنا ہے کہ نرخرے سے خرخراہٹ تک نہ
نکلے! اور کھال بھی اِس قدر پیار سے اُتارتے ہیں کہ بُھولے سے بھی کہیں
کوئی کٹ نہیں لگ پاتا!
وہ زمانے ہوا ہوئے جب لوگ اپنے منصب اور مشرب سے ہٹ کر کوئی بھی کام کرنے
سے واضح طور پر گریز کیا کرتے تھے۔ اب حال یہ ہے کہ ہسپتال چلانے والوں کو
تیل اور گیس کی وزارت سونپ دی جاتی ہے اور وہ اِس منصب کو سنبھالنے سے
انکار کو حرام کے درجے میں رکھتے ہیں! پھر ہوتا یہ ہے کہ وہ نا اہلی کے
انجیکشن لگا لگاکر تیل کی وزارت کا تیل نکال دیتے ہیں!
ماحول صاف سُتھرا ہو تو تھوڑی بہت خرابی دور سے دِکھائی دے جاتی ہے۔ شرافت
کا چلن عام ہو تو لوگ بدمعاشی کرتے ہوئے ڈرتے اور جھجھکتے ہیں۔ شرم دامن
گیر ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ مگر جب آوے کا آوا بگڑ چُکا ہو تو ہر
اُلٹا کام سیدھا اور آسان دِکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شرافت کی بات
کر ہی بیٹھے تو پھر اپنے آپ سے شرمندہ ہو رہتا ہے۔ پاکستانی قوم آج کل اِسی
مرحلے سے گزر رہی ہے۔
سیاست کا حال سب سے بُرا ہے۔ اگر مُغل دور کے ”نجیب الطرفین“ قَصّاب اِس
کوچے میں آ نکلتے تو آوے کا آوا بگڑا ہوا دیکھ کر اپنی عزت بچاتے ہوئے بھاگ
نکلتے۔ مگر دِلّی کے قَصّابوں اور ہماری سیاست کے قَصّابوں میں بہت فرق ہے۔
اُنہوں نے جب جنگ کے میدان میں انٹ شنٹ معاملات دیکھے تو اپنے اُصولوں کو
گلے لگائے ہوئے ایک طرف ہٹ گئے۔ ہمارے سیاسی قَصّاب جب چُھرے، بغلی اور
مِڈّھی لیکر اقتدار کی جنگ لڑنے نکلتے ہیں تو بھول بھال جاتے ہیں کہ رَگ
پٹّھا دیکھ کر ذبح کرنا ہوتا ہے۔ پھر تو وہ بھی وہی کرنے لگتے ہیں جو دوسرے
کرتے آئے ہیں۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ اناڑی کھیلنے پر بضد ہو تو کھیل کا
ستیاناس ہوکر رہتا ہے!
گئے زمانوں کے لوگ بھی خدا جانے کِس دُنیا سے آئے تھے کہ ہر وقت اُصولوں کا
خیال رہتا تھا۔ اعلیٰ طبقات کے چلن کا تو ذکر ہی کیا، قَصّاب بھی ایسے اعلیٰ
درجے کے تھے کہ آموختہ نہیں بُھولتے تھے۔ ہر وقت یہ خوف دامن گیر رہتا تھا
کہ کچھ ایسا ویسا کرنے کی صورت میں ساکھ داؤ پر نہ لگ جائے۔ کہاں تو جنگ کے
وہ میدان کہ رَگ پٹّھا دیکھ پانا ممکن نہ ہو تو سامان سمیٹ کر ایک طرف ہٹ
جائیے۔ اور کہاں آج کی سیاست کہ اِس میں آئیے تو اِسی کے اور اِس جیسے ہی
ہو جائیے! یعنی
جو بھی نمک کی کان میں پہنچا، نمک ہوا!
جو لوگ عوام کی تائید سے حکمراں طبقے میں پہنچتے ہیں اُن میں بھی حکمرانی
کی خُو اور بُو رچ بس جاتی ہے۔ جس طرح جنگل میں تنہا بھینسے کو بُھوکے
شیروں کا گروہ گھیر لیتا ہے اور جسم پر جگہ جگہ دانت گاڑ کر اُسے پچھاڑنے
پر تُل جاتا ہے بالکل اُسی طرح ہمارے ہاں بھی یار لوگ جب قومی وسائل پر
مُتصرف ہوتے ہیں تو درندے بننے میں دیر نہیں لگاتے۔ قومی خزانے پر وہ
بُھوکے شیروں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں! کوئی اُنہیں روک نہیں پاتا۔ روکے بھی تو
کیسے؟ تماشا دیکھنے والے ہی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہ تماشا
ختم ہو۔ یا کم از کم مینڈیٹ کی مُدت پوری ہونے تک تو چلے!
بے شعور اور پس ماندہ معاشروں کی جمہوریت کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ جن
کے وسائل ہیں وہی اِن پر شب خون مارنے والوں کا انتخاب کرتے ہیں! اور سِتم
بالائے سِتم یہ ہے کہ جن کی درندگی تمام شکوک سے بالا ہو اُنہیں بھی تین
تین چار چار مرتبہ دانت گاڑنے کا موقع دیا جاتا ہے! اِسی کیفیت کے لیے
انگریزی میں کہتے ہیں کہ شو چلتا رہنا چاہیے۔ لوگوں کا کیا ہے، وہ تو آتے
جاتے رہتے ہیں۔ اہمیت تماشے کی ہے۔ اِس کی رنگینی اور تابانی ماند نہ پڑے!
جب کچھ بھی ڈھنگ سے نہ ہو رہا ہو، سبھی کچھ بے ہنگم چل رہا یا چلایا جارہا
ہو تو دِلّی کے کرخنداروں کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ اَندھی مچی ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں بھی سیاست اور حکمرانی کے نام پر اَندھی ہی مچی ہوئی ہے۔ اور
اللہ ہی جانتا ہے کہ اِس قید سے اب کیسے نِکلنا ہوگا؟ |