حضرت آدم اور اماں حوا کے نزول
کے بعد کرہ ارض پر باطل اور حق سچ کا اولین ٹکراو قابیل اور ہابیل کے مابین
ہوا۔ ابتدائے آفرینش سے شروع ہونے والی اس جنگ کا سلسلہ اج بھی پورے اب و
تاب سے جاری ہے۔ ظہور اسلام کے بعد باطل و سچ کا اہم ترین واقعہ سانحہ
کربلا کی صورت میں نمودار ہوا جس میں ہابیل و قابیل کا کردار حسینیت اور
یذیذیت نے ادا کیا۔ یذیذیت نے خود ساختہ مذہبی رہنماوں کے فتووں سپرپاور
افواج قاہرہ کے جبر وستم ہارس ٹریڈنگ سونے چاندی اور دولت کے بے دریغ
استعمال زمینوں کی ناجائز بندربانٹ سے میدان کربلا میں وقتی طور پر فتح کا
پرچم لہرا دیا۔ حسینیت کے امام اور اہل بیت کے چشم و چراغوں کو گردنیں تو
کٹوانی پڑیں مگر یذیذیت کے دھونس دباو ناجائز ہتھکنڈوں دھمکیوں دولت و تاج
کی ہوس کے سامنے جھکنے بکنے سے انکاری رہے۔ شہدا کربلا کی لازوال قربانیوں
کا حق تاریخ کے زریں ابواب میں ہمیشہ کے لئے کندن ہوگیا مگر یذیذی قبیلہ
اور اسکے امرانہ نورتن عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے کہ نفرت و حقارت کا
استعارہ بن گئے۔ امت مسلمہ کی ہسٹری میں ہارس ٹریڈنگ اور وفاداریاں تبدیل
کرنے کی رسوم اور سیاسی بے ضمیری و لوٹا کریسی کا اغاز دور یذیذیت میں شروع
ہوا۔دور یذیذیت کی یہ نشانیاں ہماری سیاسی اور جمہوری زندگی میں بدرجہ اتم
موجود ہیں۔یہ بھی فطرت یذداں کا طے شدہ اصول ہے کہ جاگیرداریت گودہ ازم
فریب کاری لوٹ کھسوٹ دھوکہ دہی کے مبلغ سیاسی رہنماوں اور سرکاری خزانوں کو
لوٹنے لینڈ مافیا کی سرپرستی کرنے اور سیاسی مخالفین پر جھوٹے پرچے درج
کروانے کے شوقین سیاسی لیڈران بھی تاریخ کی بے رحمی کا نشان بنکر زلت و
خواری کے قبرستان میں دفن ہوتے ہیں۔ کارزار انتخابات میں کون یذیذ کی
نمائندگی کرتا ہے اور کون حسینیت کا جانثار بننے کا اعزاز پاتا ہے اسکا
فیصلہ مخلوق خدا کرنا ہوتا ہے ؟کوٹ ادو میںna 176 اور pp 251 پر ڈرامائی
صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ pp کی ناعاقبت اندیش قیادت نے غیر متوقع طور پر
ڈاکٹر شبیر علی قریشی امیدوار na 176 اورpp 251 کے بیرسٹر یوسف ہنجرا کی
ٹکٹیں ن لیگ کے میاں غلام عباس قریشی کے امریکن پلٹ بیٹوں ارشد عباس قریشی
اور امجد عباس کو الاٹ کردیں لوٹا کریسی کے اس سانحے نے انتخابی ماحول میں
ہلچل پیدا کردی۔ جیالے اس ردو بدل پر سیخ پا ہیں۔na 176 کی قومی نشست پر ن
لیگ کے ملک سلطان ہنجرا فنگشنل لیگ کے مصطفی کھر ارشد عباس قریشی پی پی
جبکہpp ٹکٹ سے محروم کردئیے جانیوالے25 سالہ جری لیڈر ڈاکٹر شبیر علی قریشی
ازاد امیدوار انتخابی نشان گھڑا الیکشن میں قسمت ازمائی کررہے ہیں۔ یہاں
ایک اہم نقطے پر خامہ فرسائی نہ کرنا قلم کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔ ڈاکٹر شبیر
علی قریشی کو چت کرنے کی خوش فہمی کے اسیر کوٹ ادو کے تین بزرگ رہنمامیاں
غلام عباس قریشی سلطان ہنجرا اور ملک مصطفی کھر تھوک کے حساب سے سیاسی
