آج ملکوں میں آزادی اور انقلاب
کا موسم آیا ہوا ہے، جہاں دیکھئے جمہوریت کی بات ہو رہی ہے۔ جمہوریت کی
پِنپنے کی باتیں کی جارہی ہیں، مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی توانائی صرف
ضروریات تک ہی محدود کر رہے ہیں ملک کی خوشنودی کو نہیں دیکھ رہے ۔ اپنی
خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں ملک کو ترقی کی راہ میں سست کر نے میں مصروف
ہیں۔ ڈرانے دھمکانے کی پالیسیوں پر عمل جاری ہے مگر ان ملکوں کو یہ جان
لینا چاہیئے کہ لوگوں کا کچھ نہ کہنا یہ ثابت نہیں کرتا کہ لوگوں کو آپ کی
حرکتوں پر اعتراض نہیں ہے۔ ایسے مواقع پر ضرورت بس اتنی سی ہے کہ نا وابستہ
ممالک کی تحریک جیسے فورم اگر حوصلہ دکھائیں تو بین الاقوامی غنڈوں کو قابو
میں کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے ہمت اور لگن کی ضرورت ہوگی جس کی کمی
ہماری قوم میں بھی نظر آ تی ہے۔خود مستقبل کے سنوارنے کے لئے جب یہ قوم
کھڑی ہوگی تو لازمی انقلاب آ جائے گا۔ اور سب کچھ تبدیل بھی ہو جائے گا ۔قوم
کے لئے سارا پیغام اس شعر میں پنہاں ہے۔
سر قلم ہونا کبھی خونِ دل و جاں ہونا
کاش وہ دیکھے مرا بے سرو ساماں ہونا
عمر روکے ہے اِدھر، موت بلاتی ہے اُدھر
بہت مشکل ہے، یہ مشکل میری آساں ہونا
آپ دیکھ ہی رہے ہونگے کہ ہمارے یہاں شفاف الیکشن کی بڑی دھوم ہے مگر جو کچھ
کل فخرو بھائی کے ساتھ ہوا کیا اس کے بعد شفاف الیکشن ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
موصوف کا لیپ ٹاپ اور کچھ ضروری ڈیٹا ان کی موجودگی میں ان کے ہی دفتر سے
چوری ہو گیا۔ جو ادارہ یا ادارے کے سربراہان اپنے لیپ ٹاپ و پرسنل
دستاویزات کی حفاظت نہ کر سکے وہ پورے ملک میں الیکشن میں چوری اور دھاندلی
کیسے روک سکیں گے؟ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے ، کیا ایسے واقعات سے عوام کا
اعتماد مجروح نہیں ہو رہا ہے۔ یہ تمام باتیں سوچنے اور سمجھنے کی ہیں مگر
کیا کیا جائے کہ ہمارے لبوں پر تالے پڑے ہیں۔ پتہ نہیں کب یہ لبوں کے تالے
کھلیں گے ۔یہاں تو موسم کی طرح روز و شب بدلتا ہے۔بہت دُکھ ہوتا ہے جب
اخبار پڑھتا ہوں ، سیاستدانوں کے حالات دیکھتا ہوں عوام کی دگر گوں صورتحال
پر نظر پڑتی ہے تو بہت مایوس ہوتا ہوں،حالات و واقعات ایسے ہیں کہ سوچو تو
دلوں پر چھریاں چلتی محسوس ہوتی ہیں مگر پھر سوچتا ہوں کہ گھر جیسا بھی ہے،
ہے تو اپنا، ہم اسے چھوڑ تو نہیں سکتے، لہٰذا لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے
آخری سانس تک اسے سنوارنے میں، اس کے حالات کو سدھارنے میں، دیکھنا یہ ہے
کہ نئی حکومت آکر کیا گل کھلاتی ہے۔ عوام کی داد رسی کہاں تک کرتی ہے۔اور
اس عوام کو بھی تلاش ہے اک ایسے شخص کی جو عوام کی آنکھوں میں چھپے درد
دیکھ سکے۔
آج انقلاب کی دعویدار سیاسی جماعتوں نے ایک بار پھر سرمایہ داروں اور
جاگیرداروں کوٹکٹ دے دیئے ہیں۔ جاگیرداروں کو غریبوں سے ویسے بھی کوئی محبت
نہیں بلکہ یہ غربت پیدا کرنے والی فیکٹریاں ہیں۔ اگر اسی طرح سیاسی داﺅ پیچ
چلتا رہا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیاستدانوں کا آخری راﺅنڈ ہوگا۔
یقینا پاک افواج کی گہری نظر بھی ان تمام حرکات و سکنات و معاملات پر ہوگی
اور وہ بہت ہی باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہونگے اگر عوام کی مدد کی جائے
تو ملک میں انقلاب جلد بھی آ سکتا ہے۔ آج تو عوام میڈیا کے ہر پروگرام میں
انقلاب اور تبدیلی کی بات کر رہے ہیں مگر تبدیلی کی واضح روشنی تو گیارہ
مئی کو ہی دیکھا جا سکے گا کہ عوام کیا واقعی جاگ چکی ہے یا انہیں اُٹھنے
