مامتا

چھوٹے سے شہر کا بارونق بازار، خوانچہ فروشوں، سبزی فروشوں، اور دیگر رنگ رنگ کی چیزیں بیچنے والوں کا شور، میں اس بازار سے پرانا آشنا تھا، بچپن میں جب ماں کی انگلی پکڑ کر یہاں سے گزرتا تو میری نظر ان چیزوں پر ہوتی جو مجھے بہت بھاتی تھیں اور پھر ماں سے ضد شروع ہو جاتی کہ مجھے یہ خرید کر دو ماں بہت سمجھاتی کہ یہ تیرے کام کی نہیں ہے مگر میں کب ماننے والا تھا آخر میرے آنسوؤں کے سامنے ممتا ہار جاتی اور میں وہ چیز لے کر یوں خوش ہوتا گویا دنیا بھر کی دولت مجھے مل گئی ہو، پھر سکون خوش باش ماں اپنی شاپنگ کرتی رہتی اور میں ساری دنیا سے بے نیاز اپنے کھلونے میں مگن رہتا۔ ماں کو مختلف کام ہوتے تھے اور بہت سی فکریں اور میں بے غم، روٹی سے بے غم٬ کپڑے سے بےغم٬ گھر کے انتظام سے بے غم، مجھے یاد ہے کہ اک رات مجھے بخار تھا اور صبح عید تھی ماں نے بڑے چاہ سے میرے لئے نئے کپڑے بنوائے تھے، نئے جوتے خریدے تھے اور اس کی خواہش تھی کہ اسکا چاند صبح تیار ہوکر ہنسی خوشی باپ کے ساتھ نماز عید کے لئے جائے وہ بار بار میرے ماتھے پر ہاتھ رکھتی اور بخار کی تیزی دیکھ کر پریشان اور بے چین ہو جاتی اس نے اس رات کئی ٹوٹکے آزمائے، مجھے شہد کھلایا، قہوہ پلایا، تیل ملا، دم ڈالا، ڈاکٹر کی دوائی پلائی، میں سو جاتا اور جب میری آنکھ کھلتی ماں جاگ رہی ہوتی، اسے مجھ سے اتنی محبت کیوں تھی حالانکہ مجھے تو اس وقت اسکی اتنی پرواہ نہیں تھی مجھے تو دن میں اسکی ضرورت بس اس وقت محسوس ہوتی جب مجھے بھوک لگتی یا کوئی تکلیف پہنچتی یا پھر کوئی مطلب نکالنا ہوتا مگر وہ تو ہر دم سائے کی طرح میرا پیچھا کرتی۔ جب میں تھوڑا بڑا ہوا اور میٹرک میں پہنچا تو ماں میں بڑھاپے کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوئے، اس میں پہلے کی پھرتی اور تیزی باقی نہ رہی، چہرے پہ جھریاں نمایاں ہونے لگیں، ہاتھوں میں معمولی سی لغزش آ گئی مگر میرے سارے کام تو اسی تیزی اور تن دہی سے ہوتے تھے اور اب تو میری فرمائشیں بھی بڑھ گئیں تھیں، یہ چیز کھانی ہے اور وہ نہیں کھانی یہ کپڑا پہننا ہے اور وہ نہیں پہننا یہ کام کرنا ہے اور وہ نہیں کرنا، میری اور ماں کی پسند میں زمین آسماں کا فرق آ گیا تھا اور کتنی عجیب بات ہے کہ اس نے اپنی پسند کی ساری چیزیں چھوڑ دی اور صرف میری پسند کو ملحوظ خاطر رکھا مثلاً کبھی وہ کھانا نہ بنایا جو اسے پسند تھا، کبھی وہ کام نہ کیا جو میری خاطر زاری کرے مجھے گھر میں جھاڑو کی آواز سے سخت نفرت تھی جب تک میں سکول نہ چلا جاتا ماں گھر میں جھاڑو نہ دیتی۔ انٹر کے پیپرز آئے میں پیپرز دیتا رہا ماں نفل پڑھتی رہی اور روزے رکھتی رہی، میں راتیں پڑھائی میں گزارتا رہا ماں دعائیں کرتی رہی اور منتیں مانتی رہی اسے میرے صبح کے ناشتے کی کتنی فکر ہوتی تھی ایک دن جب پیپرز کے درمیان چھٹی تھی اور میں دیر تک سوتا رہا اسکے ٹھنڈے اور کانپتے ہاتھ میرے بالوں اور ماتھے پر سرسراہٹ کر کے مجھے جگانے لگےوہ تو مجھے پوچھ رہی تھی کہ میرا چاند کیا کھائے گا اور مجھے بیزاری ہو رہی تھی کہ اس نے مجھے جلدی کیوں جگا دیا میں ذرا تلخ لہجے میں بولا " ماں تو کیا ہر وقت میرے پیچھے پڑی رہتی ہے تھوڑا اور سو لینے دے" وہ میرے جواب سے متفکر ہوکر بولی " پتر زندہ ہوں تو پوچھتی ہوں مر جاؤں گی تو کوئی نہیں پوچھے گا ماں کے پیار کو یاد کرو گے" میرے لئے اسکا یہ فقرہ کوئی معنی نہیں رکھتا تھا شاہد میرے ذہن میں اس زمانے کا تصور ہی نہ تھا کہ جب ماں نہ ہوگی۔ میرے شہر میں انٹر کی تعلیم کے بعد دور جانا پڑتا تھا شہر چھوڑنا پڑتا تھا ہاسٹل میں رہنا پڑتا تھا مجھے یاد ہے کہ جب اس نے مجھے رخصت کیا وہ بے حد رنجیدہ تھی اسکے زرد رخساروں پر تھکی ہوئی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سمندر امڈ رہا تھا وہ دیر تک میرا ماتھا چومتی رہی اور دعائیں دیتی رہی، میرے سر سے کچھ پیسے وار کر کام والی کو دیئے " پتر ماں مر جائے گی تہرے بغیر ہر ہفتے ماں کو ملنے ضرور آنا" پھر جب میں گھر آتا وہ بہت خوش ہوتی، مزے مزے کے کھانے پکاتی میرے ناز نخرے اٹھاتی اور جب میں واپس ہاسٹل چلا جاتا تو اداس ہو جاتی۔ اب تو اس کو پسلیوں میں درد بھی رہنے لگا تھا اور ایک رات تو وہ درد سے سو بھی نہ سکی تھی میں ان دنوں تھرڈ ائیر کے پیپرز دے رہا تھا اور کئی دن گھر نہ آسکا مجھے ماں کا ایک خط موصول ہوا " پتر ماں زیادہ زندگی نہیں مانگتی رب سے بس تیرے سر پر سہرہ دیکھ لوں پھر آرام سے قبر میں سوؤں گی" میں دل ہی دل میں ماں کی جلد بازی پر ہنس دیا۔ میں تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد گھر واپس آیا تو ماں کا حلیہ ہی بدل چکا تھا وہ بالکل لاغر ہو چکی تھی اسکی آنکھیں اندر دھنس چکی تھیں اور چہرے کی ہڈیاں ابھر آئیں تھیں مگر میرے لئے اس کا پیار ویسا ہی تھا اور مجھے دیکھ کر جیسے وہ اپنی بیماری بھول گئی تھی مامتا میں بڑا حوصلہ ہوتا ہے جبر کا صبر کا، خدا نے اس کے پاؤں تلے جنت رکھی ہے تو دل میں اولاد کے لئے بے لوث محبت، دنیا میں ماں کے بعد ایسی محبت کہیں دستیاب نہیں ہے ماں میری ہو یا کسی اور کی سب کی ایک کہانی ہے ایک قصہ ہے، ماں پیار ہے، پناہ ہے، دعا ہے، ماں سایہ ہے، شانتی ہے، امن ہے۔

آج شہر کے بازار میں وہی رونق تھی مگر میں تو ماں کے خیالوں میں گم تھا اور مجھے تو ماں کے لئے کچھ خریدنا تھا، پہلی دفعہ کچھ خریدنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کاش میں ماں کے لئے کوئی نایاب چیز خرید سکتا جسے میں بہترین تحفے کا نام دے سکتا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بازار تو ویران تھا ہر چیز ساکن تھی اور میں ایک دوکان کے سامنے کھڑا تھا میں بمشکل اس دوکان میں داخل ہوا اور میں نے دوکان دار سے کیسے کہا مجھے نہیں معلوم پر لفظ یہ تھے " مجھے میری ماں کے لئے کفن کا کپڑا چا ہیے"
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 23239 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More