جعلی ڈگری اور اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے الیکشن کمیشن سے جھوٹ بول کر خود کو عالی تعلیم یافتہ قرار دینے
والے سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو رہائی مل گیا جو چند ایام سے جعلی
ڈگری کیس کے زمرے میں آکر سزا یافتہ قرارپائے تھے۔ اب رہا ہو گئے ہیں اور
این اے 177 اور 178 سے انتخابات میں حصہ لینے کا عدالت نے اجازت دے دیا ہے
۔ ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عدالتوں کو زیب
دیتا ہے کہ ایک قانون کے ساتھ مذاق کرنے والے کرپٹ شخص کو جو جھوٹ بول کر
اسلامی ریاست میں اقتدار میں آتاہے اسی اسلامی ریاست کے ایک دن عدالت مجرم
قرار دیکر جھوٹ بولنے کی سزا دیتا ہے دوسرے دن سب کچھ بھلا کر دوبارہ جھوٹ
بولنے کے لئے اجازت دیتا ہے ۔ افسوس ہے اگر اسے دوبارہ جھوٹ بولنے کی اجازت
دینا ہوتا تو سز کیوں دی ؟
ایسے خطے میں جعلی ڈگری والوںکو ایوان اقتدار تک جانے کی اجازت ہے جہاں
اصلی ڈگری والے عام ملازمت کے لئے ترس رہے ہیں اس جھوٹے اور جعلی ڈگری والے
سے بہتر ہے کہ آ پ ایک اصلی و سچے کو ہی ایوان اقتدار میں پہنچا دیں جو
بہتر ہے۔
مجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت سے افسوس و بہت دکھ ہوا کہ جھوٹ
بولنے والے حضرات کو سزا دیکر بھی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے جو
اپنی عدالتوں و قوانین کے ساتھ کھل کھلا مذاق ہے ۔
اس سے قبل شاید ایسا نہ ہوا ہو مگر اس بار الیکشن کمیشن آف پاکستان 2013ءکی
عام انتخابات میں ملک بھر کے تمام صوبائی و قومی اسمبلی کے تمام ارکان سے
کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران ریٹرننگ آفیسر کے زریعے سکورٹنی کے عمل میں
مختلف سوالات پوچھ کر ایک درست قدم اٹھا رہی ہے۔ لیکن گزشتہ روز مجھے لاہور
ہائی کورٹ کی فیصلے سے انتہائی تعجب ہو ا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک
عدالت سے بیان زیب نہیں دیتی ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ نے ریٹر ننگ افسران کو
امیداروں سے غیر ضروری سوالات کرنے سے روک دیا جبکہ سکروٹنی کے عمل میں
میڈیا کی کوریج پر بھی پابندی عائد کردی، جسٹس سید منصور علی شاہ نے کیس کی
سماعت کی۔ عدالتی معاون نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ افسر کاغذات
نامزدگی میں درج تفصیلات سے ہٹ کر امیدواروں سے غیر متعلقہ اور غیر ضروری
سوالات نہیں کر سکتے ، ریٹرننگ آفیسر امیدوار وں سے بیویوں کی تعداد اور
دعا قنوت سن رہے ہیں جن کا سکروٹنی سے کوئی تعلق نہیں ، ایسے سوالات سے
عدلیہ کی بے عزتی ہے سکروٹنی کے عمل میں میڈیا کوریج سے بھی عدلیہ کی ساکھ
متاثر ہو رہی ہے ۔ پھر عدالت نے ریٹرننگ آفیسر کے کو اسے سوالات جن کا دین
اسلام سے تعلق ہو کا کرنے سے روک کر ایسی بات کی ہے کہ مجھے لکھنے میں شرم
محسوس ہو رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مجلس شوریٰ یعنیٰ اسمبلی کا
رکن بننے کے لئے ایسے لوگوں کو اجازت دیتی ہے جن کو سورة اخلاص اور درود
ابراہیمی ، دعاءقنوت تک نہیں آتا ہو جو اسمبلی میں جا کر اسلامی جمہوریہ
پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے جائیں گے ۔ جن کو پاکستان کا مطلب کا بھی
