جب قریش حرب فجار سے واپس آئے تو
ایک واقعہ پیش آیا کہ عاص بن وائل سہمی نے شہر زبید سے آئے ہوئے ایک شخص کا
تجارتی سامان چھین لیا۔ اس پر متاثرہ شخص نے عبد الدار مخزوم و جمح وسہم
وعدی بن کعب سے مدد مانگی مگر ان سب نے مدد دینے سے انکار کردیا ۔ اس کے
بعد متاثرہ شخص نے جبل ابو قبیس پر چڑھ کر فریاد کی ۔ اس کی اس فریاد کو
قریش کعبہ میں سن رہے تھے۔ متاثرہ شخص کی فریاد سن کر حضور پر نور صلی اللہ
علیہ والہ وسلم کے چچا حضرت زبیر بن عبد المطلب نے بنو ہاشم زہرہ اور بنو
اسد بن عبدالعزے کو عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع کیا۔ ان سب نے وہاں آپس
میںعہد کیا کہ ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کیا کریںگے۔ اور مظالم واپس کردیا
کریں گے۔ یہ عہد کرنے کے بعدسب عاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے زبیدی کا
مال واپس کرایا۔ اس معاہدہ کو حلف الفضول کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے بھی
اسی طرح کا ایک او ر معاہدہ ہو چکا تھا۔ جس کی شرائط کچھ اس طرح تھیں کہ ہم
ایک دوسرے کی حق رسانی کیا کریں گے۔ طاقتور سے کمزور کا اور مقیم سے مسافر
کا حق لے کر دیا کریںگے۔ مذکورہ معاہدہ کرانے میں جنہوںنے مرکزی کردار ادا
کیا ان کے نام فضل بن حارث، فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ تھے۔ زبیر بن
عبدالمطلب کی سعی پر جو معاہدہ قریش کے درمیان ہوا اس میں سرکار دو جہاں
صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی شریک تھے۔ اعلان نبوت کے بعد سرکار مدینہ صلی
اللہ علیہ آلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدے کے بدلے میں مجھے سرخ
اونٹ بھی دیے جاتے تو میںاس کو نہ توڑتا۔ اب بھی اگر کوئی مظلوم یا حلف
الفضول کہہ کر پکارے تو میں اس کی مدد کرنے کو حاضر ہوں۔
جب رحمت دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس سال ہوئی تو
قریش نے کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا۔ قریش کے قبائل نے کعبہ کی دیواریں آپس
میں تقسیم کرلیں ۔ ہر قبیلہ نے اپنے حصہ کی دیوار تعمیر کی ۔ جب عمارت
حجراسود تک پہنچی تو حجر اسود کی تنصیب کیلئے قبائل قریش میں سخت جھگڑا
پیدا ہو گیا۔ اس کی تنصیب ایک ایسی سعادت تھی کہ ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ
سعادت اس کو ملے۔ اور وہ سب کسی بھی قیمت پر یہ سعادت چھوڑنے پر تیار نہیں
تھے۔اسی کشمکش میںچار دن گزرگئے۔ نوبت تلواروں تک پہنچ گئی ۔ بنو عبد الدار
بنو عدی بن کعب نے تو یہ سعادت حاصل کرنے کیلئے جان دینے کی قسم کھائی۔ اور
اس وقت کے دستور کے مطابق خون سے بھرے پیالے میں اپنی انگلیاں ڈبو کر چاٹ
لیں ۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ ہم یہ کام ہر صورت میں کریں گے۔ پانچویں
دن سب مسجد حرام میں جمع ہوئے تو ابو امیہ بن مغیرہ مخزومی نے کل صبح جو
شخص اس مسجد کے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو اس کو ثالث قرار دیا جائے۔
وہ عمر میں سب سے بڑے تھے۔ ان کی اس رائے سے سب نے اتفاق کرلیا۔ دوسرے روز
اسی دروازے سے سب سے پہلے داخل ہونے والے ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ
علیہ والہ وسلم تھے۔ دیکھتے ہی سب پکار اٹھے کہ یہ امین ہیں ہم ان پر راضی
ہیں۔ جب انہوں نے شاہ کون ومکاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معاملہ بتایا
تو محبوب کبریاءصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی چادر اپنی کملی مبارک
بچھائی اور اس میں حجر اسود کو رکھ دیا۔ پھر یوں فرمایا کہ ہر قبیلہ اپنا
اپنا نمائندہ چن لے۔ پھر وہی لوگ اس چادر کو پکڑ کر اٹھائیں۔ اسی طرح ہی
