ایک خبر کے مطابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ فی الحال
پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں۔ حکومتی ناکامی پر پاکستانی ایٹمی اثاثے
ہمارے پاس ہونگے، امریکہ
امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں ہلیری کلنٹن نے کہا کہ امریکا کو یقین ہے کہ
ابھی پاکستان کے ایٹمی اثاثے باحفاظت ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں طالبان
کی بڑھتی ہوئی قوت کے باعث یہ غیر محفوظ ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستانی حکومت اور فوج سے اس حوالے سے اپنی
تشویش کا اظہار کردیا ہے ۔ اگر حکومت طالبان کی پیش قدمی روکنے اور انھیں
شکست دینے میں ناکام ہوگئی تو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی چابی ان کے پاس
ہوگی۔
کان صاف کر کے اور آنکھیں کھول کر دیکھ اور سن لو کہ کیا ہونے جارہا ہے ۔
اب بات سمجھ میں آئی بھولے بادشاہوں کو کہ نام نہاد شریعت، نام نہاد عدلیہ
کی آزادی، نام نہاد میڈیا کی آزادی اور نام نہاد سول سوسائٹی، این جی اوز
اور انکی تسلی کے بعد ان این جی اوز کے زریعے پاکستانی اداروں کو امداد یا
بھیک یا قرض جو آپکے ضمیر، ذہن، دل و دماغ اور غیرت کے ترازو میں فٹ ہوجائے۔
پہلے پرویز مشرف کو مار مار کر کتا بنا دیا سمجھ رہے تھے کہ پاکستان میں
جمہوریت جیت گئی۔ پھر ایک فرد جو کہ حقیقی معنوں میں اکثریت کی رائے میں
(عدلیہ میں ثابت نا ہوسکا ) گناہ گار اور مسٹر ٹین پرسنٹ تھا اس کو ملک کا
صدر مملکت بنا بیٹھ کر سمجھ رہے تھے کہ ملک میں جمہوریت آگئی۔
پھر ایک ایسے چیف جسٹس کے پیچھے پورے پاکستان کو لگا دیا جو کہ اپنے اوپر
لگائے ہوئے ایک بھی الزام کا دفاع نہیں کر سکا یا نہیں کرنا چاہا جو سمجھ
لیں اس کو چیف جسٹس بنا بیٹھے اور سمجھے کہ اب سوموٹو ایکشن لے لے کر وہ
کرپٹ اور بدمعاش اور ناہنجار ٹائپ کے لوگوں کو ٹھکانے لگا دے گا وہ بیٹھا
ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی کی عدلیہ، پارلیمنٹ،
اسمبلیوں ، جمہوریت اور آئین کو ناصرف غیر شرعی قرار دیا جا چکا ہے بلکہ
حرام بھی کہا جا رہا ہے مگر توبہ کیجیے جو کسی کو شرم آرہی ہو اپنی اپنی
کرسیوں سے چپٹے بیٹھے ہیں اور صبح عدالتوں اور دفتروں میں آتے اور شام ڈھلے
چلے جاتے ہیں مجال ہے جو کسی کو شرم آئی ہو کہ کسی کی مجال کیسے ہوئی آئین
کے مطابق عمل کرتے اداروں کو غیر شرعی اور حرام قرار دے دے مگر بھائی جب
طاقت اور حقیقی طاقت دوسرے کے پاس نظر آتی ہے تو غیرت کا تقاضہ یہی ہوتا ہے
کہ خاموش ہو جایا جائے۔
اچھا ملک میں عدلیہ بحال ہو گئی لیکن بہت سے لوگوں کو یہ کہانی اور قصہ
لگتا ہے وہ کہتے ہیں کہ بس ہم تو عدلیہ ایسے ہی آزاد چاہتے تھے جیسی ہو گئی
ہے چلیں جی راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔
ملک میں مسنگ پرسن مسنگ ہی ہیں کوئی بات نہیں عدلیہ تو بحال ہے نا۔ ڈاکٹر
عبدالقدیر صاحب پہلے بھی نظر بند تھے تو پہلے کیونکہ آمریت کے دور میں نظر
بند تھے اسلیے نامنظور تھا اب کیونکہ جمہوریت کے دور میں نظر بند ہیں اسلیے
