مورخہ 16اپریل 2013کو روزنامہ
جنگ لند ن کی اشاعت میں محترم ارشد فارق صاحب کا کالم بعنوان ” نااہلوں کا
راج مسلط“ پڑھا۔ اس سے قبل بھی ان کا آرٹیکل بعنوان ” صرف تین سو سر قلم کر
دیں“ نظر سے گزر چکا ہے ۔ ان دونوں کالموں میں موصوف کے جو خیالات ہیں ،
یقینا وہ کسی بھی محب وطن پاکستانی کے دل کی ترجمانی کرتے ہیں، انہوں نے
اپنے دونوں کالموں میں آئین کی دفعہ 62اور 63کا بھی حوالہ دیا ، جوآج کل
ہماری سیاست کا گرم ترین موضوع ہے۔
جس نقطے پر اختلا ف کی جسارت کر رہا ہوں وہ موصوف کا شیخ الاسلام ڈاکٹر
طاہرالقادری کو ملک کے کرپٹ حکمرانوں کی فہرست میں شامل کرکے یہ کہنا کہ
پانچ سال تک ملک پر ان کا راج تھا ۔ممکن ہے میں غلط ہو جاﺅں اس لیے موصوف
کے کلمات ویسے ہی لکھ رہا ہوں جیسے انہوں نے لکھے۔” لیکن گزشتہ پانچ برس جس
نااہل ٹولے کا راج مسلط رہا ہے اس میں شہبازوں کی عائشاﺅں اور حمزوں، قابض
پرویز گروپ کے مونسوں کی شجاعتوں، گیلانیوں کی گل فشانیوں اور شیریں کہنیوں
کے اشاروں، سیدانی کے معاف کرائے گئے بنک قرضوں ، نااہل و عیال کی لندن
یاتراﺅں، زرداروں کے ذاتی ملازموں اور زانی گماشتوں، بھائی لوگوں کی بند
بوریوں، داڑھی، امامے اور سرمہ لگی آنکھوں والے ڈیزل مارکہ سرقہ گیروں، حج
سیکنڈل والے کاظمی قزاقوں سے لے کر ایفی ڈرین والی عفریتوں تک، عینک والے
جنات رانا ثناﺅں، شکم۔۔۔۔۔ اور کنٹینر بند شیخوں سمیت ایسے ایسے نااہلوں کا
راج مسلط رہا ہے کہ خدا کی پناہ۔ “
موصوف نے تمام لیڈروں کے نام گن گن کر بتائے سوائے ایک لیڈر عمران خان کہ
شاید موصوف ان کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور جس وقت وہ کالم لکھ رہے تھے
اُس وقت ایک صحافی سے زیادہ پارٹی جذبات کا اُن پر غلبہ تھا۔ بار حال وہ جس
حیثیت سے بھی لکھ رہے ہوں اُن کا حق ہے ، لیکن گزارش یہ ہے کہ وہ اپنی طرح
دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا بھی خیال رکھیں اورجائز تنقید کو شعار
بنائیں۔
اپنے مضمون میں اُنہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ آرٹیکل 62اور 63کا تذکرہ کیا
تو اس حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ دفعات درحقیقت ہیں کیا؟ آئین
پاکستان کی یہ دفعات ضیا ءدور سے ہمارے آئین کا حصہ ہیں، جو اراکین
پارلیمنٹ کی اہلیت کا معیار وضع کر تے ہیں ۔ ان دفعات کو نہ تو آج تک کبھی
کسی سیاستدان نے عوام میں زیر بحث لانے کی زحمت کی اور نہ ہی کسی صحافی،
کالم نگار یا ٹی وی اینکر نے ۔ مجھ سمیت عوام پر یہ عقدہ اُس وقت کھلا جب
23دسمبر 2012کو ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور میں تاریخی جلسہ عام میں ان
شقوں کی وضاحت کی اور قوم کو بتایا کہ یہ پانچ سال تک عوام کو آئین کی
بالادستی اور 1973ءکے آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کے دعوے دار کیا
خود بھی آئین کی شقوں پر پور ااُترتے ہیں؟ اور اگر ماضی میں ان شقوں پر عمل
درآمد نہیں کیا جاتا رہا اور مستقبل میں نہ کیا جائے تو کیا ایسے الیکشن
آئینی ہو سکتے ہیں؟ اُنہوں نے قوم کو بتایا کہ آئین تقاضا کر تا ہے کہ
ہمارا نمائندہ صادق اور امین ہو۔ کوئی لٹیرا، قومی دولت کو تھوک لگانے والا،
ٹیکس چور، کمیشن مافیا، بے نامی جائیدادیں رکھنے والا، جعلی ڈگری ہولڈر،
منی لانڈرنگ کرنے والا اسمبلی انتخابات لڑنے کا اہل ہی نہیں، بلکہ اُس کا
ٹھکانہ جیل ہے۔
یہ باتیں کرنے کی دیر تھی کہ ملک میں ایک طوفان اُمڈ آیا۔ کراچی سے لے کر
خیبر تک اور کوئٹہ سے گلگت بلتستان تک تمام سیاستدان جن کے مفادات کو اس
آرٹیکل سے زچ پہنچتی تھی، اُن کے خلاف میدان میں اُتر آئے ۔ اصل بات کاجواب
دینے کے بجائے کسی نے اُن کی دُہری شہریت کو نشانہ بنایا ، کسی نے اُن کے
لباس کو تو کسی نے اُن کی تقریر کو اور ایسے ایسے القابات سے نوازا کہ
لکھتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ الغرض 14 جنوری سے 17جنوری تک 4دن کا تاریخی
لانگ مارچ ہوا۔ تمام سیاسی قوتیں ایک طرف اور وہ اکیلا طاہر القادری عوام
کے ساتھ ایک طرف۔ عمران خان اکثر کارکنوں سے کہتے ہیں کہ یہ رائٹ اور لیفٹ
کے بجائے رائٹ اور رانگ کی سیاست ہے۔ ان کے جن کارکنوں کو طاہر القادری کی
باتیں رائٹ لگیں وہ پارٹی کے جھنڈے لے کر دھرنے پہنچ گئے اور باقی کارکن
قیادت کی کال کا انتظار کر نے اور قیادت کو دھرنے میں شرکت پر مجبور کرنے
لگے ، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ طاہر القادری جو کچھ بھی کہہ اور کر رہا ہے
وہ ” رائٹ“ ہے۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے دھرنے میں شرکت نہ
کرنے کا فیصلہ کیا اور اخلاقی حمایت پر اکتفا کیا۔
معاہدہ اسلام آباد ہوا ، جویقینی طور پر ٹوٹنا تھا اور ٹوٹ گیا۔ لوگوں کی
نظر میں طاہر القادری ہار گیا، اسے شکست ہوئی ۔ عمران خان نے شکرادا کیا
مگر اپنے دل سے پوچھئے کیا واقعی طاہر القادری ہار گیا تھا۔ میری نظر میں
طاہر القادری جیت گیا ہے۔ وہ قوم کو شعور دینے آیا تھا اور اُن کی محنت کا
یہ اثر ہوا کہ ارشد فاروق سمیت پاکستان کے تمام قلم کار ، ٹی وی اینکرز سے
لے کر ٹھیلے پر کھڑے ہو کر گنے کا رس بیچنے والا بھی آج آرٹیکل 62,63کی بات
کر رہا ہے۔ اور اسکروٹنی کے اس عمل کو نرا دھوکا قرار دے رہا ہے۔ میں دعوے
سے کہتا ہوں کہ اگر طاہرالقادری اس موقع پر نہ آتے تو شاید آج ارشد فاروق
بھی اپنے کالم میں آرٹیکل 62اور 63کا حوالہ نہیں دیتے۔ ضروری نہیں کہ
الیکشن جیتنے والا ہی لیڈر کہلائے۔ لیڈر کا کام عوام کو شعور دینا ہوتاہے۔
اُنہیں سیدھا راستہ دکھانا ہوتاہے۔ عوام جان چکے ہیں کہ وہ لوگ جو الیکشن
لڑنے کے اہل ہی نہیں وہ نہ صرف اہل قرار پار ہے ہیں بلکہ وکٹری کانشان بنا
کر پوری قوم کی تضحیک بھی کر رہے ہیں تو یہ قوم کی ذمہ داری ہے کہ اپنے
حقوق کے لیے آواز اُٹھائے ۔ طاہر القادری کی آواز جو کل کوئی سننے کو تیار
نہیں تھا ۔ آج تمام ٹی وی اینکرز اور کالم نویس الیکشن کمیشن اور نگراں
حکومت کو ضعیف، کم زور اور بے بس کہہ کر ادا کر رہے ہیں ۔ لیکن سوائے چند
ایک کہ کوئی بھی دانش ور یہ کریڈٹ طاہرالقادری کو دینے کی جسارت نہیں کر
رہا کہ کہیں اُس کی انانیت یا پھر پارٹی مفادات کو ذق نہ پہنچ جائے، اور
ارشد فاروق جیسے بعض دانشور تو اُن ہی سے سنی ہوئی باتیں لکھ کر اُنہی کو
کرپٹ لیڈروں کی فہرست میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ |