پاکستان میں 11 مئی کو ہونے والے
انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں پرچہ جات نامزدگی کی جانچ ہڑتال کا کام
ختم ہوگیا ہے۔ اچھی خاصی تعداد میں پرچہ جات مسترد ہوچکے ہیں۔ پرچہ جات
نامزدگی کے مسترد کئے جانے کے خلاف کی گئی اپیلوں کی سماعت کا اب سلسلہ
شروع ہوگا۔
پاکستان کے انتخابات اور نتائج سے ہندوستان میں دلچسپی فطری ہے۔ پاکستان کے
بارے میں کچھ لکھتے ہوئے ہم اکثر انتشار خیالی کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ
پاکستان کے بارے میں کچھ زیادہ لکھنا ہم کو پسند نہیں ہے اور لکھتے ہوئے
دوسروں کی طرح پاکستان پر بے جواز، بے بنیاد یا من گھڑت اعتراضات اور
تنقیدوں کا سہارا لینا پسند نہیں ہے جبکہ چند ممتاز لکھنے والے اس معاملے
میں ماہر ہوچکے ہیں دو تین صاحبان ایسے بھی ہیں (وہ بھی اردو کے) جن کو
ماہر خرابیات پاکستان کہا جاسکتا ہے۔ ایسے قد آور قلم کاروں کے درمیان بھلا
ہم کہاں ٹھیر سکتے ہیں؟ یوں بھی ملک سے وفاداری کا ثبوت 1947ء سے قبل کے
مسلمان قائدین اور پاکستان کو بلاوجہ برابھلا بولنا نہیں ہے۔
پاکستان کے انتخابات کے تعلق سے ہندوستان ہی میں نہیں پاکستان میں بھی بعض
حلقے اس تعلق سے شکوک وشبہات کا شکار تھے کہ وہاں انتخابات ہوں گے یانہیں؟
بعض کو پاکستان الیکشن کمین کے طریقہ کار کی وجہ سے شبہ تھا کہ پاکستان میں
وقت پ انتخابات ہوسکے گے؟ اس سلسلے میں پاکستان میں ہندوستان کے سابق سفیر
جی پارتھا سارتھی ارنب مکرجی اور پاکستان کے محمود شام اور حسنیٰ ملک قابل
ذکر ہیں۔
اتنا ضرور ہے کہ پاکستان کا الیکشن کمیشن امیدواروں کے پرچہ جات نامزدگی
مسترد یا قبول کرنے میں ان قوانین پر عمل کررہا ہے جن پر کبھی عمل ہوا ہی
نہیں تھا لیکن بہر حال پاکستانی دستور کی دفعات 62و 63کے بموجب انتخابات
میں حصہ لینے کا ارادہ رکھنے والے امیدواروں کے لئے چند شرائط مقرر کی گئی
ہیں جس کے تحت امیدواروں کو پاک وصاف کردار کا حامل ہوں وہ اپنے اثاثہ جات
کے اظہار ، ٹیکس قرضوں شہرت کے حامل نہ ہوں تعلیمی قابلیت (اگرچہ بی اے
ہونا ضروری نہیں ہے) کی اسناد (اصلی ہوں جعلی نہ ہوں چنانچہ اسمبلی (پارلیمان)
اور ریاستی اسمبلیوں کے جملہ 24ہزار 204 امیدواروں کے پرچہ نامزدگی میں بے
شمار مسترد ہوگئے جنرل مشرف (سابق) صدر کے بھی دو تین پرچہ نامزدگی مسترد
کردئیے گئے ہیں۔ پرچہ جات نامزدگی کے قبول یا مسترد کئے جانے کے بعد اب ان
فیصلوں کے خلاف اپیل اور اپیلوں کے قبول یا مسترد کرنے کا کام 17اپریل کو
مکمل ہوگا۔پرچہ جات نامزدگی 18اپریل تک واپس لئے جاسکیں گے اور 19اپریل کو
حتمی فہرست کی اشاعت کے بعد 11مئی کو رائے دہی ہوگی۔ ہندوستان میں ہی نہیں
بلکہ بعض دوسرے ممالک میں بھی اس بات پر بعض افراد کو شبہ ہے کہ پاکستان
میں انتخابات کے مراحل پروگرام کے مطابق ہوسکیں گے؟۔ یہ بات کس حدتک صحیح
ثابت ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تاہم راقم الحروف کا یہ خیال ہے کہ جس
طرح پاکستان کی قومی اسمبلی (پارلیمان کا ایوان زیریں یا لوک سبھا) نے تمام
اندیشوں اور قیاس آرائیوں کے برخلاف اپنی مقررہ مدت پوری کی ۔ اسی طرح
انتخابات بھی ہوں گے۔ یہ اندیشہ اپنی جگہ جواز رکھتا ہے کہ پاکستانی دستور
کی دفعہ 62و 63 کے تناظر میں نامزدگی کے کاغذات کے قبول یا مسترد کئے جانے
میں دھاندلیاں ہوئی ہوں کیونکہ پاکستان میں انتقام کو سیاست میں اہم مقام
حاصل ہے نیزہندوستان یا پاکستان میں وہ کون سا شعبہ زندگی ہے جہاں کرپشن کا
دخل نہیں ہے۔ اس لئے نامزدگی کے پرچہ جات کو قبول مسترد کرنے کا عمل شفاف
رہا ہوگا۔ اس تعلق سے حتمی طور پر کچھ کہنا قدرے مشکل ہے۔ نامزدگی کے پرچہ
جات کی جانچ ہڑتال میں سختی کی وجہ سے بہت سارے اہم امیدوار پہلے ہی مقابلے
سے باہر ہوگئے ہیں۔ فی الحال ساری دلچسپی اس بات پر مرکوز ہے کہ کون
امیدوار مقابلہ کرسکے گا؟ اور کون محروم رہے گا۔
پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کے تعلق سے شبہات کی بنیاد طالبان ہیں باور
کیا جاتا ہے کہ طالبات سے خدشہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے ذریعہ انتخابی
پروگرام کو سبوتاج کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر ہم یاد دلادیں کہ القاعدہ و
طالبات سے دہشت گردانہ حملوں کی توقعات جتنی کی جاتی ہے وہ کارروائیاں اس
سے بہت کم کرتے ہیں۔ پاکستان کے انتخابات تو طالبان پر الزام تراشی کا
سنہرا موقع ہیں۔ دہشت گردوں کو اپنے کارنامے طالبان، القاعدہ اور ہندوستان
میں انڈین مجاہدین سے منسوب کرنے کا نہ جانے کیوں اس قدر شوق ہے؟ طالبان کو
بدنام کرنے کے لئے اسلام دشمنوں کے پاس ایجنٹوں کی صورت میں ملالہ اور
مردوں کے عام حلقہ سے مقابلے کی خواہش مند قبائیلی خاتون بادام زری جیسی
ابلیسی فطرت کی چھایہ مار خواتین کی کمی نہیں(طالبات کو برا بھلا بولنا ان
دنوں دانشوری کی علامت و نشانی ہے) دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی
پاکستان میں ہوتی ہے (کام کوئی کرتا ہے نام کسی کا ہوتا ہے) عین ممکن ہے کہ
انتخابات کے دوران وہاں دہشت گردی ہو۔ یہ کارنامہ کرے گا کوئی نام تو
طالبان کا ہوگا۔ طالبان پر ہی شبہ ہو اسی لئے پیش بندی ہورہی ہے۔ دہشت گردی
کا خطرہ یوں بھی ہے کہ زرداری جیسا دہشت گرد صدر مملکت ہوتو سوچ لیں کہ جو
بندہ صدر بن کر ڈرون حملے برداشت کرے اور امریکی دہشت گردوں کو رات میں بلا
اجازت چوروں کی طرح اپنے ملک میں گھس کر دھوکے سے بن لادن کو شہید کرنے کی
اجازت دے اس سے بڑھ کر دہشت گردوں کا سرپرست اعلیٰ بھلا کون ہوگا تو دہشت
گردی کیوں نہ ہوگی؟
انتخابی نتائج کے تعلق سے کسی قسم کی پے گوئی ناممکن ہے تاہم دو باتوں پر
عام طور پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ کسی ایک پارٹی کو شائد
ہی قطعی اکثریت مل سکے یا پیپلز پارٹی کو اقتدار تو دور رہا قابل لحاظ
کامیابی بھی شائد ہی مل سکے کچھ یہی حال نواز شریف کی ن لیگ کا ہوگا۔ گزشتہ
روایات کے برعکس اصل مقابلہ آڑائی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے مابین شائد
ہی ہو۔ انتخابات میں عمران خان کی پارٹی کو سب سے زیادہ حمایت ملنے کی خاصی
توقع ہے گوکہ جنرل پرویز مشرف کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ ان کو کوئی خاص
کامیانہ نہ ہوگی۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ تبدیلی کے خواہاں پاکستانی عوام جو
میاں اور بی بی (یعنی میاں نواز شریف کی لیگ اور بی بی بے نظیر کی پی پی
سے) سخت نالاں، بیزار رائے دہندے شائد عمران خاں اور جماعت اسلامی کے اتحاد
کی جانب رخ کریں لیکن جنرل مشرف نے اپنی بعض ہمالیائی غلطیوں (امریکہ کی
غلامی آمریت اور اسلام دشمنی بہ حوالہ لال مسجد )کے باوجود ملک کو اچھی
حکومت دی تھی عوام کے مسائل میں کمی ہوئی تھی۔ زر مبادلہ میں اضافہ ہوا
