صوفی محمد کی پہیلی - پہلی قسط

صوفی محمد اور اِس کے''زیر شریعت'' علاقوں میں نام نہاد اسلامی سزاؤں کا دفاع کرنے والوں کا اس بیان کے بعد کیا ردعمل ہوگا کہ پاکستان کی تمام اعلیٰ عدالتیں کفریہ ہیں اور جمہوریت بھی کفر ہے، ایسے لگتا ہے کہ صوفی محمد کے پُرجوش حامی اس قسم کے بیان کو نظر انداز کردیں گے اور اپنا ''کام'' جاری رکھیں گے۔ ہوسکتا ہے بعض کہنہ مشق لکھاری پاکستانی ریاست کے زیر انتظام کام کرنے والی عدالتوں کی اس بے حرمتی اور جمہوری اداروں کی بے توقیری پر کسی ملال کا اظہار نہ کریں اور صوفی محمد کے اس دعوے میں پنہاں''سچائی'' کی وکالت شروع کردیں کیونکہ بہرحال ایقان کی حد تک صوفی محمد اور اِس جیسے منہ زور مذہبی جنگجوئوں کی محبت میں گرفتار خامہ بگوش پاکستان کی ریاست کو بالکل ایسے ہی دیکھنا چاہتے ہیں جیسے صوفی محمد اور اُس کے مسلح ساتھی دیکھ رہے ہیں۔ جن جماعتوں نے پاکستان میں عدلیہ کی بحالی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اِنہیں فوری طور پر صوفی محمد سے رابطہ کر کے اپنا بیان واپس لینے پر مجبور کرنا چاہیے کیونکہ صوفی محمد نے اِنہیں کفر کا ساتھ دینے والے قرار دیدیا ہے۔ سب سے فوری ردعمل جماعت اسلامی کے نئے امیر کی طرف سے سامنے آیا ہے جنہوں نے صوفی محمد کو قدرے''برادرانہ'' مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس طرح کی بیان بازی سے پہلے اپنے مذہبی اکابرین سے رجوع کرلیا کریں۔ جب سے نئے امیر نے حلف اُٹھایا ہے وہ صوفی محمد کی سابقہ''نسبت'' کو ہر صورت میں ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور اس اُمید میں ہیں کہ ہوسکتا ہے صوفی محمد دوبارہ اپنی سابقہ مذہبی جماعت میں لوٹ آئیں۔

افغانستان میں امریکی حملہ شروع ہونے کے بعد صوفی محمد کو ایک نئی زندگی ملی کیونکہ وہ اس سے پہلے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے پلیٹ فارم سے قبائلی علاقوں اور سوات میں کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے تھے ۔ وہ اپنے ہزاروں جانثاروں کے ساتھ افغانستان میں جہاد کی غرض سے چلے گئے۔اِنہیں اس جہاد میں پوری طرح حصہ لینے کا موقع نہ مل سکا کیونکہ اِن کے بیشتر ساتھی یا تو امریکیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے تھے یا پھر اُنہوں نے فرار ہونے میں عافیت سمجھی اور صوفی محمد نہ صرف شہادت سے محروم رہ گئے بلکہ امریکی افواج کے خلاف لڑنے والے طالبان اور القائدہ گروپوں نے بھی صوفی محمد کی طرف خاص توجہ نہ دی۔ قبائلی علاقوں میں اِس کے چاہنے والوں کی تعداد بہت کم ہوچکی تھی اور حکومت نے بغیر کسی خوف کے اس کو گرفتار کرلیا اور بعد میں اس گرفتاری کو نظر بندی میں تبدیل کردیا۔صوفی محمد کے لیے کوئی ہنگامہ نہ ہوا اور نہ ہی طالبان جنگجوئوں نے صوفی محمد کی رہائی کے لیے کسی قسم کا کوئی مطابہ کیا۔

افغانستان میں امریکی افواج اور نیٹو افواج کی کارروائیوں کے بعد جب بہت سے غیر ملکی جنگجو اور مقامی قبائلی شدت پسندوں نے واپس پاکستان کی طرف بھاگنا شروع کیا تو اُنہوں نے بھی قبائلی علاقوں میں مقامی سرداروں اور افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں دینی مدارس کے سرپرستوں کے ہاں پناہ حاصل کی اور کوئی بھی صوفی محمد کی طرف متوجہ نہ ہوا۔اس دوران اسلام آباد کی طرف سے بھی اِن جنگجوئوں پر دباؤ بڑھنا شروع ہوا تو پناہ کی تلاش میں جگہ جگہ پھرتے ہوئے جہادیوں میں سے اکثر کو یا تو مار دیا گیا یا پھر گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ جنگجوئوں اور القاہدہ کے ارکان نے پاکستان کے شہروں کراچی، فیصل آباد، لاہور، راولپنڈی، گجرات اور جنوبی پنجاب میں پناہ گاہیں حاصل کرلیں اور کچھ دیر تک پاکستانی سیکورٹی فورسز اور ایف بی آئی کی نظروں سے اوجھل رہے۔

ابھی مشرف دور جاری تھا کہ پاکستان کے بعض طاقتور اداروں میں یہ تصور پھیلنے لگا کہ جن جہادیوں کو قبائلی علاقوں سے مار بھگایا گیا ہے وہ تیزی کے ساتھ افغانستان کے اندر بھارت کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے متاثر ہورہے ہیں اور یہ بھی کہا جانے لگا کہ اِن میں سے کئی نے بھارت کی مدد سے بلوچستان اور بعض قبائلی علاقوں میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لینا شروع کردیا ہے۔ابھی تک اس خدشے کو ثابت نہیں کیا جاسکا لیکن پاکستانی میڈیا کو ضرور یہ فیڈ کیا گیا کہ شورش پسندوں اور دہشت گردوں کو بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ٹی وی پراس موضوع پر بولنے کے لیے سابق مہم جو فوجی افسروں اور دائیں بازو کے ''زیرک'' دانشوروں کی خدمات حاصل کی گئیں اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ذریعے مداخلت کے دعوئے کیے جانے لگے۔حیران کن امر یہ ہے کہ اس طرح کے دعوئے آج بھی پوری قوت کے ساتھ جاری ہیں لیکن آج تک بھارت کی اس خطرناک مداخلت کے ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔

جب قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کا غلبہ ہونے لگا اور پارہ چنار کے گردونواح میں اہل تشیع مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا تو اسلام آباد میں بعض لوگ یہ سوچنے لگے کہ بھارت کی اس دراندازی کو روکنے کے لیے قبائلیوں کے اندر سے کسی نئی قوت کی طرف رخ کیا جائے اور یوں پاکستان کے سیکورٹی ادارے نہ صرف براہ راست نقصان سے بچ جائیں گے بلکہ قبائلی جنگجوئوں کو اِن کے اپنے بھائی بندوں کے ذریعے ہی روک دیا جائے گا۔ابھی اس طرح کے کسی خاکے پر حتمی اتفاق نہیں ہوسکا تھا کہ قبائلی علاقوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے بارے میں امریکہ اور نیٹو افواج کی طرف سے پاکستان پر دباؤ بڑھنے لگا کہ وہ اپنے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کو کنٹرول کرئے اور اِنہیں قوت مجتمع کرکے افغانستان میں داخل ہونے سے روکے۔

یہ قبائلی جنگجو اور القاہدہ ارکان اب پاکستان کے شہروں میں بھی دہشت گردی کی وارداتوں کا ارتکاب کرنے لگے تھے اور اسلام آباد میں نہ صرف پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو ایک خود کش حملے میں ہلاک کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اُنہوں نے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل کو بھی خودکش حملے کا نشانہ بنایا۔اسلام آباد جو اپنی ہڑبڑاہٹ کے لیے ہر طرف مشہور ہے اِس نے فیصلہ کیا کہ شدت پسندوں کا زور توڑنے کے لیے قبائلی سرداروں اور جنگجوئوں کا سہارا لیا جائے ۔اس مقصد کے لیے گورنر سرحد ، اور طاقتور ادارے کے سربراہ کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو مالی معاونت کے بعد اسلام آباد کی خواہش پر اپنے مسلح ساتھیوں کی مدد سے اسلام آباد کی جنگ کے لیے ہوجائیں۔شروع میں قبائلی سرداروں کے ذریعے لشکروں کو تیار کیا گیا لیکن اِن لشکروں نے پیٹھ دکھائی تو فیصلہ ہوا کہ کیوں نہ مولانا صوفی محمد کی خدمات لی جائیں۔

صوفی محمد کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے ایک طاقتور ادارے کے ایسے عہدیدار کو سوات روانہ کیا گیا جو اس سے پہلے سوات اور گردونواح میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہ چکا تھا اور قبائلیوں کے ساتھ ''معاملات'' کا وسیع تجربہ رکھتا تھا۔ صوفی محمد کا لشکر جو ایک طویل عرصے سے بیروزگار تھا اور خود صوفی محمد نظر بندی کی صعوبتیں برداشت کررہا تھا، اس نے فوراًحامی بھرلی اور کروڑوں روپے وصول کرکے علاقے میں ایسے شخص کا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری اُٹھالی جو بھارت سے مالی امداد وصول کرنے والے جنگجوئوں کا مقابلہ کرے گا اور قبائلی علاقوں میں پناہ گزین مقامی و غیر ملکی دہشت گردوں کو نکال باہر کرے گا۔ واضح رہے کہ صوفی محمد کی ''بے کاری'' کے زمانے میں خود اس کے کئی ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے جن میں خود اس کا داماد اور القاعدہ کا پُرجوش رکن مولوی فضل اللہ بھی شامل تھا جو خود ایک بڑئے گروہ کا لیڈر تھا اور پاکستانی سیکورٹی فورسز پر بڑھ چڑھ کر حملے کررہا تھا۔

(جاری ہے)
Mujahid Hussain
About the Author: Mujahid Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.