انتخابات کا دور دورہ ہے،چارسو انتخابات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ سیاسی
پہلوان میدان مارنے کے لیے سیاسی اکھاڑے میں اتر رہے ہےں۔ہر سیاستدان اپنے
آپ کو ملک و قوم کا سب سے بڑا خیر خواہ اور مدمقابل کو ملک کی تباہی و
بربادی کا سبب ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے، مختلف قسم کے نعروں سے عوام کو
بہکانے و پھسلانے کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ سب کا محور اقتدار اور
مفادات کا حصول ہے۔کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ عرب
ادیب مصطفیٰ لطفی منفلوطی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے: ”سیاست دان اور جلاد
میں کوئی فرق نہیں، جلاد تو چند افراد کو قتل کرتا ہے مگر سیاستدان ساری
قوم کی جانوں کا سودا کرتا ہے، جو جتنا بڑا جھوٹا وہ اتنا بڑا سیاستدان۔ جس
سیاستدان کی تاریخ کا ایک ایک صفحہ معصوموں کی لاشوں اور ایک ایک لفظ بے
گناہوں کے خون سے لکھا ہو وہ سب سے کامیاب ہے۔“ ہر آنے والا سیاستدان ایک
نیا تماشا سجاتا ہے اور اپنی پٹاری سے کچھ نہ کچھ نکال کر عوام کو بے وقوف
بناتا ہے۔ بے چارے سادہ لوح عوام ان کی شعبدہ بازی سے متاثر بھی ہوجاتے ہیں۔
سیاست کے نام پر ہر دغا رواہے۔
ہر سیاسی جماعت انتخابات میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے لیے اتحاد
اور سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کررہی ہے۔ سیاسی مذہبی جماعتیں بھی
انتخابات میں کامیابی کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔مذہبی سیاسی جماعتوں میں
اہل سنت والجماعت ، جمعیت اہل حدیث، جماعت اہل حدیث، جمعیت علماءاسلام (
نظریاتی) اور جمعیت علماءپاکستان (سواداعظم) ، جمعیت علماءاسلام،جمعیت
علماءپاکستان، جماعت اسلامی ،سنی تحریک اور دوسری کئی مذہبی جماعتیں اپنے
طور پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کی اتنی کثیر
تعداد کے انتخابات میں حصہ لینے کے باوجود انہیںکوئی کامیابی ہوتی نظر نہیں
آرہی۔کیونکہ دینی جماعتوں کا آپس میں دوری اختیار کرنا ان کے ووٹ بینک کو
تقسیم کر کے شکست سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ملک بھر کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور
مذہبی شخصیات کو پارلیمنٹ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے مسلم لیگ (ن)، پیپلز
پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، اے این پی اور مسلم لیگ(ق) سمیت تمام
سیاسی پارٹیوں کو مذہبی جماعتوں سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے سے روکنے
کے بیرونی ایجنڈے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس بیرونی سازش کا مقصد 2013ءکے عام
انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی پارلیمنٹ سے آئین پاکستان میں موجود
اسلامی شقوں کا خاتمہ ہے، ان اسلامی شقوں میں قانون تحفظ ناموس رسالت 295-C
اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائے عوامی جمہوری پاکستان کی ترامیم بھی
شامل ہیں۔ کاغذات نامزدگی کے وقت آئین کی شق نمبر باسٹھ، تریسٹھ کو بے
ڈھنگے طریقے سے لاگو کرنا اور اس پر بے حد شور مچانا درحقیقت آئین کی ان
شقوں کو نکالنے کے لیے راہ ہموار کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ انتخابات میں
الیکشن کمیشن کی جانب سے اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دینا اور
اس پر سزا مقرر کرنا بھی انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو نقصان پہنچانے کی
سازش ہے۔ بیرونی قوتوں کے اشاروں پر پاکستان کی حکومتیں کئی بار پاکستان کے
آئین میں موجود اسلامی قوانین کو ختم کرنے،تعلیمی نصاب سے اسلامی مواد کو
خارج کرنے،گستاخ رسول کی سزا ختم کرنے اور دوسرے کئی اسلامی قوانیں کو ختم
کرنے کی کوشش کر چکی ہےں لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں ناکام رہی ہیں۔
بیرونی قوتیں کسی طور پر مذہبی جماعتوں کی اکثریت کو اسمبلیوں میں پسند
نہیں کر سکتیں۔گزشتہ دنوں وکی لیکس نے بھی اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ
امریکا و برطانیہ سمیت تمام عالمی قوتوں کو 2002ءمیں متحدہ مجلس عمل کی بڑی
سطح پر ہونے والی کامیابی کسی طور پر گوارہ نہیں تھی،وہ ہمیشہ انہیں کھٹکتی
رہی ہے۔اسلامی قوانین کے تحفظ کے لیے مذہبی جماعتوں کا آواز اٹھانا ان کے
لیے دینی غیرت کا مسئلہ بھی ہوتا ہے اور ان کی مجبوری بھی ہوتی ہے،کیونکہ
انہیںعوام سے ووٹ لینے کے لیے اسلامی قوانیں کا دفاع کرنا ضروری ہے۔
دینی جماعتوں بھرپور تگ و دو کے باوجود کسی سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ
ہونا اسی ایجنڈے کی ایک کڑی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پہلے جے یو
آئی (ف) کو اپنے ساتھ لگایا اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی پیچھے ہو گئے اور
بقول مولانا فضل الرحمن کے اس بات کی سمجھ انہیں آئی کہ (ن) لیگ اور جے یو
آئی کے درمیان انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ کھٹائی میں کیوں
پڑ گیا؟ اصل وجہ یہ تھی کہ نون لیگ کو بھی تمام جماعتوں کی طرح بیرونی دباﺅ
ہے جس وجہ سے اس نے مذہبی جماعتوں کے ساتھ اتحاد نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کے
ساتھ جماعت اسلامی کے ہونے والے مذاکرات ناکام ہوئے، حالانکہ اکتوبر2011 ء
کے بعد سے ہی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں انتخابات کے تناظر میں
باہمی رابطے شروع ہوگئے تھے۔ سید منورحسن دوبار عمران خان کی طرف گئے ہیں،
تو ایک بار عمران خان بھی منصورہ میں حاضری دے چ ±کے ہیں۔ لیاقت بلوچ اور
جاوید ہاشمی میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ گویا یہ توقع بے جا نہیں تھی
کہ جماعت ِاسلامی اور تحریک ِ انصاف میں معاملات طے پاجائیں گے۔ لیکن بقول
امیر جماعت اسلامی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں کسی نے جماعت اسلامی سے
اتحاد کرنے سے روک دیا ہے۔خود ہی سوچیں بیرونی قوتوں کے علاوہ کس نے روکا
ہوگا۔ جماعت اسلامی نے (ن) لیگ سے بھی رابطہ کیا، معاملات آگے بڑھے لیکن
(ن) لیگ کی طرف سے بھی جماعت اسلامی کو جواب مل گیا۔ سنی تحریک بھی مسلم
لیگ (ن) کے پیچھے پیچھے تھی لیکن جامعہ نعیمیہ کی سفارشیں بھی سنی تحریک کے
کام نہ آئیں۔ (ن) لیگ نے اس سے قبل شیخ وقاص کے بہانے اہلسنت والجماعت سے
بھی جان چھڑائی۔ اسی طرح دوسری کئی چھوٹی دینی سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی
اور ن لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کی لیکن وہ کوشش بارآور ثابت نہ ہوسکی۔
جماعت اسلامی نے آخر کار اکیلے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا۔دوسری دینی
سیاسی جماعتیں بھی جماعت اسلامی کی طرح بغیر اتحاد کے انتخابات میں حصہ لے
رہی ہیں۔مذہبی جماعتوں کے انتخابی اتحاد نہ ہونے کے بارے میں بھی کئی بار
امیر جماعت اسلامی سید منور حسن اور دوسرے کئی رہنماءفرما چکے ہیں کہ مذہبی
جماعتوں کے اتحاد میں بیرونی قوتیں رکاوٹ ہیں۔
ان حالات میں اگر مذہبی سیاسی جماعتیں کوئی قابل ذکر انتخابی نتائج حاصل
کرنا چاہتی ہیں تواس کا بہتر طریقہ صرف مذیبی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ کسی ایک
اتحاد میں اکٹھا نہ ہونے کے باوجود سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا بھی مفید
