نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

ملت اسلامیہ نے حضرت علامہ محمد اقبال اقبال رحمة اللہ علیہ کو حکیم الامت کا خطاب دیا۔ دراصل انہیں یہ خطاب اللہ نے دیا اور بندوں کی زبان پر جاری کردیا۔ بے شک آپ مفکر اسلام ہیں ۔ آپ نے انیسویں صدی کے آخرمیں امت کو لاحق عوارض کی تشخیص شروع کی تو آپ نے اسکے دل دماغ سے لے کر جسم کے تمام اعضاءکو مہلک بیماریوں میں مبتلا پایا۔ آپ نے امت کے ماضی کی روشنی میں حال کو دیکھا تو ماضی کی دھندلی تصویر بھی نظر نہ آئی۔ ماضی کی جھلکیوں نے دل میں درد پیدا کیا، بے حد دلگیر بھی ہوئے مگر کہہ اٹھے، نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ۔ ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ پھر آپ نے نشتر لیافاسد مواد نکالنے کو تو مرہم لی زخموں کو مندمل کرنے کو، توانائی کے لیئے طاقتور معجون تیار کیئے ۔ یہ سب کچھ آپ نے رب مصطفے ﷺ کے الہامات سے سرانجام دیا۔ کام تو انبیاءکا تھا مگر باب نبوت بندہوچکا۔ اللہ نے جتنے نبی روز ازل کو مقرر فرمائے تھے وہ آئے اور نوع انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے گئے۔ تاجدار ختم نبوت ﷺ کی تشریف آوری کے بعد اصلاح کا کام آپ ﷺ کی امت کے منتخب افراد کے سپرد ہے۔حضرت علامہ نے دیکھا کہ برصغیر میں خانقاہی نظام بڑا مستحکم ہے جس کے بنیادی مقاصد دین اسلام کی ترویج و ترقی اور تبلیغ ہے۔ آپ نے اس موئثر عضو کو مضمحل پایا کہ یہ صرف دم درود اور نذرانوں تک محدود ہے۔ عباﺅں اور قباﺅں میں ملبوس امت مسلمہ کی بدحالی سے بے خبر صوفی ازم کا ڈھونگ رچائے خانقاہوں میں براجماں ہیں تو انہیں مخاطب فرمایا۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری ۔ کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری۔ اقبال نے اذان دی تو ہر طرف سے امت نے لبیک کہی۔ مسلمان غیر مسلموں کے ہاتھوں زچ ہوچکے تھے، معاشی طور پر انہیں مفلوج کردیاگیا تھا، انکے نظریات پر ضربیں لگائی جارہی تھیں، مسلم نظامت تعلیمات کی جگہ صلیبی نظامت تعلیم ٹھونس دیا گیا تھااس صورت حال میں حضرت قائد اعظم نے کہا کہ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا۔ فرنگی کے مقابلے پر چند ایک روحانی پیشوا سینہ سپرہوئے ،جہاد کیا مگر خانقاہوں کے دیگر پیشواﺅں کے ساتھ نہ دینے کی وجہ سے وہ فرنگی کو شکست تو نہ دے سکے مگر اپنے اعلیٰ مقاصد میں کامیاب ضرور ہوئے اور ملت کو بیدار کرگئے۔ ان میں صرف ایک نام سر فہرست ہے حضرت پیر سید صبغت اللہ راشدی رحمة اللہ علیہ شہید نے فرنگی کے خلاف جہاد کیا تو صرف انکے مریدین حروں نے اسلاف کاا سوہ جہاد تازہ کردیا۔ فرنگی نے انہیں پھانسی دے کر شہید کیا۔ یہ موقع تھا کہ تمام سجادہ نشین انکا ساتھ دیتے تو آج دارالحکومت دہلی ہوتا۔ قائد اعظم بے لوث اور مخلص رہنما تھے۔ ضعیفی اور بیماری میں انہیں اگر کوئی تمنا تھی تو مسلمانوں کی آزادی اور خوشحالی کی تھی۔ انکے خلوص کو دیکھ کر برصغیر کے طول و عرض سے سجادہ نشینوں اور علمائے کرام نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ کیونکہ وہ برملاکہہ رہے تھے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کا قانون نافذ ہوگا۔ یہ صورت حال قارئین جانتے ہیں ۔ لیکن اب دیکھیں کہ زرداری حکومت نے عوام کا راشن پانی بند کردیا، بجلی بند ، گیس بند اگر کھلا ہے تو سوئٹزر لینڈ کا بنک یا پی پی پی کے برسر اقتدار افراد کی تجوریوں کے ڈھکن کھلے ہیں۔ جب کوئی انکے خلاف بولا تو اسے جمہوریت دشمن قرار دیا۔ انکی جمہوریت آج بھی عوام کا خون چوس رہی ہے۔ کرسی اقتدار کی جاں بخشی تو ہوئی مگر قوم کی گاڑیاں ، قوم کے خزانے سے تنخواہ پانے والے ہزاروں ملازمین انکی حفاظت پر مامور ہیں ، میں چیف جسٹس آف پاکستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے کہوں گا کہ کیا یہی جمہوریت ہے کہ چور ڈاکو اقتدار میں آکر اپنے تحفظ اور قومی خزانے کو دائمی لوٹ مار کی قانون سازی کریں؟ حضرت علامہ کے بقول یہ لوگ ابلیس ہیں ۔ جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست ۔ باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک ۔

یہ لوگ ابلیس کا حق بھی مارگئے ۔جناب قرآن و سنت کے مطابق قوم کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ کیا یہ ہمارے جیسے انسان نہیں؟ انہیں اپنی جان کا خطرہ صرف اس لیئے ہے کہ یہ ظالم ہیں۔ انکی حفاظت پر مامور ایک ایک سپاہی واپس بلایا جائے۔ انہوں نے مراعات کے قوانین بنائے چونکہ وہ آئین پاکستان کے منافی ہیں انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔ میں چاہتا کہ ایسے سیاہ کردار کے مالک لوگوں کے حلقہ ارادت میں پاکستان کے عظیم روحانی پیشواﺅں کے کچھ گدی نشین اور علماشامل ہوئے ہیں۔مجھے حیرت ہوئی کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا انہیں بھی خیال آگیا۔ پی پی پی میں شمولیت کرنے والے بڑے بزرگوں سے نسبت رکھنے والوں نے زرداری کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ یقینا وہ اس کا انکار کریں گے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جناب کیا مریدوں کے نذرانے اور درباروں کی دیگر آمدن ناکافی ہے جو آپ بھی زرداری سیرت لوٹ مار کے پیروہورہے ہیں۔ پی پی پی کی حکومت نے عوام کو مالی طور پر مفلوج کردیا، لوگ ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہوئے آپکے درباروں سے پیٹ بھرتے ہیں لیکن انکی قوت نذرانہ تو جواب دے گئی۔ کئی اور اصحاب نے دیگر جماعتوں کا سہارا لیا ہے۔ آپ اگر دین اسلام اور اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اپنا قبلہ درست کریں۔ آپ حضرات کو زیب نہیں دیتا کہ محترمہ فریال تالپور کے چرنوں میں بیٹھیں اور ایم این اے یا سینیٹ کی سیٹوں کے ٹکٹوں کے حصول کے لیئے اپنی خودداری اور روحانی درس گاہ کے تقدس کو پامال کریں ۔ تمہارے بزرگوں نے فقیری میں نام پیدا کیا۔ خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ کے فیض سے تمہاری خانقاہیں روشن ہیں جنہوں نے شہاب الدین غوری کو ہندوستان کی ولائت عطا فرمائی اور آج آپ کو اپنے کردار پر غور کرنا ہوگا۔ پاکستان کو پاکستان بنانے کے لیئے آپ لوگوں کے کردار کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیئے آپ کو کسی چور ڈاکو کے سہارے کی ضرورت نہیں بلکہ آپکے اتحاد اور اپنی شناخت قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکے لیئے جمیعت علماءپاکستان کے پلیٹ فار م پر1970 میں حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمة اللہ علیہ کی سیادت میں علماءومشائخ متحد تھے تو دوسری طرف پی پی پی بھی بڑے جوبن پر تھی۔ مگر مشائخ نے اپنی شناخت قائم رکھی۔ جس کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔

Prof Akbar Hashmi
About the Author: Prof Akbar Hashmi Read More Articles by Prof Akbar Hashmi: 2 Articles with 2540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.