آسان الیکشن کا کامیاب نسخہ

ایک خبر کے مطابق پاکستان کے قبائیلی علاقوں، کوئٹہ اور کراچی کے کچھ حصوں میں الیکشن کے مسائل پیش آرہے ہیں ۔ امید واروں کو خطرہ ہے کہ ان کے ووٹراور سپوٹر دہشت گردی کا نشانہ بن سکتے ہیں او ر خود امیدواروں کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ ان علاقوں میں جلسے جلوس یا پھر کا رنر میٹنگ کر کے اپنے ووٹروں کے سامنے اپنے منشور رکھیں ۔

ووٹروں سے رابطہ، جلسے جلوس اور منشور ایک رسمی بات ہے جسکے ذریعے امیدوار ووٹروں پر دھاک بٹھاتے اور اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ان کے ایجنٹ اور گماشتے لوگوں کو جبری ان جلسے جلوسوں میں شامل کرتے ہیں اور امیدواروں سے جو مستقبل کے وزیرمشیر ہوتے ہیں سے داد وصول کرتے ہیں ۔ ان جلسوں جلوسوں میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اوّل مزدور ، مزارے اور پیروں ، فقیروں ، گدی نشینوں اور مخدوموں کے مرید ۔ دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جنکا تعلق امیدوار کی برادری سے ہوتا ہے۔ جلسے جلوس اور میٹنگ وغیرہ میں نہ جانے سے خاندانوں اور برادریوں کے اندر اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں ، رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، کاروبار اور گھر تباہ ہوجاتے ہیں اور نوبت قتل اور اغواءتک جا پہنچتی ہے۔ تیسری قسم پارٹی ورکر وں اور نظریا تی ووٹروں کی ہوتی ہے جنکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔

قبائلی علاقوں کا نام ہی قبائلی ہے ورنہ سارا پاکستان ہی قبائلی علاقہ ہے۔لوگ بردریوں ، قبیلوں ، فر قوں ، لسانی طبقوں اور علاقائی رسموں میںبٹے ہوئے ہیں اور مجبوراً ووٹ دیکر غنڈہ عناصر اور جبرکا دوسرا نام ہے جسکی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ پاکستان اور ملحقہ علاقے جنھیں آذاد کشمیر کہا جا تا ہے میں ہر انتخابی حلقہ ایک الگ حکومت اور ریاست ہے۔ جمہوری جبر کی صورت میں ممبر قومی و صوبائی اسمبلی ، سنیٹر اور ممبرقانون ساز اسمبلی حلقے کا بادشاہ ہوتا ہے۔ پٹواری ان کی مرضی سے زمینوں کے ریکارڈ بدل کر ما لک کو مزارعہ اور مزارعے کو مالک بنادیتے ہیں۔ سوسالہ ریکارڈ غائب کر دیتے ہیں اور زمین کی ہیت بدل کر لوگوں کو سیاستدان کے قدموں پر جھلکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ تھانےدار اور عدالتی کارندے شریف خاندانوں اور افراد پر ایسے ایسے مقدمے قائم کرتے ہیں کہ عدالتیں اور جج بھی سزا دینے کے علاوہ مظلوم کی فریاد سننے کو تیار نہیں ہوتے۔اعلیٰ عدلیہ میں اپنی مرضی کے جج تعینات کروائے جاتے ہیں جو ماتحت عدلیہ کو بھی کنٹرول کرتے ہیں اور سیاستدانوں کی ہر خواہش کی تکمیل کے لیے معاون اور مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ پولیس اور ضلعی انتظامیہ جن میں کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار وغیرہ شامل ہیں ہمہ وقت سیاستدانوں کی ٹیلیفون کالز کے منتظر رہتے ہیں ۔ قتل جیسے مقدمات کی ایف آئی آر سیاستدانوں یا پھر ان کے ایجنٹوں سے پوچھ کر درج کی جاتی ہیں اور ان کی مرضی کے مطابق ہی تفتیش اور فیصلے سنائے جاتے ہیں ۔پاکستان اور آذاد کشمیر میں زندہ رہنے کے لیے سیاستدانوں ، سیاسی گھرانوں اور ان کے ایجنٹوں کی غلامی ضروری ہے ۔ آجکل پاکستان میں الیکشن کا غوغہ ہے مگر سب کو پتہ ہے کہ این آر او کے تحت کس کس جماعت نے بند ربانٹ کرنی ہے اور بچے کچے خزانے اور وسائل کو کس طرح لوٹنا ہے۔ آنے والوں نے جانے والوں کو ایگزٹ روٹ فراہم کرنا ہے اور ان کا کھایا پیا قومی مفاد میں ہضم کروانا ہے۔ اب یہ بھی طے ہے کہ کوئی سیاسی حکومت کسی دوسرے سیاستدان کے جرائم اور کرپشن کو نہ چھیڑے گی اور حکومت اور اپوزیشن ملکر کھاﺅ اور مٹی پاﺅ فارمولے پر کام چلائیں گی۔