ہوسکتا ہے۔ اس طریقے سے بھی مذہبی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
لیکن اب تو ایک ہی حلقے سے جمعیت علماءاسلام،جماعت اسلامی ، متحدہ دینی
محاذ اور بھی کئی دوسری مذہبی سیاسی جماعتوں کے امیدوارایک دوسرے کے
مدمقابل کھڑے ہیں،اس سے یقینامذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا،اور
انہیں شکست ہوجائے گی۔صوبہ خیبر پختونخوا میں مذہبی جماعتوں کا بہت بڑا ووٹ
بینک ہے لیکن وہاں تقریباً تمام حلقوں میں جمعیت علماءاسلام اور جماعت
اسلامی مدمقابل ہیں،جس سے دونوں مذہبی جماعتوں کی شکست کے زیادہ امکان ہیں۔
اس کا مکمل فائدہ سیکولر اور بیرونی قوتوں کے اشاروں پر عمل کرنے والی
جماعتوں کو ہوگا۔مذہبی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ کسی بھی مذہبی جماعت کو
سیٹ نہ ملنے سے بہتر ہے کہ کسی ایک مذہبی جماعت کوسیٹ مل جائے،کسی بھی حلقے
میں دینی ذہن رکھنے والے حضرات کی پہلی ترجیح کسی مذہبی جماعت کے نمائندے
کو ووٹ دینا ہوتی ہے،اگر کوئی ایک مذہبی نمائندہ ہو تو سب اسی کو ووٹ دیتے
ہیں اورجب ایک ہی حلقے سے متعدد مذہبی جماعتوں کے نمائندے کھڑے ہوں گے تو
اس حلقے سے ووٹ تقسیم ہوکر شکست یقینی ہے۔ 70 کے انتخابات سے قبل عام تاثر
یہ تھاکہ جماعت اسلامی انتخابات میں متاثر کن کارکردگی پیش کرے گی۔تاہم عام
انتخابات سے تھوڑ ا قبل ہی اچانک مولانا نورانی کی قیادت میں جمعیت
علماءپاکستان، جماعت اسلامی کے مقابلے پر ایک موثر قوت کے طور پر سامنے آئی
اور جماعت اسلامی کے خلاف 42نشستوں پراپنے امیدوار کھڑے کر کے ووٹ تقسیم
کردیے اس کا سارا فائدہ پیپلزپارٹی اور مخالف امیدواروں کو ہوا۔عام
انتخابات 2002ءمیں دینی جماعتیں اتحاد کی وجہ سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر
ابھر کر سامنے آئیں۔ مرکز سمیت چاروں صوبوں میں ان کے امیدواروں کی ایک بڑی
تعداد اسمبلیوں میں پہنچنے میں کامیاب رہی۔ دینی جماعتوں نے مرکز میں اڑسٹھ
نشستیں حاصل کیں۔ لیکن 2008ءکے انتخابات میں تعداد کم ہوکر صرف چھ رہ گئی۔
جمعیت علماءاسلام، جماعت اسلامی، متحدہ دینی محاذ، جے یو پی اور چند دیگر
مذہبی جماعتیںاگر دینی ووٹوں کی تقسیم روکنے کے لیے آپس میں مقابلہ بازی سے
گرےز کریں تو زیادہ نہیں تو کم ازکم مجلس عمل جیسی کامیابی تو انہیں حاصل
ہونے کا امکان ہے۔اب مجلس عمل جیسا اتحاد بننا تو ممکن نہیں رہا لیکن سیٹ
ایڈجسٹمنٹ تو کی جاسکتی تھی۔ ماضی میں مذہبی جماعتیں کئی حلقوں سے محض ووٹ
تقسیم ہونے کی وجہ سے ہی کامیاب نہیں ہوسکی تھیں،بلکہ کئی حلقوں سے تو
مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک تقسیم ہونے کی وجہ سے صرف مذہبی امیدوار چند سو
یا چند ہزار ووٹوں کی وجہ سے ہارے۔ بدقسمتی سے دینی جماعتیں سیکولر اور غیر
مذہبی جماعتوں سے تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کرتی رہی ہیںلیکن آپس میں کسی
مفاہمت پر تیار نہیں، اگر یہ روش رہی تو اس کا خمیازہ کسی ایک نہیں سب دینی
جماعتوں کو ناکامی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔عوام کی اکثریت صالح قیادت کی
خوہش مند ہے جس کے لیے وہ ایک عرصے سے علماءکرام اور مذہبی جماعتوں کے
اتحاد کی خواہش مند ہے۔متعدد بار مذہبی رہنماءبھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم
مذہبی ووٹ تقسیم نہیں ہونے دیں گے لیکن ابھی تک کوئی مضبوط لائحہ عمل سامنے
نہیں آیا جس سے کامیابی کی کوئی امید کی جاسکے۔ مذہبی جماعتوں کو سوچنا
ہوگا کہ وہ کس طرح مذہبی اور نظریاتی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچا کر مغرب
نواز اور سیکولر قوتوں کو شکست دے سکتی ہیں۔ |