نہ جذبہ نہ جنوں مہم لگتی ہے فسوں۔۔۔۔نظرآتی

 نہ جذبہ نہ جنوں مہم لگتی ہے فسوں۔۔۔۔نظرآتی ہیں ہمیں اس کی وجوہات یوں

ملک بھر میں قومی او ر صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ممبران کے چناﺅ کیلئے کہ انتخابات کا عمل جاری و ساری ہے۔ امیدوار اپنی اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کہیں سیاسی جلسے کیے جارہے ہیں تو کہیں کارنر میٹنگز کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ عوامی رابطہ مہم میں عوام سے فرداً فرداً بھی ملاقات کی جارہی ہے۔ اس مقصد کیلئے امیدوار شاپ ٹو شاپ اور ڈور ٹو ڈور جارہے ہیں۔ اپنے ووٹروں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ ووٹروں سے ووٹ دینے کی درخواستیں کی جارہی ہیں۔آئین میں انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ مین جو آئینی پراسس دیا گیا ہے۔ اسی پراسس کے مطابق انتخابات کا عمل جاری ہے۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہو چکی ہے۔ اپیلوں کا مرحلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ جلسے بھی ہیں ریلیاں بھی ہیں۔ جھنڈے بھی لہرائے جارہے ہیں۔ اشتہارات پوسٹرز، بینرز، پینافلیکس، ہورڈنگز بھی آویزاں کیے جارہے ہیں۔ الیکشن کی گہما گہمی نظر آنے اور انتخابات کا ماحول بننے کیلئے جو عوامل درکار ہوتے ہیں وہ سب کے سب موجود ہیں۔ ان عوامل میں سے کسی کی بھی کمی نہیں ہے۔ اس کے باوجود نہ جانے کیا بات ہے کہ اس سال الیکشن کی وہ گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی ہے جو گہما گہمی سابقہ انتخابات میں دکھائی دیتی رہی ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے دنوں میں جون خاص کیفیت دکھائی دیتی تھی وہ اب دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھنے کی کوشش کریں کہ کسی گھر میں شادی کا فنکشن ہو رہا ہو۔ اس میں دولہا بھی اپنے مخصوص لبا س میں موجود ہو۔ مہمان بھی بڑی تعداد میں آئے ہوئے ہوں۔ ہرایک نیا اور ایک دوسرے سے جدا رنگ کے نئے نئے ملبوس بھی زیب تن کیے ہوئے ہو۔ ڈھول باجا بھی ہو ۔ اس سب کچھ کے باوجود شادی کے مواقع پر جو مسرت دکھائی دیتی ہے وہ دکھائی نہ دے رہی ہو۔ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نظر نہ آرہی ہو۔ ہر کوئی اپنی اپنی سوچوں میں گم ہو۔ دولہا کی طرف اور ڈھول کی طرف کسی کی توجہ نہ ہو۔ اس کو کہتے ہیں کہ شادی ہے۔ اس کے انعقاد کے تمام عوامل بھی موجود ہیں ۔تاہم شادی کا ماحول نہیں ہے۔ اسی طرح انتخابات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں جو عوامل درکار ہوا کرتے ہیں وہ سب کے سب پائے جاتے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود انتخابات کا ماحول نہیں نظر آرہا ہے۔ انتخابات مین جو گہما گہمی دکھائی دی جانی چاہیے تھی وہ کیوں نظر نہیں آرہی۔ اس کی کیا وجوہات ہیں۔ وہ کون کون سے عوامل ہین جن کی وجہ سے انتخابات کا ماحول نہیں بن رہا ہے۔ اس کی سب سے پہلی اور بڑی وجہ سیکیورٹی خدشات ہیں۔ خفیہ ادارے مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ انتخابی جلسوں پر دہشت گردوں کے حملے ہو سکتے ہیں۔ اسن سال الیکشن کے انعقاد کے سلسلہ میں جب بھی سرکاری اداروں میں انتظامات کے سلسلہ میں اجلاس ہوئے تو سیاسی جلسوں اور امیدواروں کی سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دی گئی ۔ انتخابی ضابطہ اخلاق ترتیب دیتے ہوئے بھی سیکیورٹی کو خاص اہمیت دی گئی۔ انہی خدشات کے پیش نظر ایک شہر میں ایک وقت میں ایک سیاسی پارٹی یا ایک امیدوار جلسہ کر سکتا ہے۔ اس لیے ایک شہر میں ایک وقت میں ایک سے زیادہ جلسے منعقد نہیں کیے جاسکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیاں اور امیدوار جہاں چاہیں اسی جگہ بھی جلسہ نہیں کر سکتے۔ اس مقصد کیلئے تمام شہروں میں سیاسی جلسوں کے انعقاد کیلئے مقامات مختص کر دیے گئے ہیں۔ صرف انہی مقامات پر ہی جلسے کیے جاسکتے ہیں۔ ان مقرر کردہ مقامات کے علاوہ کسی بھی جگہ سیاسی جلسہ منعقد نہیں کیا جاسکتا۔ سابقہ تمام انتخابات میں تو یہ ہوتا تھا کہ ایک محلہ میں مسلم لیگ (ن)کا جلسہ ہو رہا ہے تو کسی اور محلہ میں پیپلزپارٹی کا جلسہ منعقد کیا جارہا ہے۔ تیسرے محلہ میں مسلم لیگ (ق) اپنی سیاسی پاور کا مظاہرہ کررہی ہے۔ کسی اور محلہ میں کوئی اورسیاسی جماعت عوام کا سیاسی اجتماع کیے ہوئے ہے۔ اس سال ایسا نہیں ہے۔سیکورٹی کے یہ خدشات سچ ثابت ہورہے ہیں کہ الیکشن مہم کے جلسوں پر حملے ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے صوبہ خیبر پختون خوا میں پبلک مقامات پر سیاسی جلسہ کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سابقہ تمام انتخابات میں اشتہارات کی بھر مار ہوتی تھی۔ بڑے بڑے بینرز لگائے جاتے تھے۔ بڑے بڑے اشتہار بھی چسپاں کیے جاتے تھے۔بڑے بڑے جھنڈے لہرائے جاتے تھے۔ اس سال اس الیکشن میں بینرز بھی ہیں ، پوسٹرز بھی ہیں، اشتہارات بھی ہیں، ہورڈنگز بھی ہیں، جھنڈے بھی ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کچھ بھی نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ یہی الیکشن کی گہما گہمی نہ ہونے کی دوسری وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بینرز، اشتہارات، پینافلیکس، پوسٹرز، ہورڈنگز کا سائز مقرر کر دیا گیا ہے کہ مقرر کردہ سائز سے بڑا ایڈورٹائزنگ کا کوئی بھی آئٹم شائع نہیں کرایا جاسکتا۔ پرنٹنگ پریس کے مالکان کو بھی اس کی پابندی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔اس لیے اس مرتبہ امیدواروں کی تشہیری مہم دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کسی مذہبی جلسہ کی ایڈورٹائزنگ کی جارہی ہو۔ انتخابات میں گہما گہمی کم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت بڑی سیاسی جماعتوں میں اندرونی اختلافات سب سے زیادہ ہیں۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کوجب ان پر سیاسی طور پر مشکل وقت تھا چھوڑ دیگر سیاسی جماعتوں میں شامل ہوگئے تھے ۔ اور انہوں نے اقتدار کے مزے اڑائے ۔ ان میں سے اکثر سیاستدان اپنی جماعتوں میں واپس آگئے ۔ جس سے ان جماعتوں کے مقامی کارکن خوش نہیں ہیں۔ اس سے ان پارٹیوں کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو سیاستدان اپنے آپ کو جن سے وہ وابستہ تھے ان پارٹیوں کی طرف سے خود کو امیدوار بتا تے رہے ۔ کہ وہ اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔ انہوں نے محنت بھی کی اخراجات بھی کیے۔ جس وقت مرکزی قیادت کی طرف سے امیدواروں کی نامزدگی اور ٹکٹ جاری کرنے کا مرحلہ آیا ۔ تو ان کے سارے خواب ملیا میٹ ہوگئے۔ ان کے سارے ارمان خاک میں مل گئے۔ جن سیاستدانوں نے جن سیاسی پارٹیوں سے وہ وابستہ تھے متعارف بھی کراتے رہے۔ اخراجات بھی برداشت کرتے رہے۔ امیدواروں کی نامزدگی اور ٹکٹوں کی سپردگی کے وقت وہ مایوس ہو گئے۔ ان پارٹیوں نے ٹکٹ ان سیاستدانوں کو دےدیے جو مشکل وقت میں ان کو چھوڑ کر دوسری سیاسی پارٹیوں میں شامل ہو کر اقتدار کے مزے اڑاتے رہے۔ جن سیاسی پارٹیوں میں وہ شامل ہوئے تھے ان کے ان انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے کے امکانات کم ہو گئے تو وہ جن سیاسی پارٹیوں کو چھوڑ کر گئے تھے ۔ ان میں واپس آگئے۔ بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے مرکزی قائدین نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ ان کو ہی جاری کر دیے۔ اورجو سیاستدان اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں سے وفاداری کرنے کی وجہ سے ٹکٹ ملنے کی امید لیے ہوئے تھے۔ وہ آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ اس گہما گہمی کے نہ ہونے کی تیسری وجہ دوسری وجہ سے ملتی جلتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دوسری وجہ کا تسلسل ہے تو یہ بھی غلط نہ ہوگا۔ قومی اسمبلی کے امیدوار صوبائی اسمبلی کے جن امیدواروں کے ساتھ مل کر اپنا پینل بنا نا چاہتے تھے ۔ وہ مرکزی قیادت کے فیصلوں کی وجہ سے نہیں بنا سکے۔ ان کی دلچسپی کسی اور کے ساتھ تھی مرکزی قیادت نے ٹکٹ کسی اور کو دے دیا۔ ہم نے اپنے شہر کے حلقہ میں ایک ایسا پینل بھی دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنی عوامی رابطہ مہم کا آغاز تو ایک ساتھ کیا ۔ ان کے علاوہ جو پینل بھی بنے ہیں ان کی تصویریں ایک ساتھ ہیں۔ ایک طرف قومی اسمبلی کے امیدوار کی تصویر ہے تو دوسری طرف صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی تصویر ہے ۔ جس پینل کا ہم ذکر کرہے ہیں اس پینل کے دونوں امیداروں کے الگ الگ اشتہار اور پوسٹر چسپاں کیے جا رہے ہیں دونوں امیدواروں کی تصویریں کسی ایک پوسٹر پر ہم نے نہیں دیکھیں۔ اس انتخابی مہم میں جوش وخروش مدہم ہونے کی چوتھی وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ تمام سیاسی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹکٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کی نامزدگی کے سلسلہ میں مرکزی قیادت کی طرف سے مقامی سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں پر فیصلے ٹھونسے گئے ہیں۔ اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹوں کوپڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے ٹکٹ جاری کرتے وقت اور امیدواروں کو نامزد کرتے وقت ضلعی اور تحصیل سطح کے اپنے عہدیداروںاور کارکنوں کی آراء،تجاویز اور مشوروں کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کو جمہوری رنگ دے کر دکھانے کی کوشش کی۔ اس مقصد کیلئے پارٹیوں کے اجلاس بھی کیے گئے۔ کئی کئی روز تک مشاورت ہوتی رہی کہ کس حلقہ کا ٹکٹ کس کو دیا جائے۔ تما م سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے پہلی روایات کی طرح ٹکٹ تو اپنی ہی مرضی کے مطابق تقسیم کرنا تھے ۔ یہ اجلاس اس لیے بلائے گئے تاکہ یہ کہا جا سکے کہ ہمارے ہاں آمریت نہیں جمہوریت ہے کہ ہم ہر فیصلہ جمہوری انداز میں کرتے ہیں ہم نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ اپنے کارکنوں سے مشاورت کے بعد ہی جاری کیے ہیں۔ حالانکہ یہ صرف دکھا وا تھا ۔عملاً سیاسی قائدین نے سول آمریت کا ہی مظاہرہ کیا ہے ۔ٹکٹوں کی تقسیم کس طرح ہوئی ۔ اس میں ضلعی اور تحصیل سطح کے کارکنوں کی آراءکو کیا اہمیت دی گئی کہ اس کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ جس وقت ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے سیاسی جماعتوں کے اجلاس ہو رہے تھے۔ اس وقت ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف احتجاج بھی ہو رہے تھے۔ سیاسی کارکنوں نے سڑکیں بلاک کیں ٹائر جلائے۔ ایک خاتون امیدوار نے خود کشی کرنے کی بھی کوشش کی۔ کچھ امیدوار بجلی کے کھمبوں پر چڑھ گئے۔ پہلے سیاسی کارکن مخالف سیاسی پارٹی کے خلاف احتجاج کیا کرتے تھے۔ اب وہ اپنی ہی قیادت کے خلاف ایسا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ایسے اکثر سیاستدان جو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے تھے ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اب وہ آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹکٹ سے محروم سیاستدانوں نے اتحاد بھی بنا لیے ہیں۔ ان اتحادوں سے وابستہ سیاستدان آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔ ایسا ہی ایک اتحاد ہمارے ضلع میں بھی بنا ہے۔ اس اتحاد کو ایک ہی انتخابی نشان دیا گیا ہے۔ جبکہ کچھ سیاستدان جو اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میںشامل ہوئے تھے کہ ان سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ اب وہ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی چھوڑی ہوئی پارٹیوں میں واپس آگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے سیاستدان بھی ہیں جنہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کے سلسلہ میں اپنی پارٹی کی قیادت کے فیصلوں کو تسلیم کر لیا ہے انہوں نے نہ تو پارٹی چھوڑی ہے اور نہ ہی وہ آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ انتخابی مہم کی گہما گہمی مدہم ہونے کی پانچویں وجہ یہ ہے کہ انتخابی عمل کے اپنے مقررہ آئینی فارمیٹ کے مطابق جاری رہنے کے باوجود بے یقینی کی فضا برقرار ہے۔ یہ بے یقینی کی فضا اس وقت سے پائی جاتی ہے جس وقت کہا جارہا تھا کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے۔ حکومت اپنی مدت میں ایک سال کی توسیع کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ا نتخابات سے فرار کے راستے تلاش کیے جارہے ہیں۔ انتخابی مہم کا با قاعدہ آغاز ہوچکا ہے ۔ پہلے تو انتخابات کا عمل شروع ہونے سے پہلے یا یہ عمل شرو ع ہوتے ہی مستقبل کی تصویر سامنے آجاتی تھی ۔ اب پولنگ ڈے بھی قریب ہے اور مستقبل کا منظر نامہ بھی غیر واضح ہے ۔ بے یقینی کی فضاپھیلانے میں سیاستدان ہی پیش پیش رہے ہیں۔ طاہرالقادری نے بھی کہا ہوا ہے کہ قوم کی طرح مجھے بھی انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اس طرح کے خدشات کااظہار نواز شریف اور دیگر سیاستدان بھی کر چکے ہیں۔ اب ووٹر بھی تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے جس سے پوچھا جاتا تھا کہ بھائی ووٹ کس کو دے رہے ہو تو وہ بتا دیتا تھا کہ وہ کس امیدوار کو ووٹ دے رہا ہے۔ اب جس سے بھی کہا جائے کہ بھائی ووٹ کس امیدوار کو دینے کا ارادہ ہے تو وہ کہتا ہے کہ جس کو دینا ہوگا دے دیں گے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے اس بارے ابھی سوچا ہی نہیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو سیاسی جلسوں شریک بھی ہورہے ہیں۔ ان کی ریلیوں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ تشہیری مہم میں بھی معاونت کررہے ہیں۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ووٹ بھی ان امیدواروں کو ہی دیں گے جن کی انتخابی مہم میں وہ شامل ہیں۔ جبکہ اکثریت ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر پارہی کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔ یوں تو ووٹ دینے کا فیصلہ پولنگ کی رات کو بھی اور پولنگ کی صبح کو بھی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ بات اٹل ہے کہ ان انتخابات میں عوام کو یہ فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں۔ الیکشن مہم ماند ہونے کی چھٹی وجہ یہ ہے کہ آج کل گندم کی کٹائی گہائی کا سیزن ہے۔ میدانی علاقوں کے عوام اسی میں مصروف ہے۔ ان دنوں میںعوام اپنے اور بہت سے کام چھوڑ کر گندم کی کٹائی کرتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنے بچوں کی خوراک کیلئے گندم ذخیرہ کرسکیں کہ اگر گھر میں گندم اور آٹا موجود ہوتوروٹی پکا کر روکھی کھا کر بھی پیٹ پوجا کی جاسکتی ہے۔ گھر میںسالن نہ بھی پکایا جاسکے ۔ نمک سے ، چٹنی سے، دودھ سے اورکچے پیاز سے بھی روٹی کھا لی جاتی ہے۔ اس مہم میں جوش وخروش کم ہونے کہ ساتویں وجہ یہ ہے کہ عوام چاہے وہ گندم کاٹنے میں مصروف ہے چاہے وہ کوئی اور کام کررہی ہے اس کو اب اس انتخابی مہم میںدلچسپی بھی نہیں رہی۔ عوام کی اس طرف توجہ بہت کم ہے۔ اس کی آٹھویں وجہ ساتویں وجہ سے ملتی جلتی ہے بلکہ سچ پوچھیے تو آٹھویں وجہ ساتویں وجہ کاتسلسل ہی ہے ۔ کہ عوام چاہے گندم کی کٹائی میں مصروف ہے چاہے وہ کاروبار کرہی ہے چاہے وہ مزدوری کر رہی ہے اس مہنگائی کے دور میں اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اس بارے سوچ سکے یا انتخابی مہم میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ اس کو تو اپنے گھر کے اخراجات کی فکر نے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ انتخابی مہم میں جانے سے اس کے گھر کا چولھا نہیں جلے گا۔ اس لیے وہ اپنی محنت مزدوری کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ اس کے چہرے سے تمکنت اور اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ بھی غائب ہوچکی ہے۔ انتخابی مہم کی گہما گہمی کمزور ہونے کی نویں وجہ یہ نظر آتی ہے کہ پہلے انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے ساتھ ہی یا اس سے پہلے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا تھا جس سے عوام کی توجہ انتخابات کی طرف ہوجاتی تھی۔ ردعمل میں عوام انتخابی مہم میں شامل ہو جاتی تھی۔ سابقہ انتخابات میں رد عمل کا ووٹ زیادہ ہوتا تھا اور یہی ووٹ کسی کی ہار یا جیت کا فیصلہ کیا کرتا تھا۔ ان انتخابات میں رد عمل کا ووٹ نہیں ہے۔ اس سال تو ہار جیت کا فیصلہ تو الگ رہا ۔ ووٹ کس کو دیا جائے اور کس کو نہیں یہ فیصلہ بھی عوام سے نہیں ہو پارہا ہے۔ الیکشن مہم مدہم ہونے کی دسویں وجہ یہ ہے کہ عوام تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کوبار بار آزما چکے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا کوئی بھی رکن اسمبلی عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترسکا۔ اس الیکشن میں جو نئی سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ وہ جماعتیں تو نئی ہیں ان میںشامل سیاستدان تو پرانے ہی ہیں۔ اوران کو پہلے ہی بار بار آزمایا جا چکا ہے۔ اس لیے عوام کو ان سیاسی جماعتوں ، سیاستدانوں اور امیدواروں پر اعتماد ہی نہیں رہا۔ اس سے یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ عوام ووٹ ہی نہیں دیں گے۔ اگر چہ عوام کو ووٹ دینے سے روکنے کی مہم بھی جاری ہے ۔ عوام سے ووٹ نہ دینے کا کہا جارہا ہے کہ سارے ہی چور ہیں۔ مان لیا کہ قابل اعتماد سیاستدان یا امیدوار کوئی نہیں ہے۔ ایک گھر کوچلانے کیلئے بھی سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سربراہ کے بغیر گھر کا نظام بھی نہیں چلایا جاسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی ادارہ ،کسی بھی محکمہ، کسی بھی تنظیم ،کسی بھی جماعت، کسی بھی پارٹی ، کسی بھی تحریک اور کسی بھی مہم کو چلانے کیلئے بھی کسی نہ کسی سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سربراہ کے بغیر ان میں سے کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب ایک گھر کا نظام کسی سربراہ کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا ۔ تو ایک ملک کا نظام کسی سربراہ کے بغیر کس طرح چلایا جا سکتا ہے۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ ووٹ کسی کو بھی نہ دو سب چور ہیں۔ اب ملک کا نظام چلانے کیلئے سربراہ کا چناﺅ بھی تو کرنا ہے۔ عوام اس طرح چناﺅ نہیں کریں گے تو کوئی اور آجائے گا۔ اس لیے عوام کو ووٹ دینا ہوگا۔ چاہے وہ جس کو چاہے دے۔ کسی بھی مجبوری کی وجہ سے ووٹ نہ دے سکیں تو یہ الگ بات ہے۔ ہاں اپنے اپنے حلقہ میں امیدواروں کا موازنہ کر لیا جائے کہ ان میں سے کون سا امیدوار بہتر ہے پھر اسی کو ووٹ دے دیں۔ ان سیاسی جماعتوں، سیاستدانوں میں جہاں خامیاں ہوتی ہیں وہاں ان میں خوبیاں بھی ہوتی ہے۔ ان میں پائی جانے والی خوبیوں کا بھی موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ ایساامیدوار تو نہیں مل سکتا ۔ جس میں کوئی خامی نہ ہو۔ موجودہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے ووٹ دو، دو سے زیادہ حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ اس لیے جیتنے والا امیدوار تھوڑے تناسب سے ہی جیتے گا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندے بھیجنے کا اختیار اب عوام کے پاس ہے ۔ اب وہ سوچ سمجھ کر سیاسی ، ذاتی، برادری تعلقات کو بالائے طاق رکھ کر جس کو چاہیں ووٹ دیں۔ اگر عوام نے ایسے امیدوار کو ووٹ دیا جو زمینوں پر قبضے کراتا رہا ہو۔ ووٹ نہ دینے کی پاداش میں دور درازکے علاقوں میں تبادلے کرادیتا ہو۔ جو منتخب ہونے کے بعد عوام سے رابطہ میں نہ رہتا ہو۔ جس کے ظلم کی داستانیں عام ہوں۔ جو ہنستے بستے گھر اجاڑدیتا ہو یا اس میں کسی بھی حوالے سے معانت کرتا ہو۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عوام تبدیلی نہیں چاہتے ۔ اور عوام نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آزادانہ نہیں محکومانہ زندگی گزارنی ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 304702 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.