عمران خان کا نواز شریف کو مناظرے کا چیلنج

آ ج کل الیکٹر انک میڈیا کی اہمیت کا اندازہ آ پ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ملک کی تما م بڑی سیاسی جما عتیں مختلف ٹی وی چینلز پر روزانہ کروڑوں روپے کے اشتہارات دے کر انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔گویا تمام سیاسی جماعتیں اس بات کو تسلیم کرتی ہیں۔ کہ ٹیلی ویژن عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔پھر مو جودہ صورتِ حال میں جبکہ سیاسی جما عتیں دہشت گردی کی وجہ سے انتخابی مہم کھل کر آ زادانہ طریقہ سے نہیں چلا سکتیں۔ ٹیلی ویژن کی ا ہمیت اور بھی بڑھ جا تی ہے کیو نکہ عوام کو اپنا منشور یا اپنی بات آسانی کے ساتھ بلا خوف و خطر پہنچائی جا سکتی ہے۔

اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک میں انتخابات اور انتخابی مہم کا جا ئزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آ جا تی ہے کہ وہاں سیاسی جما عتوں کے لیڈر ٹی وی پر عوام کے سامنے نہ صرف اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں بلکہ لیڈرز ٹی پر با قاعدہ منا ظرہ /مباحثہ کرتے ہیں اور عوام ان کو انکے پیش کردہ خیالات و گفتگو کے ذ ریعے جا نچتے ہیں، اور پھران کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ترقی یا فتہ ممالک میں انتخابات کے وقت ایسے منا ظروں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ گویا پاکستان تحریکِ انصاف کے چئیر مین عمران خان کا پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ نواز شریف کو منا ظرے کا چیلنج دینا ، جمہوری نظام میں کو ئی انہو نی یا غیر روا یتی بات نہیں ،خصوصا ایسے حالات میں ،جبکہ سیاسی پا ٹیوں کے سربراہوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ملک ایک سنگین صورتِ حال سے دو چار ہے۔پیپلز پارٹی کے راہنما فرما رہے ہیں کہ ہمیں الیکشن سے باہر رکھنے کی کو شش کی جا رہی ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے و یڈیو لنک کے ذ ریعے کا رکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” قائدِ عوام اور بینظیر بھٹو کے قاتل ہمیں قتل کرنا چا ہتے ہیں “ ایم کیو ایم نے منگل کے دن یہ کہہ کر اپنی انتخابی مہم ہی بندکر دی کہ طا لبان ہمیں ‘ اے این پی اور پیپلز پا رٹی کو نہ صرف دھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ انتخابی دفا تر اور جلسوں پر حملے بھی ہو رہے ہیں۔متعدد سیاسی راہنماوں کو وزارتِ داخلہ کی طرف سے باقاعدہ خبردار کیا گیا ہے کہ دہشت گرد مختلف علاقوں میں داخل ہو گئے ہیں اور ان پر خودد کش حملے ہو سکتے ہیں گویا اس صورتِ حال میں سیاسی جما عتوں کے لئے انتخابی مہم چلانا سیکیو ریٹی رسک ضرور ہے۔ اندریں حالات عمران خان کا نواز شریف کو منا ظرے کی دعوت دینا ایک اچھی بات اور ایک اچھی سوچ ہے۔

نواز شریف کو ٹی وی پر آکر عوام کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ یا عمران خان کا سا منا کرنے سے وہ کیوں گر یزاں ہے؟ انتخابی نشان بھی ان کا ما شاللہ شیر ہے ، انہیں شیر بن کر سینہ تان کر عمران خان کے منا ظرے کا چیلنج قبول کر لینا چا ہئے۔

بلکہ صرف عمران خان یا نواز شریف کا منا ظرہ ہی نہیں ، تمام بڑی سیاسی جما عتوں کے قا ئدین کو ٹی وی پر آ کر عوام کی عدالت میں آ کر اپنا منشور اور آ ئیندہ کا لا ئحہ عمل پیش کرنا چا ہئیے۔ٹی وی منا ظرہ سیاسی قا ئدین کے لئے ایک بہترین جمہو ری پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے بڑے بڑے جلسے منعقد کرنے پر نہ صرف یہ کہ کروڑوں کا خرچہ آ رہا ہے بلکہ جان جانے کا خطرہ الگ سے مو جود ہے تو کیوں نہ جدید دور کے جدید سہولت یعنی ٹیلی ویژن کو بروئے کا ر لایا جائے۔آ ج کمیو نی کیشن ٹیکنا لوجی کے معجزات نے معا شرتی تبدیلی کے جاری و ساری عمل میں بے پناہ وسعت پیدا کر دی ہے۔تو کیوں نہ ہم اس سہولت سے فا ئدہ اٹھا ئیں ؟ کیوں نہ نوازشریف کو عمران خان کے منا ظرے کا چیلنج ایک ایسی روایت بنا دیں جو پاکستان میں بھی انتخابی عمل کا ایک لا زمی جزو بن جائے۔ پاکستانی عوام پہلے کی نسبت کا فی با شعو ر ہو چکے ہیں۔اور ٹیلیو یژن سکرین پر اپنے قائدین کے دلائل، خیا لات اور آ ئیندہ کا لا ئحہ عمل سن کر ،جانچ کربرے بھلے کی آ سانی سے تمیز کر سکیں گے۔ لہذا ہما ری یہ تجویز ہے کہ ٹی وی چینلز یا الیکشن کمیشن منا ظروں کے لئے باقاعدہ اہتمام کرے، اور اس بات کو یقینی بنا یا جائے کہ سیا سی قائدین مناظرہ کے وقت ایک دوسرے کے خلاف ذاتی حملوں سے گریز کرتے ہو ئے شائستہ طریقہ سے اپنا اظہارِ خیا ل کرسکیں تا کہ یہ منا ظرے جمہوری اور انتخا بی عمل کے لئے ایک روشن مثال بن جائے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اگر نواز شریف نے عمران کے منا ظر ے کا چیلنج قبول کر لیا تو پاکستانی سیاست اور انتخابی عمل میں ایک مثبت روایت کا آغاز ضرور ہوگا۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315570 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More