پاکستان میں الیکشن کمیشن کا ریکارڈ اور فہرستیں کبھی درست نہیں ہوتیں مگر برادریوں کی لسٹیں اور فرقوں کے رجسٹرہمیشہ اپ ٹوڈیٹ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں شمال سے شروع کریں تو شمالی علاقوں میں شیعہ ، سنی ، نور بخشی اور اسماعیلی فرقوں کے سبھی افراد رجسٹرڈ ہیں اور ہر فرقے کے پاس موت ، پیدائش ، زن و مرد کا ریکارڈ موجود ہے۔ انتخابات ہوں یا انتشار ہر شخص کو اپنے قائد اور لیڈر کے حکم کے مطابق حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ اسماعیلیہ فرقے کے لوگ دنیا میں جہاں بھی ہیں اور جس حال میں ہیں ان کے قائدین کو سب کی خبر ہے۔ اسماعیلیہ یعنی آغا خان فاﺅڈیشن دنیا کی چند ایسی ویلفیئر سوسائیٹیوں میں شمار ہوتی ہے جو اپنے ہم عقیدہ لوگوں کی پیدائش سے لیکر موت تک خیال رکھتی ہے اور ہر طرح کی مدد اور دیکھ بھال بھی کرتی ہے۔ شمالی علاقوں میں جلسے جلوس نمائیشی ہیں اصل بات لیڈر کا حکم ہے اور عوام اس حکم کی تعمیل میں ووٹ ڈالتے ہیں۔

پاکستان میں شیخ ، اعوان ، قریشی ، ہاشمی ، گجر ، سیّد اور سدھن (سدوزائی)اقوام بھی رجسٹر ڈہیں اور ان کی تنظیموں کے دفاتر میں انکا ریکاڈ اپ ٹوڈیٹ رکھا جاتا ہے۔ لاہور میں اعوان سوسائیٹی اور پشاور میں امین کالونی میں اعوانوں اور اسماعیلیہ قبیلے اور فرقے کے علاوہ کو ئی دوسرا قبیلہ فرقہ رہائیش پذیر نہیں ہوسکتا۔ جس ملک میں قبیلے ، برادریاں اور فرقے رجسٹرڈ ہوں اور ایک حکم ، عصبیت اور ڈسپلن کے پا بند ہوں وہاں الیکشن پر اخراجات کا ڈھونگ سمجھ نہیں آتا۔ سندھ میں گدی نشین پیر ، مخدوم ،جاگیر دار ، نواب ،وڈیرے ایک طبقہ ہیں اور بہت سوں کی باہم رشتہ داریاں بھی ہیں ۔ اندرون سندھ دوسرا طبقہ مزارعین ، مریدین اور ہاریوں کا ہے۔ یہ لوگ طبقے کے جدی پشتی غلام اور رجسٹرڈ ووٹر ہیں جو بڑے سائیں کی کسی صورت حکم عدولی نہیں کر سکتے ۔ سندھ کے شہر وں میں ایم کیوایم اور اے این پی کے علاوہ جماعت اسلامی اور سنی اتحاد بھی سرگرم عمل ہے مگر اصل قوت ایم کیو ایم اور اے این پی کے پاس ہے۔