تھا۔ مشرف اچھا کام کرکے بھی بدنام خاصے زیادہ ہیں یہی ان کی ناکامی کی کی
وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ بہر حال مشرف دودھ کے دھلے بہر حال نہیں ہیں۔ مشرف ملک
کے دستور کے مجرم ہیں تو زرداری (ان کی مرحومہ بیگم بے نغیر) اور نواز شریف
نے ملک کی دولت کو لوٹا ہے ایسے میں عمران خان کی شبیہ (ان کی جوانی کی
رنگین زندگی کے باوجود) سب سے بہتر نظر آتی ہے لیکن عمران کی پارٹی کا
ڈھانچہ اور اس کی تنظیم، وسعت قوت اور وسائل کی کمزوری کامیابی کی راہ میں
رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ عمران کی شخصیت بھی ان کی کامیابی کی راہ ہموار کرسکتی
ہے۔
پاکستان میں طاقتور زمینداری سسٹم نے وڈیروں (جاگیرداروں یا بڑے زمینداوں)
کو بہت طاقتور بنادیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں ایک یا کئی دیہاتوں میں
وڈیرے بے تاج کا بادشاہ ہوتا ہے نہ صرف وڈیرے کے ملازمین جو کسی دیہاتی
آبادی کا 70تا80 فیصد ہوتے ہیں بلکہ وہاں پر جو سرکاری ملازم ہوتے ہیں وہ
بھی وڈیرے کی رعایا کے مثل ہوتے ہیں۔ مختصر یہ کہ وڈیرہ تو ایک ہوتا ہے
لیکن اس کے حکم پر ووٹ ڈالنے سینکڑوں ہوتے ہیں۔ عام طور پر تمام وڈیرے کسی
نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ وڈیرے بھی بکتے ہیں اور وفاداریاں
بدلتے رہتے ہیں۔ ان ہی کی وساطت سے بیرونی ہاتھ یا امریکہ اپنا اثر و دباؤ
استعمال کرتا ہے۔ وڈیروں کے علاوہ امریکی مفادات کے لئے کام کرنے والوں میں
بڑے بڑے سرکاری وفوجی عہدیدار، سیاستداں اور ذرائع ابلاغ میڈیا کا کام کرتے
ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے پی پی پی اور مسلم
لیگ (ن) کو امریکہ بھی نا پسند کرتا ہے۔ امریکہ مخالفت میں دھواں دار
تقاریر کرنے والے ہی اندر ہی اندر امریکہ کے زبردست حمایتی ہوتے ہیں۔ اسی
لئے باور کیا جاتا ہے کہ عمران خان بھی امریکہ کے منظور نظر ہوسکتے ہیں۔
عمران خاں نہ صرف طالبان بلکہ راسخ العقیدہ فنڈا منٹلٹس Fundamentalistsسے
نالاں و ناراض مذہب بیزار تو نہیں مذہب بیزاری کی پہلی منز ل (یعنی نام
نہاد روشن خیالی، آزاد خیالی، لبرل ہونا وغیرۃ میں ضرور ہے۔
پاکستان میں مذہبی جماعتوں کا اثر بھی خاصہ ہے وہ عوام میں مقبول بھی ہیں
لیکن ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت ان میں کم ہے کیونکہ مذہبی جماعتیں ووٹ حاصل
کرنے کے مروجہ طریقوں کو اختیار نہیں کرتی ہیں۔
جنرل مشرف اگر امریکہ کی حد سے بھی زیادہ غلامی نہیں کرتے، ایمرجنسی کا
نفاذ نہ کرتے، عدلیہ کی توہین نہ کرتے اور مذہب بیزاری میں لال مسجد جیسے
واقعات میں ملوث نہ ہوتے تو کرپشن سے دور رہنے اور بہتر حکومت چلانے اور
معاشی ترقی کے سبب رائے دہندوں کی کثیر تعداد کی پہلی پسند ہوسکتے تھے۔ بے
نظیر کے قتل یا اکبر بگتی کی موت (جو فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے ہتھیاروں کا
استعمال کرتے ہوئے ہوئی تھی) کو قتل کہنا ہی غلط ہے۔ اس قسم کی باتیں محض
زیب داستان کیلئے ہیں۔
عمران خان او رمشرف کے ساتھ ساتھ زرداری اور نوازشریف کو بالکل ہی نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کی طاقت گئی گزری حالت میں بھی مخلوط حکومت
میں شرکت کے لئے سودے بازی ضرور ہوگی۔ انتخابات کے التوا کا امکان ہمارے
نزیدک بہت کم ہے۔ ہاں مخلوط حکومت بننے کا امکان روشن اور یقینی ہے۔ |