بوسٹن دھماکے کےدو دن بعدامریکی صدر براک اوبامہ نے واشنگٹن میں اس دھماکے کے بجائے
امریکی سینیٹ میں اسلحے کی روک تھام کے قانون کی نامنظوری کونہایت شرمناک قراردیا
حالانکہ ذرائع ابلاغ میں چہار جانب صرف اور بوسٹن کے چرچے تھے ۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس
لئے کہ پچھلی دو دہائیوں میں پہلی مرتبہ امریکہ میں اسلحہ کی روک تھام اور پابندی
کے لیے سرکاری سطح پر اتنا کام کیا گیا تھا۔ امریکہ میں اسلحے کی روک تھام کے بارے
میں کیے گئے عوامی جائزے بتاتے ہیں کہ ۹۰ فیصد لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے
باوجود قانون سازی ایوان میں عوام کے نمائندوں نے اس قانون کو نامنظور کرکے ظاہر
کردیا کہ مغربی جمہوریت میں رائے عامہ کی برتری کاجو بلند بانگ دعویٰ کیا جاتا ہے
اس کی حقیقت کیا ہے ۔
امریکی ایوانِ اقتدار یعنی کانگریس میں اس قانون کی مخالفت جہاں۹۰ فیصد حزب اختلاف
نے تو کی وہیں۱۰ فیصد حزبِ اقتدار کے ارکان نےبھی اس کے خلاف ووٹ دے کر اپنے رائے
دہندگان کوذلیل اور صدر کو رسوا کردیا ۔ یہ لوگ اس قانون کی مخالفت انتخابی مہم میں
اسلحہ سازوں کی جانب سے ملنے والی خطیررشوت جسے اعانت کانام دیا جاتا ہے کے سبب
کررہے تھے ۔ اس طرح کروڈوں ووٹ کے اوپر لاکھوں ڈالر کی رشوت غالب آگئی۔ امریکہ کے
اندر اسلحہ کی روک تھام کے قانون کی مثال ہندوستان کے لوک پال بل کی سی ہے کہ تمام
تر حمایت اور لفاظی کے باوجود یہ قانون پاس ہوکر نہیں دیتا ۔امریکی سرزمین پر جب
بھی گولی باری کا کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا ہے اس طرح کا قانون وضع کرنے پر
بحث و مباحثہ شروع ہوجاتا ہے ۔ عوامی جلسوں میں ۔ ٹی وی کے پردے پربڑی بڑی باتیں کی
جاتی ہیں اخبارات کے کالم سیاہ کئے جاتے ہیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ۔بالآخراسلحہ
کے تاجر عوامی نمائندوں کو خرید لیتے ہیں اور سب ٹائیں ٹائیں فش ہوکررہ جاتا ہے۔
اس بار بحث کی ابتداءگذشتہ برس دسمبر میں ریاست کنیٹی کٹ کے نیوٹاؤن اسکول میں
فائرنگ کے واقعہ سے ہوئی جس میں۲۶ افراد کو ہلاک کردیا گیا تھا اور اسی کے ساتھ
اسلحہ کی روک تھام کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی سنجیدہ کوشوٹں کا آغاز ہوگیا۔ اس
سفاکی کے مجرم ۲۰ سالہ آدم لانزہ نے سب سے پہلے اپنی ۵۲ سالہ ماں نینسی لانزہ کے
سر میں چار گولیاں داغ کر اسے قتل کیا ۔ اسی نینسی نے اپنے جگر گوشے کو بندوق چلانا
سکھایا تھا ۔نینسی لانزہ گزشتہ چار سالوں سے مطلقہ کے طور پر زندگی گزاررہی تھیں ۔
اپےا سابق شوہر سے انہیں ۲ لاکھ ڈالر سالانہ خرچ کیلئے ملتے ہیں ۔نینسی کا بڑا بیٹا
ریان لانزہ بھی اپنےباپ کی طرح بینک میں ملازمت کرتا ہے ۔ ریان کا دوسالوں سےاپنی
ماں اور بھائی سے رابطہ منقطع ہے ۔ آدم اپنے ماموں سے جو اسی شہر میں رہتے ہیں
گزشتہ آٹھ سالوں میں ایک بار بھی نہیں ملا ۔ آدم بیروزگار تھا، اسے اپنے گھر
اوراسکول سے ناراضگی تھی اس کا بدلہ اس نے اس طرح لیا کہ اپنی ماں کا بہیمانہ قتل
کرنے کے بعد گھر میں رکھی چاروں بندوقیں لے کر اسکول گیا وہاں ۶ سے ۷ سال کی عمروں
کی ۱۲ بچیوں، ۸ بچوں اور ۶ اساتذہ کو گولیوں کا نشانہ بنانے کے بعد خودکشی کرلی۔ اس