میں ابھی وقت باقی ہے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کسی قسم کی تبدیلی نہیں آنے
والی کیونکہ جن حضرات کوسیاسی جماعتوں نے ٹکٹ جاری کیا ہے وہ وہی سرمایہ
دار اور جاگیردار ہیں اور الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں جانے والے ہیں ۔ تمام
ہی سیاسی جماعتوں نے روٹی، کپڑا، مکان اور مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافے ،
غربت ختم کرنے اور مہنگائی ختم اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کئے ہیں ۔
پچھلے 65برسوں سے یہ جماعتیں عوام سے یہ وعدے کر رہی ہیں غریب عوام کو یہی
لولی پاپ دے کر ایوانِ اقتدار میں پہنچ کر عوام کو بھول جاتے ہیں ۔ ملک
میںحکومت تو ختم ہوگئی مگر دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ کیا نئی حکومت ان
تمام مسائل سے نکلنے میں کامیاب ہوگی ۔
بہت دنوں سے ہے، یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
کہاوت مشہور ہے کہ سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے، اس طرح سیاسی گلیاروں
میں کوئی کسی کا ہمہ وقتی نہ تو دوست ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن، بس موقع محل
اور مطلب پرستی اور ابن الوقتی کا نام ہی سیاست ہے۔ اور اسی کو شاید لوٹا
کریسی بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر سیاست میں کسی کے نظریات اور خیالات میں
بار بار تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہو تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے
بس یہ سمجھ لیں کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی قیمت لگا رہا ہے، اب یہ وقت پہ
منحصر ہے کہ انہیں صحیح قیمت مل پاتی ہے یا نہیں؟اور یہی وہ چیز ہے جس کی
وجہ سے عوام بھی خموش ہے، کیونکہ وہ سب کچھ دیکھ تو رہی ہے مگر اس لوٹا
کریسی پر کچھ اقدامات نہیں کر سکتے ۔ اقدامات کا دارومدار بھی حکمرانوں کا
ہی استحقاق ہے مگر وہ تو خود ہی اس قسم کے تمام کھیل کے کھلاڑی ہیں تو بھلا
انصاف کون کرے۔کیا کہا جائے کہ ہمارے یہاں سیاست کے کھیل ہی بڑے عجیب و
غریب ہیں لہٰذا حیرانی نہیں ہونی چاہیئے، جنہیں الیکشن میں حصہ لینے سے
روکا گیا تھا انہیں دوبارہ امیدوار بننے کی اجازت مل چکی ہے اگر سب کچھ
ایسے ہی چلتا رہا تو پھر آپ کیوں سب کچھ ٹھیک ہونے کے امید میں ہیں!
جس طرح ووٹ لینے کے لئے آپ پر اپنا اعتماد جتایا جاتا ہے اس اعتماد کو
برقرار رکھنے کے لئے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پالیسی بنائے جائیںاور
اُس پر عمل در آمد بھی کرایا جائے، اگر ہم سب نے اپنی سوچ نہیں بدلی اور
بھیڑ چال کی روش اپناتے ہوئے جدھر جو ہانکے ادھر چلتے جائیں گے تو کبھی اس
قوم کا بھلا نہیں ہوسکتا۔ بہت ہو چکا، بہت پیچھے پیچھے چل لیے، اب وقت آگیا
ہے کہ آپ (عوام) ہوش کے ناخن لیں اور اپنی قائدانہ صلاحیت کا استعمال کرتے
ہوئے ملک و ملت کی قیادت کا فریضہ شفاف افراد کے ہاتھوں میں سونپیں۔ اتنا
ہی نہیں وہ امیدوار جو آپ سے ووٹ مانگنے آئیں گے ان سے یہ سوال تو کم از کم
کر ہی سکتے ہیں کہ ساڑھے چار سال کے بعد آئیں ہیں اور پھر ووٹ کے لئے ہی
آئے ہیں، اور پھر سے سبز باغ دکھانے آئے ہیں۔ اس عرصے میں کہاں تھے جب
بنیادی ضرورتوں کے لئے عوام پریشان تھے۔ وقت آ گیا ہے کہ جاگیں، اپنی سوچ
بدلیں، بھیڑ چال کی روش چھوڑیں ۔ یاد رکھیں ! خدا بھی اس وقت تک کسی قوم کی
حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت بدلنے کے لیے کمر بستہ نہ ہو
جائیں۔ |