سیاسی حالات اور پاکستان کا مستقبل
(Imran Changezi, Karachi)
انتخابات کاانعقاد ‘ شفافیت ‘
تحفظات ‘ خدشات ‘ خطرات‘ سیاسی حالات اور پاکستان کا مستقبل
پاکستان آج کل جس قسم کے وقت ‘ حالات ‘رویوں ‘ تجربات ‘ سیاسیات اور بیانات
سے گزررہا ہے اس میں 11مئی کے بعد کی تصویر و تصور کسی بھی طور واضح نہیں
ہورہے کہ 11مئی کا سورج اپنے طلوع میں روشنی ‘تابناکی و حرارت لیکر آئے گا
یا پھر جھلسادینے والی تپش کے ساتھ طلوع ہو کر قوم کی امنگوں کو جلاکر راکھ
کردے گا ۔
حالات کے تناظر میں یہ بھی واضح نہیں ہوپارہا کہ انتخابات کے رو ز عوامی
ردعمل کیا ہوگا ؟
عوام انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیں گے اور اس بار پہلے کی نسبت نمائندگی
کی شرح بڑھ جائے گی یا پھر نظام سے بیزار عوام پر موجودہ حالات کے اثرات اس
طور منتج ہوں گے کہ انتخابی عمل ان کی توجہ کے حصول سے ہی محروم رہے گا اور
پولنگ سینٹرزویرانوں میں موجود ”فیول اسٹیشن “ جیسا منظر پیش کرتے دکھائی
دیں گے ۔
اس بات کے خدشات اور خطرات میں بھی کسی طور کمی نہیں آئی ہے کہ.... انتخابی
عمل پایہ تکمیل تک پہنچ ہی نہیں پائے گا ؟
اس خدشے کو تقویت اس اَمر سے بھی مل رہی ہے کہ کراچی سمیت پورا ہی ملک
بدترین بد امنی سے دوچار ہے ‘ پولیس او ر قانون نافذ کرنے والے ادارے جو
عوام کو تحفظ کی فراہمی میں طویل عرصہ سے ناکام ہیں اب سیاسی و حکومتی
شخصیات اور انتخابی امیدواروں کو بھی تحفظ دینے میں ناکام دکھائی دے رہے
ہیں۔ بلوچستان میں لبرل بلوچ قیادت ‘ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی
کی لبرل قیادت اور کراچی میں جاگیرداروں کیخلاف جدوجہد کرنے والے لبرل حلقے
دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں ۔ہر سمت بم دھماکوں و ٹارگیٹ کلنگ کا راج ہے ۔
روایتی سیاسی و مذہبی جماعتوں اوران کے قوم پرست اتحادیوں سمیت صرف ایک
انقلابی جماعت ہی پاکستان میں انتخابی مہم چلانے میں کامیاب و آزاد دکھائی
دے رہی ہیں جبکہ دیگر چھوٹی و بڑی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم دہشت گردی
کے باعث غیر اعلانیہ پابندی کا شکار دکھائی دے رہی ہے حالانکہ ملک کی عدلیہ
غیر جانبداری کے حوالے سے مشہور ہے ‘ الیکشن کمیشن پر تمام جماعتیں اعتماد
کا اظہار کرتی رہی ہیں اور نگراں حکومت بھی الیکشن کمیشن کی ہی منتخب کردہ
ہے مگر اس کے باجود سیاسی جماعتوں کے ساتھ امتیازی سلوک انتخابات کے انعقاد
اور شفافیت دونوں ہی کے حوالے سے خطرات کا پتا دے رہا ہے ۔
لگتا تو یوں ہے کہ امن و امان کے بگڑتی ہوئی صورتحال ابتری کے اس مقام تک
پہنچ جائے گی جہاں انتخابات کے التوا کو ہی ملکی استحکام کا ضامن جانتے
ہوئے فوج کو مداخلت کی آئینی دعوت دی جائے اور نگراں حکومت کا دورانیہ طویل
کرکے فوج کو نگراں حکومت کی معاونت کی قانونی پیش کش کردی جائے یا پھر امن
و امان کی دگرگوں صورتحال اور سیاسی مساوات کے بناؤ انتخابات کرانے کی جبری
کوشش کے ذریعے قرعہ فال کسی پسندیدہ جماعت و قیادت کے نام نکال کر عوا م کو
آمرانہ جمہوریت کا تحفہ دیکر کسی ایک خاندان کے افراد کا غلام بنانے کی