وقت ریاست کنیٹی کٹ کےڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے کہا تھا ’’اگر ہم نے اس بارے میں
کچھ نہ کیا تو یہ دوبارہ بھی ہوگا۔‘‘
امریکی صدر براک اوبامہ نے جن کےچار سالہ دور صدارت میں یہ چوتھا بڑا واقعہ تھا
نیوٹاؤن کے اجتماعی عبادت کی تقریب میں بذاتِ خود شرکت کی تھی اور نہایت جذباتی
انداز میں پرنم آنکھوں کے ساتھ اعلان کیا تھا حالیہ دنوں میں ایک قوم کی حیثیت سے
ہم نے اس طرح کے کئی اندوہناک حادثات کو جھیل چکے ہیں ۔ اس صورتحال کو بدلنے کی
خاطر انہوں نے اسلحہ کے قانون میں بامعنیٰ تبدیلی لانے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن
امریکی حکمراں طبقہ اس سنگین مسئلہ پربھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ۔اوبامہ جیسے لوگ
اسلحہ پر پابندی لگانا چاہتے ہیں لیکن اسلحہ ساز سرمایہ داروں کے اشاروں پر کھیلنے
والے مائیک لی جیسےرہنماؤں کی دلیل یہ ہے کہ امریکی آئین شہریوں کو اپنے دفاع کے
لیے اسلحہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس بنیادی حق پر کوئی بھی قدغن یا پابندی ہمیں
اپنی حفاظت کے لیے صرف حکومت کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ حکومت ہر وقت اور ہر
جگہ نہیں ہو سکتی۔ لہذا عام شہریوں کواس حق سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔
یہ عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ ایک طرف تو امریکہ بہادر ساری دنیا کے لوگوں کو تحفظ
فراہم کرنے کے نام پر فوج کشی تک کرگزرتا ہے اور دوسری جانب امریکی پارلیمان کا ایک
رکن یہ اعتراف کرتا پھرتاہے کہ ان کی حکومت خود اپنی سرزمین پر بھی عوام کی حفاظت
نہیں کرنے کی اہلیت اپنے اندر نہیں رکھتی ۔ سینیٹر کرس مرفی کےپاس مائیک لی جیسے
لوگوں دلیل کا جواب ہے‘‘ آزادی یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی پسند کا اسلحہ رکھیں۔ آزادی
یہ بھی ہے کہ آپ کو پتہ ہو کہ آپ کہیں بھی اور کسی کے بھی تشدد کا نشانہ نہیں بنیں
گے۔ ذرا سوچئے، کنیٹی کٹ اسکول کے ان بچوں کا کیا قصور تھا کہ انہیں ایک جنونی نے
آکر گولیوں سے بھون ڈالا؟’’ یہ منطق اسکول کے معصوم بچوں کی طرح ان تمام مظلومین پر
صادق آتی ہے جو دنیا بھر میں امریکی مظالم سے دوچارہیں ۔ جنہیں کہیں بھی کسی وقت
اچانک بغیر کسی اطلاع کے بزدلانہ ڈرون حملوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔لیکن ذرائع ابلاغ
میں اسے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نام پر جائز قرار دے دیا جاتا ہے ۔ اس دور
کی یہ عجب ستم ظریفی ہے ایک طرف جہاں غریبوں کی جنگ دہشت گردی کہلاتی ہے وہیں دوسری
جانب امیروں کی دہشت گردی کو مقدس صلیبی جنگ کہا جاتا ہے ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسلحہ پر پابندی کا قانون اور بوسٹن دھماکے کے درمیان بھلا
کیا تعلق؟ سچ تو یہ بوسٹن دھماکے سے متعلق وہ کیسے ہوا ؟ اسے کس نے کیا؟اس بابت تو
ذرائع ابلاغ میں بہت کچھ آیا لیکن وہ کیوں کیا گیا؟ اس کے پسِ پشت کون سے عوامل
کارفرماہیں؟اور اس سے کس کا کیا فائدہ ہوا ؟ اس بابت بہت کم لکھا گیا۔دراصل یہ
دھماکہ اس قانون کی نامنظوری کے صرف دو دن قبل رونما ہوا اور ذرائع ابلاغ پر اس طرح