دونوں بڑی قوتوں کے ووٹر رجسٹرڈ اور حکم کے تابع ہیں اور اس حکم کی بجا آوری میں ان کی زندگی ، کاروبار ، عزت وآبرو کی ضما نت ہے۔بلوچستان پہلے سے تین حصوں میں تقسیم ہے۔ ساراوان اور جھالا وان کے نوابین اور سرداروں کا اثرکسی صورت ختم نہیں ہو سکتا اور سیاسی جماعتیں ان ہی کی مرضی کے امیدوار میدان میں اتارتی ہیں ۔ پشتون ایریا میں صرف پشتون ہی جیت کر آتا چائے اسکا تعلق پختون خواہ ملی پارٹی سے ہویا جمعیت علماءاسلام سے، پختون بلٹ میں کوئی بلوچ آباد نہیںہو سکتا اور نہ بلوچ علاقوں سے پشتون امیدوار سامنے آتا ہے۔ پنجاب میں رجسٹرڈ برادریوں کے علاوہ کاروباری طبقے ، پیر، مخدوم ، جاگیردار اور ریٹائیرڈ بیوروکریٹ سیاسی وزن رکھتے ہیں۔ خیبر پی کے میں رجسٹرڈ برادریوں کے علاوہ تقریباً آدھی افغان آبادی نے ووٹر لسٹوں میں نام درج کروارکھا ہے اور انہیں مختلف قبائل اور سیاسی پارٹیوں کی حمائت حاصل ہے۔ دستو خیل، ہزار بُنر اور مہمند قبائل نے پاکستانی شہریت اور نادرہ کے کارڈ بھی بنوارکھے ہیں ۔ ان قبائل پر جناب شیرپاﺅ کی وزارت داخلہ مہربان رہی اور وطن عزیز کو لاکھوں نئے پاکستانی عطا کردئیے۔ آذادکشمیر میں ہونے والے انتخابات اور پیپلز پارٹی کی کامیابی کا سہرا جناب قمر زمان کا ہرہ اور منظور وٹو کے سر ہے۔ آذادکشمیر کے لوگ کا ہرہ پلان اور وٹو ایکشن کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ آذاد کشمیر کے بعض حلقوں میں ووٹر وں کی کل تعداد اگر چالیس ہزار تھی تو پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو تقریباً چالیس ہزار یااسکے قریب قریب ہی ووٹ ملے جبکہ مختلف امیدوار وں کو بھی پچیس تیس ہزار ووٹ ملے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کل ووٹوں کی تعداد ساٹھ ہزار بن جاتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ رجسٹرڈ ووٹوں کے علاوہ بیس ہزار ووٹ کہا ں سے آئے ؟

