ریاست اور ریاستی اداروں کی ناکامی کی سزا ریاست کے عوام کو بھگتنی پڑتی ہے،
پاکستان کی تریسٹھ سالہ زندگی میں ابھی تک یہ ہی طے نہیں کیا جا سکا کہ اس
ملک کا نظام حکومت کس طرز پر چلایا جائے گا کہنے کو یہ ایک جمہوری ملک ہے
لیکن جمہور کی نمائندگی ایوان بالا میں نہ ہونے کے برابر ہے اور جنہیں
جمہور اپنے ووٹوں کے ذریعے ایوانوں میں بھیجتے ہیں وہ بہر حال جہمور کی
نمائندگی نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے طبقات کے مفادات کی نگہبانی اور نمائندگی
کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں، اس بات میں اب کوئی دو آرا نہیں رہیں ہیں۔
پاکستان کے مفلوک حال عام آدمی کی حالت زار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ
ہمارا طبقہ اشرافیہ جو اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہے کی جانب سے ملک
اور ملک کے عام عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات سے
بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس ملک کے کتنے خیر خواہ ہیں؟
المیہ صرف یہی نہیں ہے کہ ان کے کیے دھرے کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہو رہے
بلکہ افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ ریاست کے باغیوں پر بھی کنٹرول
حاصل نہیں کر پا رہے اور باغی اپنی من مانی تعبیریں عوام پر مسلط کر رہے
ہیں بلکہ اب تو باغیوں کی جانب سے اس طرح کے مطالبات بھی سامنے آنا شروع ہو
گئے ہیں جو ریاست کی کمزوری کی نہ صرف دلیل ہیں بلکہ ریاست ان باغیوں کے آ
گے بے بس دکھائی دئے رہی ہے ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ ملک کے قبائلی علاقوں
فاٹا، جنوبی و شمالی وزیرستان میں اپنے ہی ملک اور عوام کے خلاف بر سر
پیکار گروہوں اور گروپس کا اخلاقی کردار کیا ہے، اور یہ گروہ اور گروپ اپنے
ذاتی فائدے کے لئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں عام معصوم پاکستانیوں کے قتل
عام سے لیکر لوٹ مار اغواء برائے تاوان جیسے جرائم کی واردتیں ان کا روز
مرہ کا معمول ہے حتیٰ کہ پاکستان کے مہمانوں (غیر ملکیوں) تک کو قتل اور
اغوا کر لیتے ہیں اور یہی گروہ آجکل پاکستان میں اسلام کی تشریح اس کی
تعبیر اور اس کا نفاذ پورئے ملک میں ہی نہیں دنیا بھر میں کرنا چاہتے ہیں
جس سے نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ بیرونی دنیا بھی خوفزدہ ہے کیونکہ وہ ان
کے کارنامے دیکھ چکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگوں کے سپرد ملک کو کر
دینا چاہیے؟ جو جدید دور کے تقاضوں سے بھی قطاً ناواقف ہیں اور اسلامی
تعلیمات سے بھی کوسوں دور ہیں۔
صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے بھی گزشتہ دنوں ایواں وزیر
اعلیٰ میں سینیر صحافیوں اور کالم نویسوں سے ملاقات میں ملک میں بڑھتی ہوئی
دہشت گردی لاقانونیت اور صوبوں کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج پر اپنی تشویش کا
اظہار کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا نافذ کردہ شرعی نظامِ عدل صرف
سوات اور مالا کنڈ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پاکستان کے دوسرے حصوں تک بھی
پھیلے گا کیونکہ ان کے بقول باسٹھ برس کے دوران پاکستان میں عدل انصاف کا
اپنا نظام غیر مؤثر ہوچکا ہے ،انہوں نے کہا کہ 'یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
سوات کا معاہدہ دراصل عسکریت پسندوں کی طرف سے ہم پر مسلط کیا گیا ہے
کیونکہ اس کے سوا حکومت کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ اگر یہ معاہدہ
نہ کیا جاتا تو سوات میں روزانہ سینکڑوں لوگ مرتے رہتے جس کے بہت بھیانک
نتائج نکل سکتے تھے، جبکہ میاں نواز شریف نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو جو
انہوں نے ایک امریکن اخبار کو دیا میں یہ کہا ہے کہ طالبان اپنی خود ساختہ
شریعت پورے ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں انہوں نے ملک کے سیاستدانوں کو
باہمی اختلاف دور کرتے ہوئے مل جل کر ان مسائل کے حال نکالنے کی ضرورت پر
زور دیا ہے ۔ میاںصاحبان کی تشویس اپنی جگہ مگر کیا ریاست کے ان بڑوں کا یہ
فرض نہیں بنتا کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائیں جس سے ریاست مضبوط ہو اور ریاست
کے اندر کسی کو بھی ریاست بنانے کی جرات نہ ہو اور نہ ہی ریاست کی رٹ کو
کوئی چیلینج کر سکے ۔اس وقت ملک میں صورت حال یہ پیدا ہو چکی ہے کہ خود
ساختہ شریعت کے بانیوں کے بیانات اور فتوں کے بعد ایک گروہ دوسرے کے خلاف
محاذ آرائی کرتا دکھائی دیتا ہے اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو
خدشہ ہے کہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے حکومت نے طالبان کے مطالبات
مان کر جس کمزوری کا اظہار کیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی اس
کمزوری کو مزید نہ بڑھنے دے اور طالبان کے نمائندوں کی جانب سے جو فتوے آئے
روز رہے ہیں ان پر پابندی لگائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کے بھیانک نتائج
برامد ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب ملک کے حالات کی جانب نظر دوڑائی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ
جیسے پورے ملک میں حکومت نام کی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے ہر طرف دہشت
گردی کا ہی ذکر ہے اور دیگر ملکی مسائل دہشت گردی کے ملبے تلے دفن ہو چکے
ہیں عوام کس حال میں ہیں ان کی حالت زار کی طرف دیکھنے کی کسی کو فرصت ہی
نہیں۔ |