کوئی بات نہیں جی نظر بند ہی رکھیں۔
اور اب امریکی بیان زرا آنکھیں کھول کر اور اپنی آنکھوں سے تعصب اور لسانیت
اور غرض کے پردے ہٹا کر پڑھ لیں جو جتنا غیرت مند ہو گا اس کو اتنی ہی
تکلیف زیادہ ہو گی اور رہ گئے کچھ لوگ وہ اس میں بھی یوں اور ووں، کیونکہ
اور چنانچہ، اگر مگر، اسلیے وسلیے ، حالانکہ، اگرچہ ٹائپ کی چیزیں ہی
استعمال کرتے رہ جائیں گے۔
اب سمجھ میں آیا نام نہاد شریعت لانے کے دعوے دار طالبان کو لانے کا کیا
مقصد ہے، یہ کہ دکھا دیں کہ پاکستان ایک ایسا غیر ذمہ دار ملک ہے کہ اپنے
دارالحکومت اور اپنے شہروں پر ہی اس کی کوئی حکومت عمل داری جسے رٹ کہتے
ہیں نہیں چلتی اسلیے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو پاکستان کی مدد کے لیے
بھیجا گیا ہے اور کون آئے گا آپکی حمایت اور مدد کے لیے جو افغانستان،
عراق، مشرقی تیمور، فلسطین میں غرض جہاں جہاں مسلمانوں (نام کی حد تک ہی
سہی) پر تاریخ کا بدترین حشر نشر کر دیا گیا اور مختلف جھوٹے الزامات لگا
کر جن کو ثابت کرنے کے لیے نا کسی نے زور دیا اور نا کسی نے ضرورت محسوس کی
اور پھر بعد میں کہ دیا گیا کہ غلطی ہو گئی تھی، تو کون آیا مدد کو کسی تو
چھوڑے دنیا میں کتنے اسلامی ممالک ہیں جن میں سے کئی تو بڑے طاقتور (مالی
لحاظ سے بس اس سے زیادہ ان کی کوئی اوقات نہیں ہے مغربی دنیا کی نظر میں)
اور بڑے بڑے مشہور و معروف ہیں مگر ان کو اپنی فکر ہے وہ آپکی اور ہماری
مدد کے لیے کیونکر آئیں گے۔
اور جس طرح کا ملان بنایا گیا اور جاہل اجڈ لوگوں کو شریعت کے محافظ اور
شریعت کے نافذ کرنے والے بنا کر پیش کیا گیا ان کی دنیا بھر میں تشہیر کر
دی گئی اور پھر ان پر حملے کے بہانے امریکہ اور اس کے اتحادی (پاکستانی بھی
اتحادی ہے ہو سکتا ہے اندرونی طور پر حملوں میں مدد دیتا رہے) جب حملہ کریں
گے تو کوئی رونے والے اور احتجاج کرنے والا نہیں مل سکے گا۔
اور آپ کیا سمجھتے ہیں یہ حکومت کچھ کر سکے گی۔ پہلے سالوں بعد جا کر کوئی
غیر ملکی امداد یا قرض ملنے کی خبر ملتی تھی اور اب تو کوئی ہفتہ نہیں جاتا
جب کوئی نئی امداد یا خیرات ملنے کی بات نا ہوتی ہو تو ہمارے حکمرانوں کا
منہ تو اتنا بھر دیا گیا ہے کہ ان کے منہ سے بولنے کے لیے کچھ نکلے گا ہی
نہیں اور جو عوام ہیں انکی پہلے کب کسی نے سنی ہے جو اب سنے گا اور پھر تو
شائد امریکہ بھی ہمارے سیاسی لیڈران کی طرح کہے گا کہ ملک کے سولہ کروڑ
عوام میرے ساتھ ہیں۔
اے اللہ ہمیں شعور عطا فرما کہ ہمیں عقل آجائے ملک کتنے خطرناک دوراہے پر
کھڑا ہے جسکا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا کیا اس کا نام ہے جمہوریت اگر اس کا
نام ہی جمہوریت ہے تو بے کار ہے جمہوریت اور نہیں مانتے ہم ایسی جمہوریت کو
کم از کم میں تو نہیں مانتا ایسی جمہوریت کو اور ایسے حکمرانوں کو اور ایسے
سیاستدانوں کو جو بے حس بنے بیٹھے ہیں اور اپنی اپنی حکومت بنانے کے چکر
میں لگے پڑے ہیں۔
اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرما |