11مئی2013ءکے عام انتخابات اگر بروقت منعقد
ہوجاتے ہیں تویہ ایک معجزہ ہوگاتاہم ماضی کے مقابلے میں اس بار انتخابات
قدرے مختلف اورخونیں ہوں گے۔مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کئی کئی
باراقتدارمیں رہیں ،ان دونوں پارٹیوں کی ناکامیوں اورغلطیوں کے نتیجہ میں
پی ٹی آئی متبادل سیاسی قوت کے طورپرابھری ہے۔پی ٹی آئی والے ایک سیاسی
جماعت کی صورت میں اس بارپہلے الیکشن میں حکمران سیاسی پارٹیوں کے مدمقابل
میدان میں اترے ہیں،تاہم انٹراپارٹی الیکشن اورعام انتخابات میںز مین آسمان
کافرق ہے۔مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے مقابلے میںپی ٹی آئی کے امیدواروں
کی انتخابی مہم کے سلسلہ میں ناتجربہ کاری سے انکارنہیں کیا جاسکتا ،تاہم
ان کی اس سادگی اورمعصومیت نے عوام اوربالخصوص نوجوانوں کوپی ٹی آئی کی طرف
متوجہ کردیا۔دیکھتے ہیں سونامی کس کس سیاسی برج کواپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے
یا اس کے اپنے برج الٹ جاتے ہیں۔نوجوانوں نے عمران خان کوتبدیلی کی علامت
مان لیا ہے،اس بارنوجوانوں کاووٹ کسی بھی پارٹی کی کامیابی اورناکامی میں
کلیدی کرداراداکرے گا۔ اس بارپی ٹی آئی سمیت بڑی پارٹیوں کے انتخابی ٹکٹ
فروخت ہوئے مگرجوچندایک ٹکٹوں کاکوئی خریدارنہیں ملتاان کی چہیتوں میں
بندربانٹ ہوجاتی ہے ۔موروثی سیاست کیخلاف پی ٹی آئی کی مذمت اورمزاحمت
کوعوامی سطح پرکافی سراہا جارہا ہے جبکہ خود پی ٹی آئی ،مسلم لیگ (ن) ،پیپلزپارٹی
اورمسلم لیگ (قائداعظمؒ) نے موروثی سیاست کوفروغ دیتے ہوئے بڑے سیاستدانوں
کے بچوں اورعزیزواقارب کوٹکٹ جاری کئے ہیں۔دوسری طرف کپتان نے کالاباغ سے
تعلق رکھنے والی ایک خاتون سیاستدان کی خاطرپی ٹی آئی کے بانیوں اور اپنے
مخلص بھائیوں سعیداللہ نیازی ،حفیظ اللہ نیازی اورانعام اللہ نیازی کوپی ٹی
آئی میں دیوار کے ساتھ لگادیا اوریوں باامرمجبوری انہیں اپنے بھائی عمران
خان کا سیاسی طورپرساتھ چھوڑناپڑا۔اگرکامیاب مردکے پیچھے ایک عورت کاہاتھ
ہوتا تو ہرناکام مردکے پیچھے ایک سے زیادہ عورتوں کاہاتھ ہوتا ہے۔عورت ایک
طاقت اورقیمتی اثاثہ ہے مگرآج تک جس کسی نے بھی عورت کواپنی کمزوری بنایا
اس کی شخصیت ،دولت طاقت ،سیاست اوربصیرت کابیڑا غرق ہوگیا ۔سیاسی
طورپرنوزائیدہ پی ٹی آئی نیازی برادران کی جدائی کا دھچکا برداشت نہیں
کرسکتی ۔سلجھے ہوئے سیاستدان سعیداللہ نیازی ،زیرک سیاستدان اوردانشورحفیظ
اللہ نیازی سمیت پرویزی آمریت کے سیاسی اسیراورمیانوالی کے دبنگ سپوت انعام
اللہ نیازی کی عمران خان سے ہٹ کربھی اپنی اپنی سیاسی وسماجی شناخت ہے
اوریہ تینوں بھائی ہماری قومی سیاست کی قدآورشخصیات ہیں اورانہیں قدرکی
نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔راقم اورانعام اللہ نیازی 2004ءمیں پرویزمشرف کے
دورآمریت میں ملتان جیل کے سکیورٹی سیل میں ساتھ ساتھ قیدتنہائی میں رہے
ہیں،ان کاشمار دھڑے بازاوردھڑلے والے سیاستدانوں میںہوتا ہے ۔اگرعمران خان
اپنے ان مخلص اورسیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والے بھائیوں کوساتھ لے کرنہیں
چل سکتے توپھر کپتان کسی دوسرے کے اعتماد پرکس طرح پورااتریں گے۔قومی کرکٹ
ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے عمران خان کی ضداورہٹ دھرمی مشہوررہی ہے مگر
سیاست میں ون مین شواور انتہاپسندانہ رویہ ڈبودیتا ہے ۔پی ٹی آئی کاجمہوری
تشخص ابھارنے اورمنوانے کیلئے انٹراپارٹی الیکشن کافی نہیں ،کپتان کوا پنے
آمرانہ مزاج اورعہدشباب والی ناپسندیدہ عادات سے بھی جان چھڑاناہوگی ۔
جوسیاست میں اپنے مدمقابل کو انڈراسٹیمیٹ کرتاہے وہ سیاسی طورپر ماراجاتا
ہے۔عمران خان کوسیاستدان اورپی ٹی آئی کوسیاسی قوت بنانے کاکریڈٹ کپتان سے
زیادہ مسلم لیگ (ن) کوجاتا ہے،شریف برادران آج بھی عمران خان کے نام کی
گردان کررہے ہیں ۔سیاست میں محض شعبدہ بازی اورجذباتی اندازبیاں سے عوام
کواپنا گرویدہ نہیں بنایا جاسکتا ۔عوام کوزندگی کی بنیادی ضروریات فراہم
کرنے کی بجائے بڑے بڑے مگر غیرضروری منصوبوں پرپیسہ پھونک دیناگڈگورننس
نہیں۔آج جس ملک کے پاس بجلی نہیں اس کے پاس کچھ بھی نہیں،لاہور کی مساجدمیں
نمازیوں کو گھرسے وضوکرکے آنے کا اعلان کیا جاتاہے جبکہ گھرو ں میں تو پینے
تک کاپانی نہیں ہوتا ۔توانائی کی قلت نے ہماری زندگی کوذلت آمیز بنادیا
ہے۔بدنیت اوربددیانت حکمران میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا،اگرانسان کی نیت
درست نہ ہوتونتیجہ کس طرح درست نکل سکتا ہے۔مقروض ملک کاپیسہ حکمرانوں
اورسیاستدانوں کی ذاتی شہرت کی غرض سے غیرضروری منصوبوں پرصرف کردیا جاتا
ہے۔پاکستان کی معیشت آئی سی یومیں پڑی ہے جبکہ ارباب اقتدارواختیار بحرانوں
کے آگے بندباندھنے کیلئے تیار نہیں ہیں نتیجتاً پاکستان کاروپیہ ڈالراورپاﺅنڈ
کے مقابلے میں دن بدن قدرکھورہا ہے۔
امید تھی اس بار انتخابات میں بڑے بڑے قدآورسیاستدان ایک دوسرے کے مدمقابل
ہوں گے اوربرابرکاجوڑ پڑے گامگر تینوں بڑی پارٹیوں نے اپنے اپنے جیالے
اورمتوالے میدان میں اتاردیے ہیں ،چندایک کے سواکوئی ایسا امیدوارنہیں
جوقابل رشک اورسرمایہ افتخار ہو۔مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی فہرست طویل
انتظارکے بعدمنظرعام پرآئی تواس کے اپنے حامیوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ
گئی ۔مسلم لیگ (ن) انتخابات میں سرپرائزدینے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اس
بات کافیصلہ توگیارہ مئی کوہوگا تاہم اس جماعت نے خاص طورپرلاہورمیں
جوامیدوار نامزدکئے ہیں اس حوالے سے سیاسی پنڈت بھی حیران اورپریشان
ہیں،میں سمجھتا ہوں اس بار ووٹر کسی بھی پارٹی کے کھمبوں کوووٹ نہیں دے گا
۔ لاہور سے ممتازقانون دان اورعدلیہ بحالی کیلئے نمایا ں کرداراداکرنیوالے
چودھری نصیر احمدبھٹہ ایڈووکیٹ ، سابق ممبرقومی اسمبلی میاں مرغوب
احمدجوپرویزمشرف کے دورآمریت میں مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر رہے اورتحریک
نجات سے تحریک بحالی جمہوریت اور لانگ مارچ تک ہرتحریک میں پیش پیش رہے،وہ
بھی اس بارٹکٹ کیلئے مخصوص میرٹ پرپورانہیں اترے۔تحریک نجات کے دور میں ایک
احتجاجی مظاہرے کے دوران جام شہادت نوش کرنیوالے جاویداشرف شہید کے سلجھے
ہوئے بھائی ڈاکٹر اسد اشرف سے زیادہ میرٹ یاحق کس کاتھا مگروہ بھی اس
بارمحروم رہے ،ڈاکٹر سعیدالٰہی کی سیاسی قابلیت اورانتظامی صلاحیت کاایک
زمانہ مداح ہے ،2008ءمیں کوئی چودھری مونس الٰہی کیخلاف امیدواربننے کیلئے
تیارنہیں تھا مگرڈاکٹر سعیدالٰہی نے یہ چیلنج قبول کیا اورکامیاب رہے مگراس
بارانہیں بھی میدان میں نہیں اتارا گیا،آجاسم شریف ،اعجازخان ایڈووکیٹ،میاں
نویدانجم، میاںحافظ نعمان اوروسیم قادر کوبھی ڈراپ کردیا گیا ۔این اے 121سے
میاں مرغوب احمدکی بجائے مہراشتیاق احمدکوایک ساتھ قومی اورصوبائی اسمبلی
کاٹکٹ دے دیا گیا ،ا س حلقہ سے میاں مرغوب احمد ایک موزوں اورمضبوط
امیدوارہوتے مگروہ انٹراپارٹی سیاست کاشکار ہوگئے۔پی ٹی آئی اورجے آئی کے
ہوتے ہوئے مہراشتیاق احمدکااین اے121سے جیت جاناایک معجزہ ہوگا۔ پی پی149سے
شعیب خان نیازی کی بجائے ایک بارپھر رانامشہوداحمد اپنے سیاسی دھڑے کے
زورپر ٹکٹ لے گیا ،مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے رانامشہودکوٹکٹ دیتے وقت اپنے
باوفااورباصفا نوجوان رہنمابجاش خان نیازی کی کمٹمنٹ اورخدمات کوبھی نہیں
دیکھا۔شعیب خان نیازی احتجاجاً آزاد امیدوارکی حیثیت سے کھڑے ہوگئے
ہیںاوروہ اس حلقہ کی سیاست پراثراندازہوں گے۔این اے126سے خواجہ احمدحسان
کوٹکٹ دیا گیا ہے،یہ وہی خواجہ احمدحسان ہیں جنہوں نے پرویزمشرف کے
دورآمریت میں مسلم لیگ (ن) لاہور کی صدارت کولات مار دی تھی اورپرویز مشرف
کے بدنام زمانہ صدارتی ریفرنڈم کے جلسہ کی دعوت ملنے اور شہبازشریف کے
روکنے کے باوجودوہ پرویز مشرف کے ساتھ سٹیج پرجابیٹھے تھے اوراس پاداش
میںانہیں2008ءکے انتخابات میں نوازشریف نے ٹکٹ دینے سے انکار کردیا تھا مگر
شہبازشریف وزیراعلیٰ منتخب ہوئے توانہوں نے خواجہ احمدحسان کواعلیٰ عہدوں
اورمراعات سے نوازااوراس بارانہیں ایم این اے کا ٹکٹ مل گیا۔این اے126سے پی
ایم ایل این کے خواجہ احمدحسان اورپی ٹی آئی کے شفقت محمود میں کانٹے
دارمقابلہ ہوگاتاہم میاں عامر محمود اورکرنل (ر)طاہرایچ کاردارکے حامیوں
کاوزن پی ٹی آئی کے پلڑے میں چلے جانے سے نہ صرف این اے126سے شفقت
محمودبلکہ مجموعی طورپرلاہور سے پی ٹی آئی کی پوزیشن مزید بہتر ہوگئی
ہے۔این اے127سے مسلم لیگ (ن) نے نصیراحمدبھٹہ کی بجائے انارکلی سے سابق
ناظم وحیدعالم خان کوٹکٹ دیا ہے ۔وحیدعالم خان کے ایک بھائی ڈسٹرکٹ
اینڈسیشن جج ہیں اوران کی عدالت سے عائشہ احدکی ضمانت خارج ہوئی تھی ۔
توصیف شاہ کوڈیفنس میںبیکری تشدد کے متاثرین سے صلح کرانے پرپی پی151سے ٹکٹ
دے دیا گیا اوراس حلقہ سے قانون دان اعجازخان ٹکٹ سے محروم رہے۔ پی پی155سے
چودھری سلیم علی کی بجائے میاں نصیراحمدکودوبارہ ٹکٹ دینانقصان دہ ہوسکتا
ہے۔اس حلقہ سے کچھ آزادامیدوارمسلم لیگ (ن) کاووٹ توڑسکتے ہیں
اس بار مسلم لیگ (ن) کی طرف سے دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بارگینگ کی
آڑمیں بدعہدی کے واقعات بھی منظرعام پرآئے جس سے اس کی کریڈی بلٹی
متاثرہوئی ہے،ہوسکتا مستقبل میں دوسری سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ
بیٹھنے اوربات کرنے کیلئے آسانی سے تیار نہ ہوں ۔مسلم لیگ ہم خیا ل ،جماعت
اسلامی سمیت مختلف سیاسی دھڑوں کے ساتھ بات چیت اوران سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے
وعدے کرنے کے باوجودکسی کے ساتھ اپنا وعدہ وفانہیں کیا۔حامدناصرچٹھہ
اورہمایوں اخترخان دونوں زیرک اورتجربہ کارسیاستدان ہیں مگروہ بھی مسلم لیگ
(ن) کی چال سمجھنے میں ناکام رہے۔لاہور کے ایک بڑے بااثرسیاسی دھڑے کے ساتھ
پی پی152سے ہردلعزیز اورانتھک کرنل (ر)طاہرایچ کاردار،پی پی148سے مقامی
افراد کے پسندیدہ میاں اسلم اقبال اوراین اے124سے میاں اخلاق گڈوکیلئے بات
چیت چلی توحمزہ شہباز ،پرویز ملک اورپرویز رشید ایک وفد کی صورت میں لاہور
کے سابق ناظم اورباصلاحیت منتظم میاں عامر محمود کے گھرپران سے ملاقات
میںاین اے 124سے میاں اخلاق گڈوکی بجائے ان کی اہلیہ کوٹکٹ دینے کی آفر کی
گئی مگربات نہیں بنی جس پراس بااثرسیاسی دھڑے اورپی ٹی آئی کے درمیان اتحاد
ہوگیا اورمیاں اسلم اقبال پی پی148سے پی ٹی آئی کے امیدوارنامزدہوگئے اور
اس حلقہ سے ان کی کامیابی کاامکان بہت روشن ہے۔پنجاب میںتعلیمی انقلاب
برپاکرنے کامژداسنانے والے شریف برادران نے تعلیم یافتہ امیدواروں
کومسترداورمایوس کرتے ہوئے زیادہ ترٹکٹ ان پڑھ یاکم تعلیم یافتہ امیدواروں
کو دیے کیونکہ ا ن کے ہاں سمجھداری نہیں بلکہ صرف وفاداری میرٹ ہے ۔
ہرسیاسی پارٹی گلے سڑے سیاسی نظام کی تبدیلی کے حق میں ہیں ،دیکھتے ہیں
11مئی کومینڈیٹ کس کوملتا ہے۔دعا ہے کھچڑی نہ پک جائے۔ |