’’ووٹ کے استعمال سے قبل منصفانہ سوچ کا استعمال‘‘
(Danial Shahab , Muzaffarabad Azad Jammu & Kashmir)
تبدیلی، تبدیلی اور تبدیلی گزشتہ دو برسوں
سے ہر کسی کی زبان سے یہی الفاظ سننے کو مل رہے ہیں۔ تبدیلی آرہی ہے،
تبدیلی آنے کو ہے اور کبھی یہ کہ تبدیلی آ چکی ہے۔ ہم کس تبدیلی کی بات کر
رہے ہیں؟ کیا ہم صرف ایک ووٹ دینے کو تبدیلی سمجھتے ہیں؟کیا یہ ممکن ہے کہ
11مئی 2013ء کو ہم ایک ووٹ دیں گے اور 12مئی کو ہماری قوم مکمل طور پر
تبدیل ہوجا ئے گی؟ تبدیلی کی باتیں تو ہم سبھی کر رہے ہیں اور ابھی تک ہم
اس تذبذب کا شکار بھی ہیں کہ کو ن سے تبدیلی آ رہی ہے۔ میں بہت غور کے بعد
اس نتیجے پر پہنچا کہ کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ ہمارے جو نوجوان تبدیلی کا
محرک بن رہے ہیں وہ اصل تبدیلی سے کوسوں دور ہیں، تبدیلی صرف نوجوانوں سے
نہیں بلکہ پورے معاشرے کے بدلنے سے ممکن ہو گی۔
ملک و قوم کے اندر حقیقی تبدیلی لانے کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا
پڑتا ہے۔ بلا تفریق جنس و عمر سب سے پہلے تبدیلی ہمیں اپنے 6فٹ کے بدن میں
لانا ہو گی۔ جھوٹ ہم بولیں اور تبدیلی آ رہی ہے۔ اپنے دوست کی پیٹھ پیچھے
برائیاں ہم کریں اور تبدیلی آ رہی ہے۔ اپنے مفاد کے حصول کی خاطر اپنے
ساتھی کی کمرپر چھرا ہم گھونپیں اور تبدیلی آ رہی ہے۔ رشوت ہم بڑی ڈھٹائی
سے وصول کریں اور تبدیلی آ رہی ہے۔ کام چوری ہم دکھائیں اور تبدیل آ رہی
ہے۔کسی مظلوم کا حق ہم دیدہ دلیری سے چھین لیں اور تبدیلی آ رہی ہے، انصاف
کے حصول کے لیے غریب دربدر کی ٹھوکریں کھائیں اور تبدیلی آ رہی ہے، تعلیم
حاصل کرنے کے باوجود جانوروں سے بدتر حالت ہماری ہو اور تبدیلی آ رہی ہے،
برادشت کا مادہ ہمارے اندر موجود ہی نہیں اور تبدیلی آ رہی ہے، میرٹ کا قتل
عام ہو رہا ہے ہم آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے ہیں اور تبدیلی آ رہی ہے ،
بزرگوں، والدین ،اساتذہ کرام کا احترام ہم نہ کریں اور تبدیلی آ رہی ہے،
اپنے ارد گرد کے ماحول کو ہم خود آلودہ کر رہے ہیں اور تبدیلی آ رہی ہے۔
اپنے مذہب اسلامی تعلیمات کو اپنے اوپر بوجھ محسوس کریں اور تبدیلی آ رہی
ہے، وطن عزیز پاکستان کے قیام کا مقصد، دو قومی نظریے ، نظریہ پاکستان اور
تحریک آزادی کشمیر کو ہم فراموش کر یں اور تبدیلی آ رہی ہے، اس قسم کی
لاکھوں مثالیں اور دی جا سکتیں ہیں۔
ان تمام قباحتوں کی موجودگی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی
اخلاقی، سماجی، سیاسی، مذہبی اقدار کو تہ تیغ نہیں کر چکے؟ کیا یہ سب
برائیاں اور ان سے بڑھ کر ہزاروں برائیاں اور بیماریاں جو ہمارے وجود میں
رچ بس چکی ہیں کیا ان کی موجودگی میں ہم صرف ایک ووٹ سے تبدیلی لانا چاہتے
ہیں اور پھر ووٹ جن کو دینا ہے وہ بھی تو اسی کرپٹ نظام اور معاشرے کا ہی
حصہ ہیں جس کا ذکر میں کر چکا ہوں۔ یاد رکھیئے تبدیلی صرف اسی صورت میں آئے
گی جب ہماری نیتیں صاف اور ہمیں اپنی منزل کا علم ہو گا۔ جب معاشرہ ہمیں
نہیں بلکہ ہم معاشرے کی بنیاد رکھیں گے۔ جب ہمارے خیالات پاک، ہمارے رویے
سنجیدہ، ہمارے جذبات میں خلوص، کام چوری و دیگر برائیوں سے نفرت اور ہر
برائی کو برائی کہنے کی ہمت، جب دوسروں کی جیب اور ا ن پر انحصار کرنے کے
بجائے اپنے اندر کے انسان کو بیدار کر کے اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا لوہا
منوانے کا ہنر پیدا نہ ہو گا۔ قانون و انصاف سب کے لیے سستااور برابری کی
سطح پر، قرآن و سنت کو سپریم لا ء، اپنے پاک وطن پاکستان سے محبت اور
معاشرے کو ہر قسم کی تفریق سے پاک کریں گے تو حقیقی معنوں میں تبدیلی
رونماء ہو گی ورنہ صرف ایک ووٹ دینے کو تبدیلی سمجھنا اور خود اپنے اندر
تمام خرابیوں کی یوں ہی پرورش کرتے رہنا تبدیلی کا معیار نہیں ہے۔ تبدیلی
لانے اور تبدیل ہونے میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔ جس دن ہم تبدیل ہو گئے
تبدیلی خود بخود آ جائے گی ورنہ محض تبدیلی کا راگ الاپنے اور صرف الفاظ کی
حد تک جنگ لڑنے کا ملک و قوم کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو گا۔ فیصلہ
خود کیجیئے، ووٹ کا استعمال ضرور کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ایک منصفانہ سوچ کے
ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے بعد۔۔۔۔!! |
|