چھا گیا کہ اسلحہ کی پابندی پر ہونے والی ساری بحث پس منظر میں چلی گئی۔ عوام کے
نمائندوں کی اپنے رائے دہندگان کے ساتھ کی جانے والی دھوکہ دہی پر پردہ پڑ گیا۔
اسلحہ کے بازار میں ہونے والی عوامی رہنماؤں کی نیلامی کی جانب کسی توجہ ہی نہیں
گئی ۔ سارے لوگ بوسٹن کی جانب متوجہ کرکے واشنگٹن میں اسلحہ کے بیوپاریوں نے اپنے
وارے نیارے کر لیے۔ یہ اسی طرح کا معاملہ جیسے ممبئی میں تاج حملے کی آڑ میں ہیمنت
کرکرے اور ان کے ساتھیوں کا بڑی صفائی سےکانٹا نکال دیا گیا اورعوام کو اس بہیمیت
کا احساس تک نہ ہوسکا۔
صدر اوبامہ کو اپنی اس ذلت آمیز ناکامی کے بعدمخالفین کی بابت اعتراف کرنا پڑا کہ
وہ لوگ (اسلحہ فروش) زیادہ منظم ہیں۔ان کے پاس دولت کی ریل پیل ہے ۔ وہ اس کی خاطر
طویل عرصہ سےمصروفِ کار ہیں اور انتخابات کے دوران بھی وہ اس کی جانب پوری طرح
متوجہ رہے ہیں(مراد ایسے نمائندوں کو اپنی دولت کے بل بوتے پر کامیاب کیا جو ان کی
حمایت کریں)۔اوبامہ نے کہا یہی وجہ ہے کہ آپ اُس کام کو بھی عوامی نمائندوں کی مدد
سے نہیں کرسکتے جو ملک کی عظیم اکثریت چاہتی ہے۔ صدر اوبامہ نے اپنے بیان میں لوگوں
کو آگاہ کیا کہ اے امریکہ کے لوگو ! واشنگٹن کو بدلنے کی خاطر تمہیں اس بابت صبرو
استقامت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور جب موقع آئے صحیح لوگوں کو منتخب کرکے واشنگٹن
میں بھیجنا ہوگا ۔اس کیلئے قوت اور ثابت قدمی درکار ہے ۔ اس طرح گویا اوبامہ نے
اپنی ذاتی اور قومی شکست کیلئے بلاواسطہ طور پر عوام ہی کوموردِ الزام ٹھہرا دیا کہ
یہ سب اس لئے ہوا کہ انہوں نے غلط لوگوں کا انتخاب کرکے ایوان حکومت میں
بھیجاہے۔یہی جمہوریت کا کمال ہے کہ کرتا کوئی اور ہے اور بھرتا کوئی اور ہے ۔
شکست خوردہ اوبامہ نےاعلان کیا میں مایوس ہوں مگر مفتوح نہیں ہوں ۔یہ کوشش ابھی ختم
نہیں ہوئی ہے ۔میں امریکی عوام کے سامنے یہ واضح کرتا چلوں کہ ہم اب بھی بندوق کی
دہشت کے بارے میں معقول تبدیلیاں لاسکتے ہیں بشرطیکہ عوام اس جدجہد کو چھوڑ نہ
بیٹھیں۔اول تو زیادہ تر نمائندے اس کی کوئی معقول وجہ نہیں بتا سکے کہ آخر ہم مجرم
پیشہ لوگوں اور ذہنی مریضوں تک بندوق کی رسائی کو کیوں مشکل نہ بنائیں ۔پھراس کے
بعد معروضیت پرسیاست غالب آگئی انہیں فکر لاحق ہو گئی کہ بندوق برداروں کی مضبوط
اقلیت آئندہ انتخاب میں ان کیلئے مشکلات کھڑی کردے گی۔جمہوری نظام حکومت میں عوامی
فلاح و بہبود پر سیاسی مفادپرستی کو کیسے غلبہ حاصل ہوجاتا ہے اس کا بہتریناعتراف
اوبامہ کی اس تقریر میں موجود ہے۔
اوبامہ اور ان کے نائب بیڈن جس وقت اس قانون کو منظور کرانے میں اپنی ساری توانائی
صرف کررہے تھے سنیٹر رانڈ پال نے کہہ دیا کہ قصر ابیض اپنی مرضی چلانے کیلئے نیو
ٹاؤن کے مظلومین کو ڈھال کے طور استعمال کررہا ہے۔اس تبصرے پر اوبامہ چراغ پا
ہوگئے اور کہا میں نے سنا ہے لوگ کہتے ہیں مہلوکین کے اہل خانہ کو قانون سازی میں
مددگار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے کوئی کہتا ہے ان کے ذریعہ جذباتی بلیک میل
کیا جارہا ہے ۔ کیا یہ لوگ واقعی سنجیدہ ہیں؟ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہزاروں
خاندان جن کی زندگی بندوق کے تشدد کی نذر ہوگئی اس معاملے میں بالکل بے وزن ہیں۔ اس