کیا گیا جب کملی مبارک مطلوبہ مقام تک پہنچ گئی تو سرکار دوجہاں صلی اللہ
علیہ والہ وسلم نے حجر اسود کو اپنے مبارک ہاتھوں سے اٹھا کر نصب فرمادیا۔
اس فیصلہ سے سب خوش ہوگئے۔
ہجرت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مکہ مکرمہ میں اپنا مال
ومتاع چھوڑ کر قرب رسول کی خاطر مدینہ منورہ آگئے تھے۔ ان کی رہائش کا
انتظام نہیں تھا ۔ امت کے غمخوار نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہاجرین
کی رہائش کیلئے مسجد نبوی کے قریب مکانات کا انتظام کیا۔ اس قطعہ میں جو
انصار کے مکان تھے وہ انصار نے شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو
ہبہ کر دیے تھے۔ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زمین کے ٹکڑے
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تقسیم فرمائے۔
مہاجر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے وطن، اہل وعیال اور بھائیوں اور
دیگر رشتہ داروں کو چھوڑ کر آئے تھے۔ ان کی اس کمی کو دور کرنے کیلئے رحمت
دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین کے درمیان بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا۔ تاکہ یہ اہل وعیال کی جدائی
محسوس نہ کریں۔ اور ایک کو دوسرے سے مدد ملے۔ حبیب خدا صلی اللہ علیہ والہ
وسلم ہر دو فریق میں سے ایک ایک کو بلاتے جاتے اور فرماتے جاتے۔ کہ یہ اور
تم بھائی بھائی ہو۔ سب بھائی بھائی بن گئے۔ ان انصار صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین نے اپنے مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کیلئے ایثار
وقربانی کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ اب بھی ان کو نافذ کرکے نفرت کا خاتمہ
کیا جا سکتاہے کہ کسی نے اپنا مال ومتاع دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک خود
رکھ لیا اور ایک اپنے بھائی کو دے دیا۔ کسی نے اپنے بھائی سے کہا کہ میری
دو بیویاں ہیں ان میں سے آپ جو پسند کریں میں اس کو طلاق دے دیتا ہوں آپ اس
سے نکاح کرلیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے باغات تقسیم کرنے کی
درخواست مسترد فرمائی تو انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین نے مہاجر
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا کہ تم باغ کو پانی وغیرہ دیا کر
و ہم تمہیں پھل میں شریک کریں گے۔
یہ تو سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ کے وہ پہلو جو
مشہور بھی ہیں اور ہمارے موضوع کے مطابق بھی ہیں۔ اسی میں ہم آپ کو یہ
بتائیں گے کہ سیرت مصطفی کی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی میں سیاستدان
اور لیڈر کیسا ہونا چاہیے۔ جیسا کہ آپ اس تحریر میں پڑھ آئے ہیں کہ سرکار
دوعالم ،نور مجسم ،شفیع معظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کمزور افراد کو
طاقتوروں سے مسافروں کو رہزنوں سے بچانے اور محفوظ کرنے کیلئے قبائل کے
درمیان کیے گئے معاہدے جو حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا میں شریک ہوئے۔
اور حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس معاہدہ میں شرکت کو بہت اہمیت
دیا کرتے تھے۔ اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ رحمت دوجہاں صلی
اللہ علیہ والہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھے سو سرخ اونٹ بھی دیے جاتے
اور مجھے اس معاہدہ میں شامل ہونے سے روکا جاتا تو میں سواونٹ مستر د
کردیتا اور معاہدہ میں ضرور شامل ہوتا۔ تاکہ حق دار کو اس کا حق مل سکے۔
کسی کی ایذا رسانی نہ ہو۔ کسی مسافر کو کوئی رہزن نہ لوٹ سکے۔ کسی بھی
کمزور انسان کو کوئی طاقتور اپنے ظلم کا شکار نہ بنائے۔ اس کے بعد قریش نے
مل کر کعبہ کو ازسرنو تعمیر کیا تو حجر اسود کی تنصیب کے وقت سب قریش کے
قبائل میں تنازع پیدا ہو گیا۔ حجر اسود کی تنصیب بہت بڑی سعادت تھی۔ جیسا
کہ آپ اس تحریر میں پڑھ آئے ہیں کہ قریش کا کوئی بھی قبیلہ کسی بھی قیمت پر
یہ سعادت چھوڑنے اور کسی دوسرے قبیلہ کو دینے پر تیار نہیں تھا۔ کچھ قبائل
نے تو ا س سعادت کے حصول کیلئے جان دینے تک کی بھی قسم کھائی۔ نوبت جنگ تک
پہنچ گئی قریب تھا کہ جنگ شرو ع ہوجاتی ۔ رحمت کل جہاں، شہنشاہ کون ومکاں
©صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس معاملہ کو حل کرنے کیلئے ایسا ناقابل فراموش
فیصلہ فرمایا کہ دنیا کا کوئی او رمنصف یا ثالث ایسا فیصلہ کرنا تو دور کی
بات ہے اس طرح سوچ بھی نہیں سکتا۔ کہ سب کو اس سعادت میں شامل کرلیا۔ حجر
اسود تنصیب کرنے کی سعادت تمام قبائل کے حصہ میں آئی کوئی بھی اس سے محروم
نہیں رہا۔ یوں قبائل کے درمیان متوقع جنگ چھڑنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ اس
کے بعد ہجرت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مکہ مکرمہ میں اپنے
گھر بار چھوڑ کر آئے تھے۔ اہل و عیال اور وطن کی جدائی کے صدمے جھیل کرآئے
تھے۔ آل اولاد مال ومتاع کی جدائی کے صدمہ کو وہی لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جو
اس کو برداشت کر چکے ہیں۔ حضور پرنورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہاجر
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم
اجمعین کے درمیان بھائی چارہ قائم کر دیا جس کو مواخات کہا جاتا ہے۔ تاکہ
مکہ مکرمہ سے آئے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے پیاروں کی
کمی اس طرح پوری کرلیں ۔ اس سے ہمیںیہ درس ملتا ہے کہ قوم کا رہنما اور
لیڈر وہ ہوتا ہے جو قوم کی مشکلات کا نہ صرف احساس کرتا ہے بلکہ ان مشکلات
کے ازالے کیلئے اقدامات بھی کرتا ہے۔ رحمت دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم
مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو یہاں کا پانی پینے کے قابل نہیں تھا ۔
شہر میں میٹھے پانی کا صرف ایک ہی کنواں تھا جو کہ ایک یہودی کی ملکیت تھا۔
اس کنویں سے یہودی تو پانی بھرتے تھے مگر مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں
تھی۔ ایک دن مسجد نبوی میں حضور پر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا
کون ہے جو اس یہودی سے کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردے۔ حضرت عثمان
رضی اللہ عنہ نے وہ کنواں آدھا خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔ اس کے
استعمال کی ترتیب کچھ یوں تھی۔ کہ ایک دن مسلمان پانی بھرتے اور ایک دن
یہودیوں کی باری ہوتی تھی ۔ جس دن مسلمانوں کی باری ہوتی اس دن یہودی بھی
پانی بھر لیتے اور جس دن یہودیوں کی باری ہوتی تھی اس دن صرف یہودی ہی پانی
بھرتے تھے۔ قیامت کا دن ہوگا۔ پیاس کی شدت بہت ہوگی۔ پانی کہیں بھی دستیاب
نہ ہوگا۔ صرف حوض کوثر ہوگا۔ جو شفیع روز محشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم
اپنے یداللہ والے مبارک ہاتھوں سے اپنے عاشقوں غلاموں امتیوں کو پلا رہے
ہوں گے۔ جو ایک پیالہ پی لے گا ۔ اس کو پچاس ہزار سال کے اس دن میں دوبارہ
پیاس نہیں لگے گی۔ سیرت مصطفی کے ان گوشوں سے ہمیں یہ جاننے میں آسانی ہو
جاتی ہے کہ قوم کا رہنما، لیڈر اور سیاستدان کیسا ہونا چاہیے۔ وہ ایسا ہونا
چاہیے کہ اس کو اپنی قوم کی مشکلات کا علم بھی ہو اور احساس بھی ہو۔ اور وہ
ان مشکلات کو حل کرنے کے فوری اقدامات بھی کرے۔ جیسا کہ سیرت مصطفی کے ان
