صدر مملکت،وزیر اعظم اور آرمی
چیف نے پانچ سالہ جمہوری دور کے خاتمے پر اطمنان کا اظہار کیا جبکہ چیف
جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف اس سے پہلے بھی جمہوری عمل کے تکمیل
ہونے پر خوشی کا اظہار کر چکے ہیں۔شیخ رشید نے بیماری کی حالت میں مبشر
لقمان کے پروگرام میں شرکت کی اور نہ صرف صدر،وزیر اعظم،آرمی چیف اور جناب
چیف جسٹس کو بلکہ چوہدریوں اور میاں برادران کو بھی مبارک باد دی کہ آپ سب
اس ملک کی تباہی اور عوام کی بیخ کنی کے ذمہ دار ہیں۔شیخ جی کا فرمان تھا
کہ اگر میاں برادران صحیح اور سیاسی اپوزیشن کرتے تو ملک جس تباہی کا شکار
ہوا شائد نہ ہوتا۔
گزرے ہوئے خوبصورت جمہوری دور میں ملک اندھیروں میں ڈوبا رہا عوام
بجلی،پانی اور گیس کی سہولیات سے محروم رہے،سٹیل مل پی آئی اے اور ریلوے کے
ادارے دیوالیہ ہوگئے۔جعلی ڈگریوں اور بیرون ملک شہریت کے حامل اسمبلی
ممبروں اور سینیٹروں نے خوب مال کمایا اور حکومت نے عدالتی فیصلوں کا تمسخر
اڑایا اور احکامات کی پروا کیئے بغیر اپنی اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔ملکی صنعتیں
تباہ ہوگئیں ،ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا اور غربت،مہنگائی،بیماری،بھوک
اور بد امنی نے عوام کا بھرکس نکال دیا،جسم فروشی،منشیات فروشی،ذخیرہ
اندوزی اور سمگلنگ جیسے گھناؤنے دھندے عروج پر رہے جسکی پشت پنائی میں عوام
کی محافظ پولیس ملوث رہی۔وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ سمیت گورنر اسٹیٹ بنک
بدلتے رہے جبکہ وزیر داخلہ ملکہ معظم کا وفادار،وائسرائے کی طرح پورے پانچ
سال تک پاکستان پر حکومت کرتا رہا۔ملک جلتا رہا،ملک چین کی بانسری بجاتا
رہا اور ٹیلیویژن اینکروں کا جھتہ محفلیں سجاتا رہا۔سیاسی جماعتوں سے
وابستہ صحافی اور کالم نگار قصیدے اور نوحے لکھتے رہے عوام لٹتے اور پٹتے
رہے۔روحیں تڑپتی رہیں،جسم بکتے رہے،گھر جلتے رہے اور پاکستان کھپتا
رہا،میاں صاحبان کی خاموشی،کائرہ کی بھڑکیں،صدر صاحب کی بھڑکیں چیف جسٹس
اور آرمی چیف کی نصیحتیں مرتے،لٹتے ارو بکنے عوام کے کسی کام نہ آئیں۔جمہور
لٹ گئے،نظام پٹ گیا مگر جمہوریت کامیاب ہوگئی۔سادہ لوح اور قریب المرگ
لوگوں کو صدر،وزیر اعظم اور آرمی چیف نے مبارک دی مگر حیرت ہے کہ مرتے مرتے
عوام نے یہ مبارک بھی قبول کر لی۔رحمٰن ملک نے اعلان کیا ہے کہ آرمی چیف کو
فیلڈ مارشل کا عہدہ دیا جائے۔ہم نے کب انکار کیا ہے ؟ دے دو ! اگر رحمٰن
ملک کو ہلال امتیاز اور ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری مل سکتی ہے تو چیف صاحب کو
فیلڈ مارشل بنانے میں کیا حرج ہے ۔اگر سندھ اسمبلی کے ممبران اور وزیر اعلیٰ
کو تا حیات سہولیات مل سکتی ہیں اور قائد اعظمؒ سے منسوب اداروں کو جناب
بھٹو سے منسوب کیا جاسکتا ہے تو ایک عدد فیلڈ مارشل بنانے میں کیا حرج
