انتخابی ماحول مساوی کیوں نہیں؟

 کراچی کی عوام اس قدر خوف زدہ ہوچکی ہے کہ کراچی بے امنی پر چہ میگوئیاں کرنے سے بھی پرہیز کرنے لگے ہیں ۔ کراچی میں انتخابی دہشت گردی حملوں کا ایک نیا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے ۔کراچی میں جرائم کے انبار میں سینکڑوں جانوں کے جانے پر حکمرانوں کے کان پر جوں نہیں رینگی تو عوام اپنی مدد آپ کے تحت خود حفاظتی انتظامات کرنے سے بھی اس لئے پس و پش سے کام لیتی رہی کیونکہ خوف دامن گیر رہا کہ وہ کھل کر جرائم پیشہ افراد کی نظروں میں آجائیں گے اور یہ ایک ایسی کھلی جنگ ہوگی جس میں ان کی مدد کےلئے حکومت کی جانب سے کوئی مدد فراہم نہیں کی جاسکے گی ۔کراچی میں بدامنی کی سنگین صورتحال کا تصور کیاجا سکتا ہے کہ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں کیونکہپولیس کا کردار سیاسی مداخلت کی وجہ سے مکمل ختم ہوچکا ہے ۔کچھ ماہ پہلے حساس اداروں کیجانب سے کراچی میں بنک ڈکیتوں کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا آج اس کے نتائجہمارے سامنے آرہے ہیں ۔ گرفتار ہونے والے بنک ڈکیتوں نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ کراچی میں دہشت گردی کے منصوبوں کےلئے رقوم کا حصول بنک ڈکیتی کی جارہی ہیں ۔ کراچی کے مختلف علاقے جرائم پیشہ گروپس نے باہمی اتفاق کے ساتھ تقسیم کرلئے ہیں اور کوئی گروپ کسی دوسرے گروپ کے کام میں مداخلت نہیں کرتا ۔یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے درمیان کراچی میں عمومی طور پر آئے دن جنگ کا سماں ہواکرتا تھا جو اب صرف ٹارگٹ کلنگ کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ اب کریکر دہماکوں کے بعد پلانٹڈ دہماکے کئے جانے لگے ہیں جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہوجاتی ہے ۔ پہلے ان واقعات کی براہ راست ذمے داری کراچی کی بعض سیاسی جماعتوں کے سر پر ڈل دی جاتی تھی اور انتظامیہ ہمیشہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیا کرتی تھی کہ جرائم پیشہ گروہ کو سیاسی جماعتوں کا آشیر باد حاصل ہے جس کی وجہ سے پولیس سخت کاروائی نہیں کرسکتی ۔کراچی میں بے امنی سے پریشان تاجر برادری کے صبر کا پیمانہ بھی اس قدر لبریز ہوچکا ہے کہ پریس کانفرنس میں تاجروں نے براہ راست پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جرائم پیشہ افراد کو اگر صبح گرفتار کیاجاتا ہے تو شام تک کسی با اثر شخصیت کے کہنے پر انھیں چھوڑدیا جاتا ہے۔خود سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ عدالتیں گرفتار ملزمان کو ضمانت پر رہا کردیتی ہیں جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں ۔ عدالتیں کسی کو ما ورائے آئین ضمانت پر رہا نہیںکرتی ہے۔ اگر واقعات کے مدعی مقدمات میں عدم تحفظ کی بنا ءپر کیسوں کی عدم پیروی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ خود انتظامیہ کا کردار ہے جو مدعی اور گواہان کو سیکورٹی فراہم نہیں کرتا اور صرف ایک پیشی پر ملنے والی دہمکی کے بعد مدعی یا چشم دید گواہ کا اپنے بیان سے منحرف ہوجانا یا عدم پیروی کرنا معمول بن چکا ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی بد امنی کے حوالے سے پہلے ہی سندھ کو ناکام قرار دیا جاچکا ہے ۔ ایک طرف بلوچستان حکومت کو عدلیہ نے نالائقی کا صداقت نامہ دیا ہے تو دوسری جانب کراچی بدامنی کیس میں حکومت سندھ پہلے ہی نا اہل قرار دی جا چکی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کیجانب سے کراچی بدامنی پر ایک دوسرے کے خلاف تنقید فیشن اور میڈیا میں ریٹنگ بڑھانے کا درجہ اختیار کرچکی ہے ۔ جبکہ اصل وجہ انتظامی کمزوری اور پولیس کیجانب سے اپنے اختیارات کا کماحقہ استعمال نہ کرنا ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی بد امنی پر کسی مخصوص جماعت یا فرد کے خلاف کاروائی بھی کراچی میں قتل و غارت اور بدامنی کا خاتمہ نہیں کرسکتی ۔ کراچی میں بدامنی کا واحد حل سیاسی اثرات و عمل دخل سے پاک کیمونٹی پولیس کا قیام ہے۔کراچی شہر مختلف النسل قوم کا ایک مجموعہ ہے ۔ خود ایڈوکیٹ جنرل اس بات کا اقرار کر چکے ہیںکہ کراچی میں بیس لاکھ سے زیادہ جرائم پیشہ افراد سیلاب کی شکل میں داخل ہوچکے ہےں ۔ جب صورتحال اس قدر اندوہناک ہو ، پولیس بے اختیار ہو ، سیاسی مداخلت وطیرہ ہو ، تو پھر کراچی میں امن کا خواب ہزار بار دیکھ لیں امن نہیں آسکتا ۔ان حالات میں جب کراچی گذر رہا ہو تو بھلا کسی بھی جماعت کےلئے اطمینان خیز ریلی نکالنا یا جلسے کرنے کیسے ممکن ہوسکتا ہے ، پشاور کے بعد اب کراچی میںاب ایم کیو ایم کو براہ راست ہدف کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، پختو نخوا میں امن مخصوص جماعتوں کے لئے ہے ، بلوچستان تو پہلے ہی انتخابی مراحل کے منظر نامے سے غائب ہے ، اب کراچی میں جس طرح انتخابی مراحل میں روکاٹیں پیدا کیں جا رہی ہیں اور صرف پنجاب میں امن ہے تو عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ انتخاب کا عمل سب کے لئے مساوی کیوں نہیں ہے ؟ پنجاب میں اللہ نہ کرے کہ ایسے واقعات ہوں ، لیکن جس طرح پہاڑوں سے لیکر کراچی تک بے امنی ، دہشت گردی ، انتہا پسندی ہے تو پنجاب میں ایسی کون سی قوت ہے کہ جو پاکستان میں مکمل امن صرف پنجاب کی حد تک محدود رکھنا چاہتی ہے ۔ اے این پی ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کو ہٹ لسٹ پر رکھنے کا کیا مقصد ہے ۔ اگر انھیں زبردستی الیکشن سے باہر رکھنا مقصود ہے تو عوام ایسی بے وقوف نہیں ہے کہ ملک دشمن عناصر کی ان سازشوں کو سمجھ نہ سکے ۔ مسلم لیگ ،جمعیت علما اسلام ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو کلیئرنس صداقت نامے جاری کرکے پاکستان کے خلاف سوچی سمجھی سازش کی جا رہی ہے ، ان جماعتوں کی پچھلے سالوں میں جو بھی کارکردگی رہی ہے ، انھیں اسی کی بنیاد پر عوام کی عدالت میں جانے دیا جائے ۔جو قوتیں ان جماعتوں کو الیکشن ماحول سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں ان کے مقاصد بالکل صاف ہیں کہ وہ ایسی قوتوں کو سامنے لانا چاہتے ہیں جو امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد ،بننے والی حکومت کے قریب تر ہو ، اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ مخالف قوتوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسمبلیوں میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، سیکولر اور لبرل کہلائے جانے ولے جماعتوں کو ان کے مینڈیٹ کے برخلاف روکنا اب کھلی سازش کے طور پر سامنے آچکی ہے۔اب تک انتخابی مہم کے دوران 42افراد سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں ، اور تمام نگراں حکومتیں بھی امن قائم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں ۔یقینی طور پر اب اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہی کہ مخصوص جماعتوں سے بائیکاٹ کی آرزو رکھنے والے جماعتوں کی جانب سے" خواب" دیکھنے کے عمل میں کراچی میں موجودہ دہشت گردی کے عناصر کار فرما نظر آسکتے ہیں اورعوام پوچھنے میں بھی برحق ہیں کہ انتخابی ماحول مساوی کیوں نہیں؟۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744136 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.