روشن گوشوں سے ہمیں یہ آگاہی ہو رہی ہے کہ جب بھی صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کو کوئی مشکل پیش آئی یا قریش کے قبائل میں کوئی تنازع پیدا
ہوا تو رحمت دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بہت ہی دلنشین انداز میں
معاملہ حل کرادیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہر مشکل حل کر دی۔
سرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان روشن گوشوں سے ہمیں یہ درس ملتا
ہے کہ آج کے دور میں لیڈر، رہنمااور سیاستدان ایسا ہونا چاہیے جس کو قوم کی
مشکلات کا احساس ہو۔ یہ نہ ہو کہ قوم تو پانی کو ترس رہی ہو اور منزل واٹر
سے پیاس بجھا رہا ہو۔ قوم بیروزگاری اور گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے خود
سوزیاں کر رہی ہو اور وہ عیش کر رہاہو ۔قوم گرمی میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب
جھیل رہی ہو اور وہ ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں آرام کر رہا ہو۔ قوم کا رہنما ،
لیڈر اور سیاستدان تو ایسا ہونا چاہیے جو ملک میں آٹا ، چینی سمیت ضروریات
زندگی کی کوئی چیز نایاب ہو جائے تو اس کا فوری بند وبست کرے۔ ملک میں شرح
خواندگی کی کمی ہو تو تعلیم کے فروغ کے اقدامات کرے۔ ملک میں بد امنی پھیل
جائے تو ہر ممکن اقدام سے امن کی بحالی یقینی بنائے۔ ملک میں بجلی ، گیس کا
بحران ہوتواس کا فوری اہتمام کرے۔ ملک میںسیلاب آتے ہو تو ان کی روک تھام
کے منصوبوں پر عمل کرائے۔ ملک پر اندرونی بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے تو
وہ اپنے اور سرکاری اخراجات کم کرے۔ خود سادہ زندگی گزارے اور قوم کیلئے
معیاری زندگی کا اہتمام کرے۔ وہ کیسا قوم کارہنما ہے ۔ ہمارے سیاستدان قومی
رہنما اور لیڈر سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس طرح کے گوشوں کا
مطالعہ کرکے قوم کی درست رہنمائی کریں۔اس وقت ملک میں عام انتخابات کی
تیاریاں عروج پر ہیں۔ سیاستدان عوامی رابطہ مہم کے سلسلہ میں سیاسی جلسے
کررہے ہیں۔ لوگوں سے مل رہے ہیں۔ ووٹ مانگنے کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستان میں
اسلام کے نام پر تو باربار عوام سے ووٹ بٹورے گئے ہیں۔ تاہم اس ملک میں
اسلامی نظام لانے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے
مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے پر پابندی لگا دی ہے۔ مذہب اور سیاست کو الگ
نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہم
سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ اسی طرح سیاست
میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں رہنمائی
موجود ہے۔ کامیاب سیاست دان بننے کیلئے سیرت محمدی کے سیاسی پہلوﺅں کا
مطالعہ ضروری ہے۔ سیاست یہ نہیں کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے۔ قومی اور
صوبائی اسمبلیوں کا ممبر بنا جائے۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ میں شامل ہو
اجائے۔ سیاست تو یہ ہے کہ عوام کے مسائل حل کیے جائیں۔ عوام کی مشکلات میں
کمی کی جائے۔ سیاست کرنے اور ریاست کے امور کو چلانے کے سلسلہ میں خلافت
راشدہ کے دور میں بھی بہترین سے بہترین رہنمائی پائی جاتی ہے۔ کہ چاروں
خلفاءراشدہ نے کس طرح ریاست مدینہ کے امور کو چلایا اور قومی خزانہ کو کس
طرح استعمال کیا۔ ان نفوس قدسیہ نے سرکاری خزانے سے کیا کیا مراعات حاصل
کیں۔ وہ عوام کے مسائل سے کس طرح آگاہی رکھتے اور پھر از خود حل کرنے کے
فوری اقدامات بھی فرمایا کرتے تھے۔ اب چونکہ الیکشن مہم جاری ہے اس لیے ہم
نے ضروری سمجھا کہ اس موضوع پر بھی لکھا جائے۔ کیونکہ ہمارے اکثر قارئین کو
انتظا ر ہوتا ہے کہ ہم اس طر ح کے آرٹیکل کب لکھیں گے۔ |