ان ڈھونگ انتخابات کے بعد ٹی وی کے ایک پروگرام کے میزبان نے کاہراہ برادری کے ایک کامیاب امیدوار سے سوال کیا کہ جناب لگتا ہے آپ کے حلقے میں پچھلے پانچ سالوں میں نہ کوئی مرا ہے نہ پیدا ہوا ہے، نہ باہر نوکری پر گیا ہے اور نہ بیمار ہوا ہے چونکہ جتنے رجسٹرڈ ووٹ آپ کے حلقے میں تھے وہ آپ کو ملے ہیں ۔ موصوف نے ڈھٹائی سے کہا جناب یہ میری برادری کا مجھ پر اعتبار ہے۔ پھر سوال ہوا کہ آپ کے مخالف امیدوار کو بھی آپ کے قریب قریب ہی ووٹ ملے ہیں ۔اسطرح ووٹوں کی تعداد پچاس فیصد سے ذیادہ ہوجاتی ہے۔ اگر مخالف فریق کے ووٹوں کو رجسٹرڈ ووٹوں کے تناسب سے درست تسلیم کیا جائے تو آپکے لیے صرف پانچ ہزار ووٹ بچتے ہیں۔ اسپر امیدوار نے فرمایا جناب یہ میر ی برادری کا مجھ پر اعتماد ہے۔ اس طرح اسی برادری کے ایک اور امیدوار کو بار ڈر ایریا کے حلقے میں کھڑا کیا گیا جو کہ اس امیدوار کا آبائی حلقہ نہیں تھا ۔ اس امیدوار کو بھی ریکارڈ ووٹ ملے اور کاہرہ برادری نے ہر جانب فتح کے جھنڈے گاڑھ دیئے ۔ قمر زمان کاہرہ میر باز کیھتران کے بعد دوسرے وزیر برائے غلامان کشمیر ہیں جو اپنی برادری اور پارٹی کے علاوہ دیگر سیاستدانوں کے لیے توھین آمیز اور دھمکی آمیز رویہ رکھتے تھے۔ آپ نے آذاد کشمیر کے وزیر اعظم کو دھمکی دی کہ میں تمہیں وزیر امور کشمیر بن کر دیکھاﺅ نگا اس کے علاوہ انکا دفتر برادری آفس کا کام کرتا تھا یا پھر پیپلز پارٹی والوں کو ان تک رسائی حاصل تھی ۔ آذاد کشمیر میں کاہرہ پلان کے تحت ہونے والے انتخابات میں خود چیف الیکشن کمشنر کا ووٹ بھی جعلی کاسٹ ہوا۔ دھاندلی اس انتہا کی ہوئی کہ سابق وزیر اعظم جناب سردار عتیق احمد خان نے پریس کو بیان جاری کیا کہ چیف الیکشن کمشنر کو اس دھاندلی کے جرم میں ہر حلقے میں لے جا کر پھانسی دی جائے۔

جسطرح جناب کاہرہ نے اپنی برادری کی خدمت کی ہے اب برادری پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اسکا بدلہ چکائے۔ اب تیس لاکھ رجسٹرڈ کشمیری اور اتنے ہی غیر رجسٹرڈ اور حسب ضرورت مردہ ووٹر پاکستان آکر ووٹ ڈالینگے اور کا ہرہ پلان کا دوسرا حصہ مکمل ہوگا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اربوں روپے کا بیل آﺅٹ پیکج پہلے ہی آذادحکومت کو دیا جا چکا ہے جبکہ پاﺅنڈ اور ڈالر مافیا بھی اس کا رخیر میں حصہ لے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر سارے کام مافیا جات نے کرنے ہیں ، برادریوں ، قبیلوں ،لسانی اور علاقائی گروپوں کے علاوہ فرقوں اور مسلکوں کے تحت ووٹ ڈالے جانے ہیں اور ہر کام ایک حکم ، ایک تعصب اور جبر کے تحت ہونا ہے تو پھر الیکشن کا ڈھونگ رچا کر سرکاری خزانے سے اربوں روپے خرچنے اور عام آدمی کی جیب کاٹنے کا کیا فائدہ ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ جناب قمر زمان کاہرہ اور منظور وٹو کے کشمیر فارمولے کو حکومتی سطح پر سٹڈی کیا جائے اور ہر برادری ، قبیلے ، فرقے ، مسلک، زبان اور علاقے کے ان افراد پر حکومت بنائی جائے جو ان قبیلوں ، فرقوں ، مسلکوں ، زبانوں اور علاقوں کے عوام پر کنٹرول رکھتے ہیں اور جن کی مرضی سے عوام جیتے اور مرتے ہیں۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100626 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.