تحریر : محمد اسلم لودھی
حالیہ سروے کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ ن جماعت اسلامی سے اشتراک عمل کی
بجائے تنہا پرواز کرنے کے زعم میں مبتلا ہے اس میں شک نہیں کہ میاں برادران
اپنی بے داغ شخصیت اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر اس وقت پاکستان
کے مقبول ترین سیاسی رہنماﺅں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حالیہ الیکشن میں
پیپلز پارٹی اپنے پکے ووٹوں اور ق لیگ حکومتی اثرو رسوخ کا سہارا لے کر
مسلم لیگ ن کے لیے کافی مشکلات کرسکتی ہے جبکہ عمران خان کا سونامی کسی نہ
کسی حد تک عوامی حلقوں میں موجود ضرور ہے دو سرے لفظوںمیں تحریک انصاف مسلم
لیگ ن کے ووٹروں میں سے ہی اپنا حصہ بھی وصول کرے گی اس لمحے مسلم لیگ ن کو
تنہا پرواز کرنے کی بجائے پنجاب ، کراچی ، خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں ہر
حال میں جماعت اسلامی کے پانچ فیصد ووٹروں کو اپنی گنتی میں شامل کرنا
چاہیئے کیونکہ ہر حلقے میں دس سے پندرہ ہزار ووٹر جماعت اسلامی کے پکے ہیں
جو مسلم لیگ ن کے کھاتے میں شامل ہوکر وننگ ووٹ بن سکتے ہیں ۔ شنید یہ ہے
کہ اشتراک عمل کی صورت میں جماعت اسلامی دس قومی اور چالیس صوبائی نشستوں
پر اپنا حق جتا رہی ہیں اگر میاں برادران امیر جماعت اسلامی سے ون ٹو ون
بات کرکے چھ سات قومی اور پندرہ بیس صوبائی نشتستوں پر آمادہ کرکے ان کا
تعاون حاصل کرلیتے ہیں تو مسلم لیگ ن کی کامیابی کے امکانات یقین میں بدل
سکتے ہیں لیکن میاں برادران ضمیر فروش لوٹوں کو اپنی جماعت میں شامل کرکے
نہ جانے کیوں جماعت اسلامی سے دور ہٹتے جارہے ہیں جو کسی بھی صورت میں ان
کے مفاد میں نہیں ہے ۔ جماعت اسلامی کے ایک دل جلے نے بہت خوب بات کی کہ
اگر ہمارے ساتھ مسلم لیگ ن نے اتحاد نہ کیا تو ہماری دیوار گر جائے گی لیکن
مسلم لیگ ن کا پورا گھر زمین بوس ہوجائے گا میں سمجھتا ہوں یہ بات غلط بھی
نہیں ہے بطور خاص کراچی اور خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی کے ووٹروں کی
تعداد لاکھوں میں ہے جہاں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایم کیو ایم جیسی نیم
عسکری تنظیم کا ہر میدان میں مقابلہ کرتی چلی آرہی ہے میں سمجھتا ہوں اگر
جماعت اسلامی کے اشتراک عمل کے بعد میاں نواز شریف خود کراچی میں الیکشن
لڑتے ہیں تو ان کی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے وگرنہ مسلم لیگ ن کوکراچی
میںخاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی ۔ اندرون سندھ بے شک قوم پرست جماعتوں
کا تعاون مسلم لیگ ن کو حاصل ہے لیکن وہاں بھی جماعت اسلامی کا ووٹ بنک کسی
بھی قوم پرست جماعت سے کم نہیں ہے ۔
جہاں تک جمعیت علمائے اسلام ( فضل الرحمان گروپ ) کا تعلق ہے خیبر
پختونخواہ ، بلوچستان اور کراچی میں اس کے ووٹروں کی تعداد بھی قابل ذکر ہے
یہی وجہ ہے کہ ہر الیکشن میں آٹھ دس قومی اسمبلی کی نشستیں اس کے حصے میں
آجاتی ہیں اب جبکہ فاٹا یعنی قبائلی ایجنسیوں میں بھی الیکشن ہوں گے وہاں
بھی جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے امیدوار وں کے درمیان مقابلہ
ہے کیونکہ قبائلی ایجنسیوں میں مذہبی ووٹروں کی اکثریت ہے جس کا یقینا یہ
دونوں جماعتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں نواز شریف کے چاہنے والے بھی وہاں کم
نہیں ہیں لیکن نوازشریف نے قبائلی ایجنسیوں میں اپنے امیدوار ہی کھڑے نہیں
کیے وگرنہ وہاں سے بھی چند سیٹیں ملنے کی امید پیدا ہوسکتی ہے ۔
پاکستان اس وقت جن بحرانوں کا شکار ہے اسے بچانے کے لیے مسلم لیگ ن کو
بہترین حکمت عملی سے بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا اس مقصد کے لیے اگر جماعت
اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان کو چند سیٹیں دے کر
مسلم لیگ ن چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو
یہ کوئی بڑی قیمت نہیں ہے دوسری جانب مذہبی جماعتوں کے قائدین سے بھی گزارش
ہے کہ وہ اپنے مطالبات کو نصف کرکے مسلم لیگ ن کے لیے اشتراک عمل کی راہ
ہموار کریں اور اسمبلیوں میں پہنچ کر حکومت سازی میں اپنا کردار ادا کریں
کیونکہ مذہبی جماعتیں خیبر پختونخواہ کے علاوہ شاید ہی کہیں سے تنہا
کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں- |