ہے۔اگر ہلال پاکستان اور ہلال امتیاز ٹوکریوں کے حساب سے آئینی کمیٹی کے
ممبران اور نوکرشاہی کے کارندوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں تو ایک فیلڈ مارشل
بنانے سے کونسا نقصان ہوگا؟ اب پتہ نہیں کہ اندر کی بات ہے؟ یہ آئیڈیا ملک
کا ہے یہ ملک الموت کا ؟ ہوسکتا ہے کہ جناب زرداری نے فیلر فائیر کروایا
ہوتا کہ فوج اور عوام کا ری ایکشن دیکھا جائے۔اگر حکومت چاہتی تو اسکا
فیصلہ16مارچ کو سپیشل چھٹی کے دن کرسکتی تھی مگر ایسا نہ ہوا اور ملک کا
بیان 17مارچ کو آیا۔بہر حال اس بیان کی بھی اہمیت ہے جسکا فیصلہ اب الیکشن
کے بعد ہی ہوگا۔
عوام کے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہوچکا اور خوب ہوا۔الیکشن کے بعد کیا ہوگا وہ
بھی ضرور ہوگا اور اس سے بھی ُبرا ہوگا۔عوام ووٹ دیں نہ دیں الیکشن ہونگے
مگر اس بار NROکے تحت نہیں بلکہ SGPکے تحت ہونگے۔SGPکا مطلب ہے سیکرٹ گورنگ
پلان۔اس گیم کے پلیئر بھی وہی ہیں جن کے درمیانNROہوا تھا مگر طریقہ واردات
ذرا مختلف اور تنظیم میں کچھ ردوبدل ہے۔فوج پھر غیر جانبدار رہے گی اور
فوجی ائر شایا برقرار رہے گا۔جناب افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد ازخود
نوٹس لینے کی رفتار کم ہو جائے گی جبکہ ماتحت عدلیہ اور انتظامیہ میں کرپشن
کا گراف مزید بلند ہوگا۔بڑے بڑے مقدمات جو بڑے اور بُرے لوگوں کے خلاف قائم
ہیں یونہی لٹکے رہینگے اور کسی کے خلاف فیصلہ ہو بھی گیا تو جناب صدر نہ
صرف سزائیں ختم کر دینگے بلکہ با عزت بری بھی کردینگے۔اسطرح کی روایت پہلے
قائم ہوچکتی ہے جب رحمٰن ملک کی صدر صاحب نے نہ صرف سزا معاف کی بلکہ
بھگوڑے پن کو چھیٹوں میں بدل کر پنشن بھی دے دی۔
عدلیہ کے فیصلوں پر اب آنے والی حکومت بھی عمل نہیں کرے گی جبکہ عام اور
غریب آدمی پر عدلیہ کی گرفت مزید سخت ہوجائے گی۔سیاسی جماعتیں اپنے ورکروں
اور ہر سطح کے لیڈروں کا دفاع کرینگی جس کی وجہ سے لاقانونیت بڑھے گی۔قبضہ
گروپ اور دیگر مافیا جات کی پوزیشن مستحکم ہوگی جو کہ ملک گیر
تشدد،مہنگائی،عدم تحفظ اور فرقہ واریت کو نقظہ عروج تک لے جائیگی۔پولیس
مافیا کی مدد گار اور عام آدمی کیلئے خوف کی علامت بن جائے گی اور انصاف
نام کی کوئی چیز اس ملک میں نہیں رہے گی۔لوگ عدالتوں،کچہریوں اور انتظامیہ
پر عوام اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مافیا اور علاقائی غنڈوں کے رحم و کرم
پر بھروسہ کرینگے۔آنے والے الیکشن کے نتیجے میں کسی ایک جماعت کی حکومت
نہیں بنے گی اسلئے ہر بڑی جماعت اے این پی،ایم کیو ایم،ق لیگ اور جمعیت
علمائے اسلام فضل الرحمٰن کے سہارے کی محتاج ہوگی۔وزارتوں کی بندر بانٹ
پہلے سے بھی زیادہ ہوگی اورایک مفلوج اور ڈانواں ڈول حکومت پھر پانچ سال
گزارے گی۔جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کیا کرینگی یہ بھی ایک سوال ہے جسکا