مسئلہ پر جبکہ عوام اقدام چاہتے ہیں ہم کانگریس کو ٹال مٹول کی اجازت نہیں دیں گے ۔
ہم اگلے نیو ٹاؤن کا انتظار نہیں کرسکتے ۔ اوبامہ نے اپنی گفتگو اختتام اس عزم کے
اظہار کے ساتھ کیا کہ ہم یہ کرکے رہیں گے ۔جلد یا بدیر ہم اس مقصد حاصل کریں گے ۔
یہ خاتمہ نہیں التواء ہے ۔ لیکن اوبامہ کے اس عبرت انگیز انجام کو دیکھ کر مستقبل
میں کوئی صدر اس کی جرأت کرے گا اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔
اوبامہ نے بوسٹن کے دھماکے پر اس قدر پریشان کن اورتفصیلی بیان نہیں دیا جتنا کہ
اسلحہ کے قانون کی نامنظوری پر دیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے بندوق کے ذریعہ ہلاک ہونے
والے معصوم لوگوں کی تعداد بوسٹن جیسے دھماکوں کے مہلوکین سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر جن
لوگوں نے بوسٹن کا دھماکہ کروایا وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ عوام کو یہ تاثر دینے میں
کامیاب ہوگئے کہ امریکی قوم کو لاحق سب سے بڑا خطرہ بوسٹن جیسے بم دھماکے سے ہے ۔
اصل مسئلہ اسلحہ پر پابندی نہیں بلکہ دہشت گردی کی نام نہاد جنگ ہے اور اس غلط فہمی
کو پھیلانے والی لابی بے حد طاقتور ہے ۔ امریکہ کے اندر اسلحہ کی صنعت سے متعلق
اعدادو شمار چونکا دینے والے ہیں ۔
امریکی اسلحہ سازی کی صنعت ۳۲۰ کروڈ ڈالر پر محیط ہےیعنی نائیجیریا جیسے ملک کے
سالانہ بجٹ سے زیادہ۔ تمام تر اقتصادی بحران کے باوجوداس میں ۲۰۰۸ سے لے کر اب تک
چارسالوں ڈیڑھ گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ امریکہ میں بندوقوں کی ۵۱۰۰۰ ہزار
دوکانیں ہیں یعنی یہ سمجھ لیں کہ اسٹار بکس یا مک ڈونالڈ جیسے و معروف دوکانوں سے
چار گنا زیادہ ۔ بندوق بنانے والی سب سے بڑے ادارے سٹرن رگراینڈ کمپنی کے حصص میں
پچھلے پانچ سالوں کے اندر پانچ گنا اضافہ ہوا ہے ۔اسمتھ ویسن نامی کمپنی کے شیرس
گزشتہ ایک سال کے اندر ۷۵ فیصد مہنگے ہوئے ہیں ۔۲۰۱۰ کے اندر امریکہ میں ۵۵ لاکھ
بندوقیں بنائی گئیں اور ۲۶ ہزار نئےافراد کو اس صنعت نے ذریعہ معاش فراہم کیا۔
دنیا کے سب امن پسند سمجھے جانے والے امریکیوں کا یہ حال ہے کہ ان کے پاس کل ۳۰
کروڈ بندوقیں ہیں جودنیا بھر کےشہریوں کے پاس موجود بندوقوں کا نصف یعنی۵۰ فیصد ہے
ان میں سے ۱۰ فیصد بندوق بردار خواتین ہیں۔۵۰ میں سے ۴۲ ریاستوں میں اسلحہ کی خریدو
فروخت پر کوئی ضابطہ بندی نہیں ہے۔۴۰ فیصد لوگوں کی بندوق خریداری سے قبل کوئی جانچ
پڑتال نہیں ہوتی۔ گذشتہ ایک سال کے اندر آسٹریلیا میں۳۵ اور اسپین میں ۶۰ افراد
بندوق کی گولی سے مارے گئے جبکہ امریکہ میں یہ تعداد ۹۴۸۴ ہے ۔جی ہاں ۱۱ ستمبر کے
حادثے سے ساڑھے تین گنا زیادہ اس کے باوجود ۱۱ ستمبر کے نام پر ساری دنیا میں خاک
اور خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے مگر جب بندوقوں کے ذریعہ ہونے والی ہلاکتوں پر قدغن
لگانے کی کوشش کی جاتی ہے تو انہیں ناکام بنادیا جاتا ہے اور بوسٹن جیسے دھماکے
کرکے عوام کو توجہات کو دوسری جانب مرکوز کردیا جاتا ہے ۔ یہی وہ جمہوری تماشہ ہے
جس کے متعلق حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا ؎
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی |