کراچی ہر لحاظ سے انتہائی اہم
شہر ہے،کراچی پر پڑنے والے اچھے یا برے اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں،کراچی
کو پاکستان کا معاشی حب بھی کہا جاتا ہے،کیونکہ ملک کو کراچی کی آمدنی کا
بہت سہارا حاصل ہے۔اس کے علاوہ بھی ملک میں رونما ہونے والی بے شمار
تبدیلیاں کراچی سے منسلک ہیں۔جمعرات کی رات ایم کیو ایم کے انتخابی دفتر کے
قریب بم دھماکے میں چھ افراد جاں بحق، بارہ زخمی ہوئے،صدر، وزیراعظم سمیت
سیاسی رہنماﺅں نے واقعہ کی مذمت کی، جبکہ ایم کیو ایم نے سندھ بھر میں سوگ
کا اعلان کردیا۔ایم کیو ایم کی جانب سے جمعہ کے روز سوگ کے اعلان پر تاجر
تنظیموں، ٹرانسپورٹروں نے کاروبار بند رکھنے کا اعلان کیا،شہر میں پبلک
ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہی جبکہ تمام چھوٹے بڑے تجارتی مراکز، سی این جی
اسٹیشنز، پیٹرول پمپس اور تعلیمی ادارے بھی بند رہے ، میٹرک کے امتحانات
سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں بھی ہونے والے پرچے ملتوی کردیے گئے۔ٹرانسپورٹ
اتحاد اور تاجر برادری نے دکانیں اور کاروبار بند رکھنے اور گاڑیاں سڑکوں
پر نہ لانے کااعلان کیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ٹرانسپورٹ سڑکوں پر لاتے
ہیں تو ہمیں خطرہ ہے کہ ہماری گاڑیاں جلادی جائیں گی اس لیے ہم اسی میں
بہتری سمجھتے ہیں کہ اپنی گاڑیوں کو سڑکوں پر نہ لائیں۔گاڑیوں کے سڑکوں پر
نہ آنے کی وجہ سے صبح سویرے دفاتر جانے والے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا
پڑتاہے۔
پاکستان کے معاشی مرکز کراچی سے پورے ملک کی معیشت کی باگ ڈور بندھی ہوئی
ہے ،اگر ایک دن کاروبار زندگی معطل ہوجائے تو قومی خزانے کو اربوں روپے
خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مصدقہ ذرائع کے مطابق کراچی میں ایک دن کی
ہڑتال سے آٹھ سے دس ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔دی نیوز ٹرائپ کو دستیاب
پاکستانی رپورٹس کے مطابق کراچی میں ایک دن کی ہڑتال سے پیداواری لحاظ سے
آٹھ سے دس ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے،ایک دن کی ہڑتال سے شہر بھر کی چھوٹی
بڑی دو لاکھ صنعتیں بند رہتی ہیں،جس سے دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں
بیس لاکھ افراد کا روزگار وابسطہ ہے،معاشی ماہرین کے مطابق ملک کی مجموعی
پیداوار میں 22 فیصد جب کہ محصولات میں 62 فیصد حصہ کراچی کا ہوتا ہے۔کراچی
میں ایک دن کی ہڑتال سے آٹھ سے دس ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے،جبکہ ملک کو
محصولات کی مد میں کم از کم چار ارب کا نقصان ہوتا ہے،کراچی میں ہڑتال اور
یوم سوگ کے اعلان سے 80 فیصد کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے شہر
کے دو کروڑ لوگوں کی زندگی معطل ہوجاتی ہے۔
کراچی میں پے در پے ہڑتالوں نے کاروباری زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے
اور شہر کے باسیوں کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔کراچی کے آل ٹریڈرز
الائنس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مقامی مارکیٹیں بند رہنے سے 2 ارب 50 کروڑ
روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ شہر کے خریداری مراکز اور بڑی مارکیٹیں
زیادہ متاثر ہو تی ہیں۔ تقریباً 40 فیصد کاروبار تباہی کے دھانے پر کھڑے
ہیں۔ایک پٹرول پمپ کے منیجر نے بتایا کہ شہر میں 400 کے قریب پٹرول پمپ ہیں
اور ایک پٹرول پمپ پر اوسطاً یومیہ 10 ہزار لٹر پٹرول اور 5 ہزار لٹر ڈیزل
فروخت ہوتا ہے۔ پٹرولیم کی صنعت کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ شہر
کی آبادی کو ایندھن کی قلت کا سامنا ہے۔تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ ہڑتالوں
کے باعث شہر پر پڑنے والے کل مالی اثرات کا تخمینہ لگانا دشوار ہے۔ ملک کی
معیشت پر پڑنے والے حقیقی نقصان کا تخمینہ نہیں لگا سکتے کیونکہ اس میں بہت
سے عوامل ہیں۔ تاہم کراچی میں ایک روز کی ہڑتال سے اربوں روپے کا نقصان
ہوتا ہے۔
کاروباری طبقہ اپنی جگہ مگر کراچی ایسا شہر ہے جہاں ملک کے دوسرے شہروں
بلکہ دوسرے ممالک سے بھی بڑی تعدادا میں حصول رزق کے لیے کراچی کا رخ کرتی
ہے،ان میں سے اکثر کراچی میں آکر محنت مزدوری کرتے ہیں،کراچی میں بسنے والے
بے شمار افراد ایسے ہیں جو روزانہ کی اجرت پر کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں
کا پیٹ پالتے ہیں۔ کراچی شہر میں جاری ہڑتال کے باعث سب سے زیادہ یہ ہی
طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ ایک دن کاروبار زندگی معطل ہو جانے سے یومیہ اجرت
کمانے والے مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔کراچی کی متعدد سڑکوں کے
کناروں پر مزدوروں کی ایک لمبی قطار روزانہ کام ملنے کے انتظار میں بیٹھی
دکھائی دیتی ہے، مگر ہڑتال کے باعث ان مزدوروں کے چہرے اداس دکھائی دیتے
ہیں۔یوم سوگ کے موقع پران میں سے بعض مزدوروںکا کہنا تھا کہ ”ہڑتال کے باعث
آج تو دیہاڑی ملنا مشکل ہے آج خالی ہاتھ ہی گھرجانا پڑے گا۔“ گلی محلوں میں
پھل بیچنے والے اور پھیری لگا کر سبزی فروخت کرنے والے بھی متاثر ہوتے ہیں
،جب ان کے پھل اور سبزیاں گل سڑ جاتے ہیں۔ چند سالوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے
کہ ملک کے حالات یکدم بدل گئے ہیں، روز روز کی ہڑتال نے ہم غریب مزدوروں کے
چولھے ٹھنڈے کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے کبھی کبھی تو نوبت فاقوں
تک پہنچ جاتی ہے”ایک مزدور کا کہنا تھا کہ” روزانہ کی دیہاڑی لگ جاتی ہے تو
گھر والوں کی روزی روٹی کا مناسب بندوبست ہو جاتا ہے اور جس دن ہڑتال ہوتی
ہے تو سب سے زیادہ ہم لوگوں کو نقصان ہوتا ہے ہڑتال کی وجہ سے کام ٹھپ
ہوجاتا ہے، تو کھائیں گے کہاں سے؟“ سواری کے انتظار میں کھڑے ایک رکشہ
ڈرائیور نے بتایا کہ” ہڑتال تو ہے مگر اس سے کہیں زیادہ ہمیں اپنے گھر
والوں کی روٹی کی فکر ہے کہ ان کا کیا بنے گا ڈر اور خوف میں زندگی گزار
رہے ہیں مگر پیٹ کا کیا کریں؟ہم اپنی گاڑی اور زندگی کا رسک لے کر نکلتے
ہیں‘ گھر والوں کی روزی روٹی کی خاطر ہم رکشہ ڈرائیور بھی ہڑتال کے دن اپنی
جانوں سے کھیل رہے ہیں، ہڑتال میں رکشے جلائے جانے کا ڈر بھی ہے مگر مجبوری
ہے کیا کریں۔؟‘
پے در پے سوگ سے تعلیمی ادارے اور طلبہ بھی بہت زیادہ متاثر ہوئے،کیوںکہ
یوم سوگ سے طلبہ کے ہونے والے پرچے ملتوی کرنا پڑے ،طلبہ کا کہنا تھا کہ
روز روز کی ہڑتالوں نے کراچی کے باسیوں کا جینا دوبھر کردیا ہے،اس سے ہم
بہت متاثر ہوتے ہیں،کراچی میں آئے دن ہڑتالیں اور سوگ ہوتے رہتے ہیں جس سے
ہماری تعلم بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے،تعلیمی اداروں کو مجبوراً پرچے ملتوی
کرنا پڑتے ہیں ،کیونکہ ان حالات میں طلبہ پرچے نہیں دے سکتے،جب ایک پرچے کی
تیاری کی ہو اور وہ پرچہ ملتوی ہوجائے دوبارہ اس پرچے کی تیاری کرنے کا دل
نہیں کرتا،جس سے پرچوں میں کم نمبر آتے ہیں،سیاستدانوں کو سوچنا چاہیے کہ
وہ احتجاج کا کوئی اور اختیار کریں،جس سے کسی کا نقصان نہ ہو۔ |