کوئی جواب نہیں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت بنی تو کارکردگی پچھلے پانچ
سالوں سے بھی بد تر ہوگی بچا کھچا ملک مزید برباد ہوگا اور بچے ہوئے ادارے
برباد ہوکر غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت ہوجائیں گے۔بحریہ ٹاؤن جیسے
اداروں کو کھلی چھٹی ملے گی اور بچی کھچی سرکاری زمینوں،شاملاتوں اور
جنگلات کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی پانچ دس کنال زمین بھی ہڑپ ہوجائے
گی۔پراپرٹی مافیہ کا اشتراک بڑھے گا اور غیر ملکی کمپنیوں کی شمولیت سے
قبضہ گروپ نا قابل گرفت ہوکر عدالتی احکامات کی پروا نہیں کرینگے۔پولیس
ناکوں پر عوام سے بے عزت اور بے توقیر ہونگے اور پولیس کے سامنے اپنی جیبیں
الٹ کر جان بچائینگے۔با اثر شخصیات کی چٹ کے بغیر پولیس رپورٹ نہیں لکھے
گی۔چٹ کی فیس بھی بھاری ہوگی۔مہنگائی اور غربت پر لوگ لکھنا اور بولتا چھوڑ
دینگے اور عوام پھر بھی ایک زرداری سب پر بھاری اور اگلی باری کا نعرہ
لگائینگے۔
ن لیگ کی حکومت بننے کی صورت میں خواجہ آصف،سعد رفیق،حنیف عباسی اور رانا
ثناء اﷲ اپنی توپوں کا رخ فوج کی طرف کرینگے جھنیں میاں نواز شریف کی بھر
پور حمایت حاصل ہوگی۔حکومتی بمباری سے فوج اور ن لیگ کا ٹکراؤ ہوگا جو کسی
حادثے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔میاں نواز شریف سیکرٹ گورننگ پلان کے تحت
زرداری حکومت کی پالیسیاں برقرار رکھنے کے پابند ہونگے جبکہ میاں شہباز
شریف اسکی مخالفت کرینگے۔ہوسکتا ہے کہ دونوں میں سے ایک میاں کی چھٹی
ہوجائے یا میاں ہاؤس تقسیم ہوجائے۔روحانیت کے طالب علموں کا خیال ہے کہ
میاں نواز شریف اب اقتدار میں نہیں آئینگے اور ملک کسی بڑے حادثے کی صورت
میں کسی ایسی قوت کے زیر اثر چلا جائے گا جو اس کی تعمیر و ترقی ایک نئے
انداز اور نئے طریقہ کار سے کرے گی۔
آنے والے دور میں فوجی جرنیل تذبذب کا شکار رہینگے اور نئے جرنیل نئے
چیلنجوں کا سامنا کرنے سے گریزاں رہینگے۔تذبذب اور ٹھہراؤ کی صورت میں
بیرونی مداخلت بڑھے گی اور سیاسی لیڈر مداخلت کاروں کے ایجنٹ بن
جائینگے۔روپے کی قدر1980ء کے افغانی کے برابر ہوگی اور سمگلنگ کو تقریباً
قانونی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔حکومت جیالی بنے یا متوالی ہر دو صورتوں میں
قومی خزانہ خالی ہوجائے گا اور سرکاری ملازمین کو شائد تنخوائیں بھی نہ مل
پائیں گی۔ یہ نقشہ حتمی نہیں بلکہ خفیہ حکمرانی کے منصوبے سے اخذ ہونے والے
نتائج کا خاکہ ہے جس میں اہم رول امریکہ،برطانیہ،سعودی عرب اور امارات کا
ہے،زرداری حکومت نے ایران اور امارات سے قربت رکھی چونکہ امارات نے این آر
او میں کلیدی رول ادا کیا تھا اور پیپلز پارٹی کا اصل ہیڈ کوارٹر بھی دبئی
میں ہے۔ن لیگ کے حق میں فیصلے کی صورت میں امارات کا اثر کم اور سعودی عرب
کا زیادہ ہوگا جس کی وجہ سے امارات کی کچھ ریاستوں اور ایران کے ساتھ
