جنرل مشرف کی کہانی اتنی بھی سادہ نہیں

صاحبو ! کیا یہ کہا نی اتنی سادہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف پاکستان انتخابات لڑنے آئے نا اہل قرار پائے اور مقدمات میں الجھ کر گرفتار ہوئے حالاں کہ وہ یہ جانتے تھے آئین توڑنے کے جرم سمیت بے نظیر قتل ،اکبر بگٹی قتل کیس ججز کو نظر بند کرنے اور لا ل مسجد جیسے دیگر کیسز ان کا راستہ دیکھ رہے ہیں پھر بھی آئے اور گرفتار ہوئے ؟کیا انھیں زعم ہے کہ ان کے عالمی گارنٹر امریکہ ہو کہ سعودی عرب انھیں بچا لیں گے یا وہ ایک ایسی فوج کے سربراہ رہ چکے ہیں جو اپنے بندوں کا تحفظ کرنا جانتی ہے کہ ان کی بقا اور ساکھ کا معاملہ ہے اور ماضی اس کی گواہی بھی دیتا ہے شائد انھیں یہ بھی امید تھی کہ وہ پاکستان آئیں گے تو ان کا نہ صرف عوام شاندار استقبال کریں گے بلکہ ان کی طرف اٹھنے والے ہاتھ خود روک لیں گے؟ کیونکہ انھوں نے اس ملک کے عوام کو خوشحالی دی ملک کو معاشی طور پر مستحکم کیا ،آئی ایم ایف کو نکال باہر کیا ،گوادر پورٹ کچھی کنال سمیت ملک میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھا دیئے تھے ، اس میڈیا کو آزادی دی جو آج انھیں کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں پاکستان کو قرض لینے والا نہیں دینے والا ملک بنا دیا تھا ڈالر دس سال تک ساٹھ روپے سے اوپر نہیں گیا تھا کوئی قا بل ذکر کرپشن کا داغ بھی ان کے ماتھے پر نہیں لیکن شاندار استقبال کا خواب اس وقت ہی چکنا چور ہوگیا جب ان کی آمد پر نہ صرف قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں جلسہ کے انعقاد کی اجازت نہیں ملی بلکہ کراچی ائیر پورٹ پر استقبال کے لیئے پہنچنے والے مشرف کو اپنے متوالوں کو خطاب کی اجازت بھی مشکل سے ملی کہ سیکورٹی خطرات ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے ،یا پھر سیانے کوے کی طرح جنرل پرویز مشرف بھی ٹریپ ہو کر عالمی منصوبہ سازوں کے جال میں پھنس گئے ہیں جو ایک عرصہ سے پاکستان کی سیا سی قیادت کو مادر پدر آزاد جمہوریت کا لالی پاپ تھما کر عدلیہ کو آزادی کا زعم دکھا کر پاک فوج کے مدمقابل لانے کی بھر پور کوشش میں ہیں جو ان سازشیوں کے عزائم کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح رکاوٹ بن کر کھڑی ہے ایبٹ آباد میں اسامہ آپریشن ،مہران نیول بیس ،کامرہ بیس ، جی ایچ کیو حملوں سمیت سینکڑوں دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ ساتھ میمو اسکینڈل اور قادری دھرنا جیسے ڈرامے تو کم ازکم یہی ثابت کرتے ہیں اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ میڈیا اپنے فرائض منصبی یا ریٹنگ کے چکر میں وہی دکھانے پر مجبور ہے جو نظر آرہا ہے اور بقول چیف جسٹس عدلیہ ہر صورت میں اپنی آزادی برقرار رکھتے ہوئے آئین اور قانوں کے مطابق فیصلے کرتی رہے گی چاہے پہاڑ پھٹ پڑے یا آسمان سروں پر آگرے جبکہ سیاسی قیادتوں کو عوام کی بھوک وافلاس کے صلے میں ملنے والی نام نہاد جمہوریت جو ان کی لوٹ مار اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کی ضمانت ہے اتنی عزیز ہے کہ ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے والے مداری فوج کو نیچا دکھانے کے لئے یک زبان ہو کر میدان میں اترے ہوئے ہیں جنھیں لبرل فاشسٹ کی بھر پور معاونت حاصل ہے ان ساری اناؤں کے بیچ عوام کی بے بسی اور ملک سلامتی پیچ منجھدار ہچکولے کھارہی ہے جس پر سب کی نظرِالطافات پڑنے سے قاصر ہے جسے عالمی منصوبہ ساز بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے اپنے حق میں استعمال کرنے کی سعی لاحاصل میں جت گئے ہیں ایسے میں ملکی سلامتی کی ضامن فوج اور دیگر قومی سلامتی کے ادارے اس تندی بادِ مخالف سے گھبرانے کے بجائے معنی خیز خاموشی سے واچ کر رہے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا فیصلہ مسقبل قریب کرے گا مشرف کی گرفتاری پر بگلیں بجانے والے سیاست دان بظاہر خوش مگر اندر سے خوف اور وسوسوں کا شکار یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ تمام تر بے اعتدالیوں ،کرپشن اور لوٹ مار ،ٹیکس نادہندگی اور اخلاقی گراوٹوں کے باوجود آئین کا آرٹیکل 62،ان کا بال بھیکا نہیں کر سکا اور وہ الیکشن ٹربیونل کے شیمپو سے دھل کر ایک بار پھر مسندِ اقتدار کی طرف روان دواں ہیں باوجود اس کے ”دل ہے کہ مانتا نہیں “کے مترادف بطاہر الیکشن کسی صورت مین ملتوی نہیں ہونے چائیے کی رٹ لگانے والے پرانے سیاسی جگادری اس آس میں ہیں کہ کوئی ایسی ان ہونی ہوجائے جو انتخابات کے اس کمبل سے نجات دلا سکے جو ان کی جان لے کر چھوڑے گا ؟ تاکہ عزت سادات بچانے کی کوئی سبیل نکل سکے کہ آرٹیکل 63کا کلہاڑا چل گیا تو جائے اماں نہیں ملے گی جس کی بنیاد مشرف کی الیکشن کے لیئے نااہلی اور گرفتاری نے فراہم کر دی ہے اوربوٹوں والوں پر بھی انگلی اٹھانے کا بہانہ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے ابھی جنرل مشرف کی گرفتاری کا مرحلہ طے ہوا ہے کہ بہت سوؤں کی گگلی بند گئی ہے اور خوف سے کپکپی طاری ہے کہ مشرف عدالت میں کھڑے ہوں گے تو کون کون سے راز اگلیں گے اور کن کن پردہ نشینوں کو عدالت میں کھڑا ہونا پڑے گا نگران حکومت نے توسپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ان کے پاس مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا مینڈیٹ نہیں، جب کہ چودھری شجاعت تو دوہائی دے رہے ہیں کہ پرویز مشرف پر غداری کے مقدمہ میں جلد بازی کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیںیہ مشرف کی ذات کا مسئلہ نہیں ،پنڈورا بکس کھل جائے گا ،جلد بازی کا اقدام قومی مفاد اور جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے کسی فرد یا ادارے کی تذلیل خطرناک صورت حال اختیار کر سکتی ہے ایسے اقدام سے باز رہا جائے جن کے نتائج پر قابو نہ پایا جاسکے ، پی پی کی شرمیلا فاروقی بھی دبے لفظوں میں یہی کچھ کہہ رہی تھیں ٹی وی چینل پر ، مشرف پر تین نومبر کا مقدمہ ہی کیوں بارہ اکتوبر 1999 کو نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹنے اور آئین توڑنے کا مقدمہ کیوں نہیں ،انصاف ہو تو پھر پورا آدھا انصاف مزا نہیں آئے گا جنرل ضیاالحق اور سکندر مرزا پر بھی آئین توڑنے کا مقدمہ بنتا ہے ؟اور ان سب کے ساتھ ان کی معاونت ،حمایت اور ان کی آمد پر مٹھایاں اور جشن منانے والے بھی تو آئین میں موجود غداری کی شق کی زد میں آتے ہیں ان پی سی او ججز کو بھی کٹہرے میں آنا پڑاے گا کہ آئین کے آرٹیکل 6کے سب سیکشن تو یہی کچھ کہتی ہے عوام ماضی قریب سے رجوع کرتے ہیں تو انھیں جنرل اسلم بیگ سپریم کورٹ کے پورے بنچ کو یہ کہتے ہوئے دکھائی دیں گے کہ وہ عدالت کا بائیکاٹ کر کے باہر جا رہے ہیں جو فیصلہ کیا جائے انھیں گھر پر بتا دیا جائے ضیا الحق کے دست راست جنرل فیض علی چشتی بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ جس میں ہمت ہے ان کے خلاف آئین توڑنے ،منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور غداری کے الزام میں مقدمہ چلا کر تو دیکھ لے اصغر خان کیس کے فیصلے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی جس میں سویلین اور فوج سب کی گردنیں چھری تلے آتی ہیں لیکن عملا´ابھی تک کچھ نہیں ہوا ریمنڈ ڈیوس مکھن میں بال کی طرح کیسے نکل گیا سانحہ ایبٹ آباد کے متعلق جوڈیشل کمیشن کا کیا بنا ،1971میں ملک دو ٹکڑے ہوا فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے محمود کمیشن کی تحقیقات کہاں گئیں یہ ساری باتیں اب زیر تبصرہ ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشرف کی گرفتاری اور مقدمے کی سماعت کا آغاز غیر معمولی دکھائی دیتا ہے کیونکہ جنرل مشرف کی کہانی اتنی بھی سادہ نہیں جس پر عوام محو حیرت ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھتے پھر رہے ہیں کہ یہ انہونی ہو جائے گی مگر میں اس بات پر متفق ہوں کہ اگر فوج نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ مشرف کی قربانی دے دی جائے تو پھر انتخابات کے بعد آرٹیکل 63 بھی چلے گا ،صفائی و ستھرائی ہو گی کسی کے پاس آئیںبائیں شائیں کا جواز بھی باقی نہیں بچے گا اگر نہیں تو پھر مشرف بھی حقانی کی طرح امریکہ سدھار جائیں گے یا پھر ہیرو بن کر میدان میں آکھڑے ہوں گے اس لئے عوام خود ہی حالیہ الیکشن میں کچھ تھوڑی بہت صفائی کر لیں اور پانچ سال مزید لٹیروں ،قرض معاف کرانے والوںجعلی ڈگری گریجو ایٹوں اور ٹیکس نہ دینے والوں کو بھگتیں کہ حسبِ ِ سابق فوج اور عدلیہ انھیں بچانے نہیں آئے گی یہ بار گراں گاموں ماجھو کے ہمیشہ سے عادی کندوں پر موجود رہے گا ؟
younas majaz
About the Author: younas majaz Read More Articles by younas majaz: 25 Articles with 30585 views معروف کالم نگار وشاعر محمد یو نس مجاز، کا تعلق ہری پور ہزارہ سے ہے ایم اے اردو پشاور یونیورسٹی سے کیاگزشتہ تیس سال سے دنیا ء صحافت سے منسلک ہیں شا.. View More