نہیں پتا وہ پاکستان کے سب اہم عہدوں پر فائز ہو کر 18 کروڑ لوگوں کے فیصلے
سنائے گا۔ جس کو اللہ اور رسول ﷺ کے متعلق زرا برابر بھی علم نا ہو اسے
امیر المومنین بنے کیاجازت دیتی ہے ۔
انسانی حقوق کے کمیشن نے بھی امیدواروں سے ایسے والات کو غلط قرار دیتے
ہوئے تحفظات طاہر کئے ہیں انسانی حقوق کے دعوے دار شاید بھول گیا ہے کہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی اللہ اور رسول ﷺ اور دین کے حقوق کو بھلا کر
اپنی من مانی کرنا بھی انتہائی غیر اخلاقی اور غلط قدم ہے ۔ اسلامی جمہوریہ
پاکستان کا حق نہیں کہ جس کے حوالے اسے کیا جا رہا ہے آیا اُ س گدھے کو اس
کے بارے میں کچھ علم بھی ہے کہ نہیں ؟ جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق
وفاقی وزیر داخلہ جس کو سورة اخلاص کا تلاوت کرنا بھی نہیں آیا تھا اور اس
کے ہاتھ میں ملک کو تھما کر ہم نے پاکستان کو بیڑا غرق کر دیا ہے ۔ یہاں پر
حقوق کی بات کر و نا ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وہ کر کے دکھایا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں
کسی مائی کی لال نے نہیں کی ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی زرا احساس کرتے
ہوئے جانچ پڑتال کا سلسلہ میں اسلامی و اخلاقی سوالات پو چھ کر بہت زیادہ
جرتمندانہ قدم اٹھا یا ہے میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔
جن امیدواروں پر سوالات بھاری پڑ ھ رہے ہیں وہ تو اسے ایک ڈرامہ تصور کرتے
ہیں ۔ ایک امیدوار نے اس حد تک کہا ہے کہ ہمیں جماعت اول کا طالب علم سمجھ
کر کلمہ شہادت پوچھا گیا ہے اس سے مسلمانیت پر شک کیا گیا ہے ۔ اس طرح کے
معتد امیدواروں جن سے ایسے عام سوالات پوچھے ہیں جن کا جواب دینا اُ ن کے
لئے انتہائی مشکل بن گیا ہے ۔ میر پور خاص میں جانچ پڑتال کے دوران ریٹرننگ
آفیسر نے امیدواروں سے سوالات کرتے ہوئے کسی سے قومی ترانہ پوچھا تو کسی سے
عام معلومات ۔اس سے معلوم ہوا کہ کئی امیدواروں کو تو قومی ترانہ ہی یاد
نہیں ہے ۔ یاد کیسے سکول ٹھوڑی گئے ہیں ڈگریاں تو جعلی ہی ہیں نا۔ایک
امیدوار سے پاکستان کا آخری گورنر جنرل اور پہلا وزیر اعظم کا نا م پوچھا
گیا تو جواب میں قائد اعظم کو پہلا وزیر اعظم اور آخری گورنر جنرل اپنی
قابلیت کا سر ٹیفکٹ دے دی۔ حالانکہ پاکستان کا پہلا وزیر اعظم خان لیاقت
علی خان اور آخری گورنر جنرل میجر جنرل (ر) سکند ر مرزا ہیں۔ یاد رہے کہ
بعد ازاں گورنر جنرل کے بجائے صدر کو ملک کا سپریم کمانڈ سونپا گیا ۔ایک
امیدوار سے سوال کیا گیا کہ دعا قنوت کونسی نماز میں پڑی جاتی ہے ۔ جواب
امیدوار کا فجر کی نماز میں پڑی جاتی ہے ۔ ایک نے درود ابراہیمی کی جگہ
سورة اخلاص سنا دی ۔ایک امیدوار نے قران مجید میں 32 پارے کا جواب سے دی
جبکہ قران مجید میں 30 پارے ہیں ۔بحرحال الیکشن کمیشن کی یہ قدم نہ صرف
درست ہے بلکہ ایک قبل تعریف قدم ہے ، ایک جرت مندانہ قدم ہے ۔ ایسے لوگوں
کے ہاتھ میں پاکستان سونپنا خود سوزی کے مترادف ہے جن لوگوں کو اسلام کے
ارکان اور عقائد کے بارے میں کچھ معلومات تک نہ ہو ، سورة اخلاص تک پڑھنا
نہ آئے ، اور اسلام کے متعلق ضروری و عقائدی معلومات تک نہ ہو یا اپنے ہی
ملک کے متعلق بنیادی معلومت تک نہ ہو جس کی حکمرانی کا خواہش لئے لاکھوں
روپیہ داو ¿ پر لگا کر الیکشن میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں(میں یہ نہیں کہہ
سکتا ہوں کہ ان کی مسلمانیت ہر شک ہے ) لیکن ایسے لوگوں کو پاکستان میں ایک
چپراسی کی ملازمت دینا دور کی بات ہے ان کو اسلام جمہوریہ پاکستان میں رہنے
کا بھی حق نہیں دینا چاہئے ۔
کاش ایسا فیصلہ اس وقت کیا جاتا جب 2008 ءکے انتخابات کے بعد وفاقی کابینہ
کی پہلی اجلاس میں پاکستان معروف وزیر رحمن ملک کو تلاوت کے لئے کہا گیا تو
رحمن ملک سورة اخلاص کو غلط پڑھ گئے جہاں معتد ارکان کابینہ سے چہرے پر
ہنسی آ گئی تھی ۔ جسے سورة اخلاص پڑھنا نہیں آتا ہو اُ بندے کو پاکستان کی
اندرونی و بیرونی انتظام کو حوالے کرنا ایسا جیسے خود پر تیل چھڑک کر
انگاروں پر گومنا کے برابر ہے۔ مکمل 5 سال اس کے ہاتھ پاکستان کو تھما دیا
گیا جس وجہ سے پورا پاکستان میں ہر طرف آگ لگ گئی اور لاکھوں بے گنا ہ عوام
متاثر ہوئے لاکھوں معصوم بچے یتیم ہو کر در پہ در ہو گئے اور لاکھوں گھر بے
سہار ا ہو گئے ۔
بحر حال الیکشن کمیشن کی اس عمل کو جتنی داد دینی چاہیے میں سمجھتا ہوں کم
ہی پڑے گا کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جس کے حوالے کر رہے ہیں کم از
کم ایک مسلمان ہو ، اللہ اور اللہ کے رسولﷺ پر تو ایمان مضبوط ہو ، اسلامی
عقائد و ارکان پر پورا یقین اور معلومات ہو، نماز اور قران مجید کے بارے
میں ضروری معلومات ہو، ایک زمہ دار شہری بھی ہو ،اپنی اور دوسروں کی عزت
کرتا ہو ،سچا مخلص دیانتدار ایماندار اور بہادر بھی تاکہ اسلامی جمہوریہ
پاکستان کی عوام کو تحفظ تو کر سکے ۔ ایسا نہ ہو ایک اور رحمن ملک پیدا ہو
جس کو سورة اخلاص کا تلاوت نہ آتا ہو اور پا کستان کی حفاظت کا دعویٰ کرتا
ہو جس کی اصلیت سب کو پتہ ہے کہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ علم نہیں ، نماز
بھی نہیں ادا کرتا ہے کیونکہ نماز میں پرھی جانے والی سورة تک یاد نہیں تھے
، ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے ایسے ناپاک بندے سے پاکستان کی حفاظت کی سوچ و
توقعات رکھنا خود فریبی ہے ۔
بعض لوگوں نے سکروٹنی کے دوران ایسے اسلامی سوالات کو غیر اخلاقی و مذاق
قراد دیتے ہوئے فرمایا کہ الیکشن کمیشن کرپشن و لاقانونیت ، جعلی ڈگری جیسے
سنگین اہم مسائل کو دبانے کی کوشیش اور میڈیا کو سکروٹنی کے عمل میں مصروف
رکھ کر گمراہ کر رہی ہے اور اسلامی معلومات کا مذاق اڑھا رہی ہے ۔ بحرحال
سکروٹنی کے عمل میں تمام سوالات نے اچھے اچھے سیاستدانوں کی پول کھول دیا
کہ ان حضرات سے شہر کے غیر تعلیم یافتہ لوگ بھی اچھے اور باعلم ہیں جو
پاکستان کی تقدید بدلنے والی نشست پر بیٹھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ الیکشن
کمیشن کو جعلی دگری والوں کو سزا دے اور اچھے ایماندار کو الیکشن میں حصہ
لینے کی لے اجازت دے تاکہ بااخلاق و مخلص لیڈر پاکستان کی نظام کو بہتر
بنانے میں اہم کردار ادا کریں۔ ورنہ پاکستان کو ویسے ہی لیڈر ملے گے جیسے
رحمن ملک جو پاکستان کو بیڑا غرق کرنے میں کثر نہیں چھوڑیں گے۔ بحرحال
سپریم کورٹ آف پاکستان جھوٹ بولنے والے سزا یافتہ حضرات کو الیکشن میں حصہ
لینے کی اجازت نہ دیں تو بہتر ہے ۔ |