کوشش کی گئی تو اس تحفے کی عمر طویل ثابت نہیں ہوگی اور 6ماہ بعد ہی سہی
مگر فوج آئینی و قانونی دعوت کے بغیر اپنے کردارکی ادائیگی پر مجبور ہوگی ۔
دوسری جانب پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ میں موجود مفاد پرست عناصر
کے دکھائے گئے سبز باغ کو فی الوقت پاکستا ن واپس نہ آنے کے خاکسارکے مشورے
پر فوقیت دیکر جو حماقت کی وہ آج اس کی پاداش میںا پنے ہی گھر میں قیدی کی
سی زندگی گزاررہے ہیں۔سیاست کے.... بادشاہ گر ....موروثی سیاست میں رخنہ
اندازی ‘عوام و پاکستان کو منافقوں و مفاد پرستوں سے نجات دلانے کی کوشش
اور وقومی وسائل لوٹنے کی بجائے قومی معیشت کی بحالی و ملکی ترقی میں
استعمال کرنے کی روایت قائم کرنے کے جرم کی سزا دینے کیلئے پرویز مشرف کو
دیگر جرائم میں ملوث کرکے اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں۔
پرویز مشرف کے ساتھ وہی کچھ ہورہا ہے جس کی پیشنگوئی راقم اپنے سابقہ کالم
میں مشرف کو وطن واپس نہ آنے کا مشورہ دینے کے ساتھ کرچکاہے ۔
مگر” ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو انقلاب کا سبب بنتا ہے “۔
اس مقولے کو فراموش کرنا کسی بھی طور دانشمندی نہیں کہلائی جاسکتی کیونکہ
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی شہرت ‘ عدلیہ کی آزادی ‘ وکلاءکے اتحاد و جرات
اور نواز شریف وبینظیر بھٹو کی وطن واپسی کی وجہ مشرف کا وہی ”ظالمانہ“
فیصلہ ہے جس کی وجہ سے پرویز مشرف کے گرد شکنجہ کسا جارہا ہے اگر پرویز
مشرف چیف جسٹس برطرفی اور ججوں کی نظر بندی کا فیصلہ نہیں کرتے تو آج بھی
عدلیہ کے موجودہ جج برطرف شدہ ججوں کی ہی طرح پرویز مشرف کے اسی پہلے پی سی
او کے تحت اٹھائے گئے حلف کے مطابق ہی کام کررہے ہوتے جسے اٹھانے کے بعد
عدلیہ نے پرویز مشرف کے نواز شریف حکومت کی رخصتی کے غیر آئینی اقدام کا
تحفظ کیا تھا مگر مشرف کے عدلیہ سے مہم جوئی کے فیصلے یعنی ”ظلم “ نے سول
سوسائٹی کو متحد و یکجا کرکے آزادوغیر جانبدار عدلیہ کے قیا م کی بنیاد
رکھی جسے افتخار چوہدری کی شخصیت ‘ عزم ‘ و حوصلے اور سیاسی و مذہبی
جماعتوں‘ وکلاء‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کے تعاون نے کامیاب بنایا جسے آمریت
کیخلاف انقلاب کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا ۔
اب پاکستان مین آئین و قانون کے نام پر مشرف کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک روا
رکھا جارہا ہے وہ اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر اسی
انقلاب کی راہ پر گامزن دکھائی دے رہا ہے کیونکہ مشرف کو سیاست سے روکنے کی
سازش ‘ اس کے خلاف انتقامی کاروائی اورآئین و قانون سے ماورا رویوں کے
ذریعے اسے لٹکادینے کی کوشش عوام میں مشرف کی مقبولیت کو جلا بخش رہی ہے۔
اگر مشرف نے اس وقت دانشمندی سے کام لیتے ہوئے نواز شریف جیسی پالیسی
اپنالی ۔ ”ڈیل “ کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہوکر اپنی جان بچالی تو انہیں آل
پاکستان مسلم لیگ کو ازسرنو منظم کرنے کا موقع مل جائے گاجبکہ مشکل حالات
نے یقینا ان کے سامنے آل پاکستان مسلم لیگ کے ان تمام مفاد پرست رہنماؤں و
عہدیداروں کو بے نقاب کردیا ہوگا جو مشرف کے پیسے پر اپنا سیاسی قد بڑھاتے
اور مشرف کو جھوٹ کے جال میں پھنساکر پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کا انتظام
کرتے رہے ہیں اسلئے وقت کے اس تجربہ سے فائد ہ اٹھاکر پرویز مشرف ان
منافقوں سے آل پاکستان مسلم لیگ کو پاک و صاف کرکے نظریاتی و محب وطن سیاسی
شخصیات کی شمولیت کے زریعے ”آل پاکستان مسلم لیگ“ کو منظم سیاسی جماعت کی
صورت دے سکتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں اس منظم سیاسی جماعت کو انتخابات
میں اتارکر ایوان اقتدار تک بھی پہنچ سکتے ہیں مگر اس کیلئے انہیں ”مشرفی
“اور” جرنیلی “مزاج کا چولا اتار کر سیاسی اور” نوازی“ و ” شریفی “چولا
پہننا ہوگا ۔
اگر مشرف اس چولے کو پہننے میں رضامند اور نوازشریف جیسی دانشمندی اپنا کر
جان بچانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ان کا عوام پاکستان پر بھی بہت بڑا احسان
ہوگا کیونکہ ان کے اس عمل کے بعد انتخابی عمل کو سبوتاژ کرکے فوج کی شمولیت
سے تین سال کیلئے قومی حکومت کی تشکیل کے ذریعے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں
حصہ لینے کیلئے دوسالہ آئینی شرط کی تکمیل کیلئے مہلت حاصل کرکے آئندہ
انتخابات میں اپنی سیاسی جماعت بناکراحسانمندوں کی مدد سے اقتدار کے مزے
لوٹنے کیلئے ”بیتاب“کی خواہش کی تکمیل بھی نہیں ہوسکے گی ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات کا مستقبل شفافیت پر منتج ہوتا ہے
یا روایتی سے بھی زیادہ بدتر انتخابات کو شفاف قرار دینے اور پسندیدہ افراد
و جماعتوں کو اقتدار میں لانے کی روایت آمریت سے زیادہ بدتر جمہوریت عوام
پر مسلط کرتی ہے؟
انتخابات ہوں گے یا انتخابات کے نام پر عوام کی قربانی دینے کے بعد
انتخابات کے فیصلے سے دستبرداری اختیار کرلی جائے گی ؟
انتخابات نہ ہونے کی صورت قوم کو فوجی اقتدار کے سورج کی روشنی میں اپنی
سمت تلاش کرنی ہوگی یا نگراں حکومت کی طوالت قوم کے مقدر میں آئے گی ؟
پرویز مشرف روایتی سیاستدانوں اور ان کے ساتھیوں کے انتقام کا نشانہ بن کر
لٹکتے نظر آئیں گے یا” نوازی“ چولہ پہن کر ڈیل کے ذریعے باہر نکلنے میں
کامیاب ہوجائیں گے ؟
سب سے بڑھ کر آنے والے وقت میں امن و امان ‘ تجارت و کاروبار ‘ معیشت
ومعاشرت اور سماجی و باہمی رویوں کی صورتحال کیا ہوگی عصبیت و تعصب کا ناگ
زیادہ توانا ہوکر انسانوں کے شکا رمیں تیزی لائے گا یا مشکل حالات اور
جمہوریت کو لاحق خطرات سیاسی جماعتوں کوایکدوسرے کے اس قدر نزدیک لے آئیں
گے کہ وہ باہم دست و گریباں ہونے اور ایک دوسرے کے کارکنوں کو نشانہ بنانے
کی بجائے اپنے مشترکہ دشمن کو شناخت کرکے پاکستان و جمہوریت کو اس سے بچانے
کیلئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں عوا م کو تعصب و تفرقے سے نکال کر
متحد و منظم کریں اور اگر ایسا ہوگیا تو جمہوریت کے مستقبل کے یہ خطرات
عوام کے مستقبل کا انقلاب بن جائیں گے اور مستقبل قریب میں عوام اس انقلاب
کے ثمرات سے پرامن و پرسکون زندگی گزارنے کی خواہش کو کسی نہ کسی حد تک
پورا ہوتے ہوئے ضرور دیکھ پائیں گے۔ |
|