تعلقات متاثر ہونگے۔ خارجہ پالیسی میں تبدیلی ممکن ہی نہیں جبکہ میاں
برادران بھارت دوستی کے حق میں ہیں۔اگر میاں برادران نے بھارت کیساتھ تعلق
قائم کیا تو آزاد کشمیر میں ن لیگ ختم ہوجائے گی اور سردار عتیق اورمیاں
برادران کے تعلقات بحال ہوجائینگے۔مقبوضہ کشمیر کے حالات بد تر ہونگے اور
بھارت تحریک آزادی کو کچلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔بھارت کے ساتھ دوستی کی
صورت میں مسئلہ کشمیر پیچیدگی کا شکار ہوگا اور پاکستانی معیشت برباد ہوکر
بھارتی رحم و کرم پر چلی جائے گی۔
افغانستان پر امریکہ اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرے گا اور کسی نہ کسی صورت وہاں
موجود رہے گا۔ بھارت، اسرائیل اور امریکہ افغانستان میں کوئی نئی چال چلیں
گے جس سے پاکستان براہ راست متاثر ہوگا پاک چھین تعلقات میں بھی جمود رہے
گا چونکہ میاں برادران کا رجحان مغرب،امریکہ اور مڈل ایسٹ کی جانب رہیگا۔یہ
بھی ہوسکتا ہے کہ میاں برادران پہلی ہی فرصت میں بھارت کو پسندیدہ ترین ملک
قرار دے دیں اگر یہ نہ ہوا تو یہ کام زرداری صاحب کرینگے کیونکہ سکرپٹ میں
یہ لکھا جاچکا ہے کہ پاکستان کو کسی نہ کسی صورت بھارت کی بالا دستی قبول
کروائی جانی ہے۔قدرت کو کیا منظور ہے اور آسمانی فیصلے کیا ہونگے یہ رب کو
ہی پتہ ہے۔ہوسکتا ہے سب کچھ پل بھر میں چکنا چور ہوجائے یا پھر وہ لوگ اور
حکومتیں جو منصوبے بنا رہی ہیں خود ہی نہ رہیں۔حادثات،آفات اور عذاب پہ نہ
امریکہ کا کنٹرول ہے اور نہ ہی زرداریوں،بٹوں اورحواجوں کا۔روحانی اور
ناسوتی قوتوں کے اپنے اپنے طریقے ہیں جبکہ ٹکراؤ کی صورت میں ناری اور
ناسوتی قوتیں ہمیشہ ہی شکست خوردہ ہوکر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔
اس ملک میں اچھے،بااصول اور با کردار لوگوں کی کمی نہیں مگر عوام کو ایسے
لوگوں کی ضرورت نہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک اچھے ،باکردار،با
اصول اور عالم شخص کے پاس وسیع بنگلے،غنڈے،قبضہ گروپ کے سرغنے،کلاشنکوف
بردارکن ٹٹے،بڑی قیمتی گاڑیاں،بیرون ملک جائیدادیں اور بھاری فیسوں والے
اعلیٰ قانون دانوں اور ماہرین کی ٹیمیں نہیں ہوتیں۔کوئی ایس ایم ظفر،بابر
اعوان،وسیم سجاد،عاصمہ جہانگیر،اعتزاز احسن،ملک قوم،حفیظ پیرزادہ اور حامد
خان ہمہ وقت ان کے کیسوں کی پیروی کیلئے بیتاب نہیں ہوتا۔ عوام کو ایسا
لیڈر چاہیے جو ان کا برکس نکالے،ذلت و رسوائی کا سامان مہیا کرے ،اپنے درپر
ناک رگڑوائے،ان کے بچوں کو جاہل اور اجڈ رکھے،انھیں بینظیر انکم سپورٹ اور
بیت المال سے خیرات دے اور ان کی عزت نفس کا جنازہ نکال کر ان سے ووٹ بھی
لے۔ الیکشن کے بعدایسے ہی لوگ حکومت کرنے آئینگے بلکہ انھیں میں سے آئینگے
جو ابھی گئے ہیں چونکہ یہ جمہور کی ڈیمانڈ ہے
مر مراک بناون شیشہ تے مار وٹہ اک پن دے
دنیا اتے تھوڑے ہوندے قدر شناس سخن دے |