دو ہزار چودہ میں افغانستان سے
امریکی انخلا کی ڈیڈ لائن جیسے جیسے قریب آ رہی ہے افغان مسئلے کے حل کی
کوششوں میں تیزی دیکھی جا سکتی ہے بہت سے یورپی اتحادی ممالک نے افغانستان
میں ناصرف اپنی فوجوں کو کم کیا ہے بلکہ وہاں سے نکلنے کے بارے میں اپنا
اپنا ٹائم فریم بھی دے رہے ہیں جو کہ افغان مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کا
ہی نتیجہ ہے اس کے ساتھ ساتھ کہیں دوحہ مذاکرات تو کہیں پیرس میں رابطے ہو
رہے ہیں کہیں ترکی تو کہیں قطر اور سعودی عرب میں طالبان دفاتر کھولنے پر
مشورے ہو رہے ہیں تو کہیں پاکستان میں قید طالبان قیدیوں کو رہائی مل رہی
ہے تو کہیں گوانتاموجیل سے اہم طالبان کمانڈرزکو رہا کیا جا رہا ہے کہیں
امریکہ،یوری یونین اور اقوام متحدہ طالبان رہنماؤں پر سفری پابندی میں نرمی
کرتا نظر آرہا ہے تو کہیں پاکستان آرمی کے کمانڈرانچیف طالبان کے ساتھ
مذاکرات کی بات کرتے نظر آتے ہیں یہ سب کسی بڑی پیش رفت کے اشارے ہی محسوس
ہوتے ہیں جن کے مثبت اثرات اور امکانات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں بظاہر
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں فریقین مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں میدان
جنگ کی جانب دوبارہ لوٹنے سے قبل اپنی سی کوشش ضرور کرنا چاہتے ہیں کیونکہ
دونوں نے ہی اس جنگ میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے امریکہ نے مالی طور پر
اور جانی طور پر بہت بڑی قیمت ادا کی ہے جس کی وجہ سے اس کو معاشی طور پر
بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ہے جبکہ طالبان نے جانی طور پر خاصا نقصان
اٹھایا ہے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ مذاکرات پہلے راونڈ کے بعد
تعطل کا شکار ہو چکے ہیں لیکن پیرس میں افغان حکومت، طالبان اور شمالی
اتحاد کے درمیان ملاقات نتائج کے اعتبار سے تو نہیں لیکن آمنے سامنے بیٹھ
جانے کی ہی وجہ سے کافی اہم مانے جا رہے ہیں تاہم منتظمین کا کہنا تھا کہ
شرکا بحثیت افغان مدعو کیے گئے ہیں نہ کہ کسی تنظیم یا گروہ کے نمائندے
لڑائی کے جاری رہنے اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا
یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے امریکہ نے افغانستان اور پاکستان کو اعتماد میں
لیے بغیر جو دوحہ مذاکرات کا پہلا دور مارچ میں منعقد کیا تھا اس پر
افغانستان حکومت نے امریکہ سے احتجاج کیا تھا اور مزید رابطوں سے منع کر
دیا تھاطالبان ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد کہہ چکے ہیں کہ وہ پیرس تعطل کے شکار
اصل مذاکرات کی بحالی کے لیے نہیں جا رہے ہیں بلکہ ہمارے نمائندے ہمارے
موقف اور پالیسیوں کی وضاحت کے لیے شریک ہوں گے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی
بھی فریق اپنے موقف سے ہٹنے کو ابھی تیار نہیں لیکن منصوبہ بندیاں جاری ہیں
اس سلسلے میں سعودی عرب کا کردار بہت ہی اہم ہو گا جو کہ طالبان کے پوائینٹ
آف ویو سے اہم تصور کیا جاتا ہے سعودی عرب میں دفتر کھولنے کی ایک اور اہم
وجہ اس کا طالبان پر اثرورسوخ بھی ہے تاہم اسلام آباد میں سفارتی حلقے
بتاتے ہیں کہ سعودی عرب ایسی کسی پیش رفت سے قبل فریقین سے ضمانت چاہتا ہے
کہ وہ ماضی کی مجاہدین والی روش اختیار نہیں کریں گے انیس سو نوے کی دہائی
کے اوائل میں مجاہدین نے سعودی عرب میں پرامن رہنے کی قسمیں کھائی تھیں
لیکن بعد میں انہوں نے کابل کا جو حشر کیا اس کی مثال نہیں ملتی جس کی وجہ
سے سعودی حکومت بھی اب تک گو مگو کی کیفیت میں ہے حال ہی میں افغان حکومت
نے پانچ مراحل پر مشتمل ایک منصوبے کے اشارے دیے ہیں اس میں پہلی کامیابی
اسے پاکستان کی جانب سے افغانوں کی قیادت میں مذاکرات کی مکمل حمایت کی
صورت میں محسوس ہو رہی ہے جس کا اظہار پاکستان نے اعلیٰ سطح پر کیا ہے
طالبان قیدیوں کی حال ہی میں رہائی اور سیاسی و فوجی قیادت کی جانب سے
مذاکرات کی مکمل حمایت کے واضح اعلانات کو افغان مثبت پیش رفت قرار دے رہے
ہیں دوسری طرف اہم افغان حلقوں کا کہنا ہے کہ ہم اچھی تبدیلیوں کے لیے
پرامید ہیں ایک طرف باتیں تو طالبان کے قطر یا ترکی میں دفتر کھولنے کی ہو
رہی ہیں لیکن افغان حکام کی خواہش اور ترجیح یہ ہے کہ یہ دفتر سعودی عرب
میں کھولا جائے کابل میں قطر کا سفارت خانہ نہیں ہے لہٰذا وہاں دفتر کھولنے
میں قانونی پیچیدگیاں بھی آڑے آ سکتی ہیں اور یہ بھی سعودی عرب کو ترجیح
دینے کی ایک وجہ ہے اس تجویز پر غور اس سال فروری میں افغان صدر حامد کرزئی
کے دور اسلام آباد میں غور ہوا تھا دونوں ملکوں نے اس بابت سعودی عرب سے
بات کرنے پر اتفاق کیا تھاسعودی حکام نے تجویز پر ابتدائی ہوم ورک کے طور
پر بعض طالبان رہنماؤں دوسری افغان پارٹیوں کے اراکین سے تبادلہ خیال کے
لیے طلب بھی کیا تھاحالیہ ہونے والی پیش رفت کے بعد اس بات کا قوی امکان
پیدا ہو گیا ہے کہ بلاآخر افغانستان میں مکمل جنگ بندی اور طالبان کی افغان
انتخابات اور بالآخر حکومت میں شرکت بھی ہو سکتی ہے اس وقت کچھ لے اور کچھ
دے کی بنیاد پر شاید فریق اپنے موقف میں نرمی ظاہر کریں اس حوالے سے امریکہ
ان طاقتوں کو جو اسے افغانستان سے نکلنے میں مدد دے سکتی ہیں ہر ممکن تعاون
کر رہا ہے اور ان کے تمام مطالبات چاہے وہ جائز ہوں یا ناجائز ان کو مان
رہا ہے کیونکہ وہ جان چکا ہے کہ اب مذید یہاں ٹھرنا اپنے آپ کو تباہی سے
دوچار کرنے کے مترادف ہے اسی لیے صدر ابامہ نے تمام ذمہ داریاں افغان فوج
کے حوالے کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے-
لیکن اس عمل کو سب سے بڑا خطرہ ایسے عناصر سے ہے جو افغانستان میں امن کے
خواہاں نہیں ہیں اور خاص طور پر وہ طاقتیں جو افغانستان کو پاکستان کے خلاف
استعمال کرنے کا سوچ رہی تھیں وہ کھبی بھی نہیں چاہیں گی کہ افغانستان میں
لگنے والی آگ ٹھنڈی ہو سکے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو ان کا ایجنڈا نامکمل
رہ جائے گا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی طاقتوں سے ہوشیار رہا جائے
کیونکہ پر امن افغانستان ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے انتہائی اہم
ہے ۔ |