وفاداریاں اور پارٹیاں تبدیل کرنے کا ورلڈ گنز ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔
سلطان ہنجرا مشرف لیگ ن لیگ وٹو لیگ اور اب نواز شریف کے مریدین میں شامل
ہوگئے۔قائد عوام بھٹو کے جانشین کا واویلا کرنے والے کھر صاحب نے ایوب خان
سے لیکر زیڈ اے بھٹو تک بے نظیر شہید سے لیکر نواز شریف اور اب فنگشنل لیگ
تک درجنوں مرتبہ وفاداریوں کا خون کیا۔ جبران نے کہا تھا اقتدار کے تخت پر
جلوہ گر ہونے کے لئے ضمیر فروشی کا سہارا لینے والے جاگیردار کبھی عوام کے
خیر خواہ نہیں بن سکتے ۔ دو چار دن پہلے ن لیگ چھوڑ کر pp میں شامل ہونے
والے میاں غلام عباس قریشی امجد عباس قریشی ارشد عباس قریشی کے ٹکٹ کو
ہزاروں جیالوں ووٹرز اور مزدور و غریب طبقات نے رد کردیا ہے۔ اہلیان حلقہna
176 بھٹوز کے شیدائی اور پی پی تنظیم کے عہدیداروں نے پی پی کے نیو لوٹے
ٹکٹ ہولڈرز اور وڈیرہ ازم کے خوشہ چین غلام عباس قریشی امجد عباس قریشی
ارشد عباس قریشی سے چند حقیقت پسندانہ سوالات پوچھے ہیں۔ ppلورز اور جیالے
جوابات کی ٹھوہ کے بعد اپنے زخم خوردہ جذبات کی ترجمانی کا ارادہ رکھتے
ہیں۔اپ میاں غلام عباس قریشی نے 5 مرتبہ ppسے ضیائی ڈکٹیٹرشپ تک ق لیگ سے ن
لیگ کے گھروندوں تک سیاسی ہجرت کی۔ امجد عباس موجودہ pppٹکٹ ہولڈر برائے pp
251 2008 میںق لیگ کے سینیٹر تھے جبکہ2008 میںانکے بھائی ارشد عباس نےna
176 سے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر شکست نے پر جوش استقبال کیا۔
جمہوریت اور عوام کا راگ الاپنے والی ppp نے انہی لوٹوں کو قومی اور صوبائی
اسمبلی کی ٹکٹیں جاری کرکے بھٹوز کی ارواح کو تڑپانے کا سامان پیدا
کردیا۔ہر انتخابی اکھاڑے میں نئی ٹکٹ کے ساتھ اترنا دوہری اور دوغلی سیاسی
بصیرت کا اظہار ہے۔ کیا دوہرا رویہ اور دوغلی سیاسی حکمت کے مالک امیدوار
اسلامی و ائینی طور پر ووٹ کا حق رکھتے ہیں؟ اپ نے بستر علالت پر محو دراز
پی پی کے ضلعی صدر محسن علی قریشی اور2002 اور2008 میں جاگیرداروں کے ظلمت
کدوں کو پاش پاش کرکے ممبر قومی اسمبلی کا اعزاز رکھنے والے محسن کوٹ ادو
کے فرزند ڈاکٹر شبیر علی قریشی ایسے شیر دل لیڈر کی na 176 جبکہ 251سے یوسف
ہنجرا کی پی پی کی کنفرم ٹکٹ پر ڈاکہ مارا ہے۔ کیا اپکی یہ کاروائی جمہوری
روایات کی پاسداری کرتی ہے کیا سیاسی ڈکیٹوں کو عوامی نمائندگی کا حق ملنا
چاہیے؟no۔بھٹو نے غلام عباس قریشی کو 1971 میں سنیٹر اور mna بنوایا۔وہ اپ
غلام عباس قریشی اور کھر صاحب کے محسن تھے۔ بھٹو ایک طرف جیل میں پھانسی
گھاٹ کی جانب رواں دواں تھے تو دوسری طرف اپ غلام عباس قریشی نے ضیائی
ہرکاروں سے معافی مانگی جبکہ کھر لندن فرار ہوگئے۔ کیا یہ احسان فراموشی کی
تاریخ ساز مثال نہیں؟کیا احسان فراموش کبھی غریب عوام کے ساتھ وفاداری نبھا
پاتے ہیں؟ noاپ نے ٹکٹ کی ہیرا پھیری میں na 176 کے دو لاکھ ووٹرز اور
ڈاکٹر شبیر علی قریشی کے لاکھوں لورز کو زہنی ازیت سے دوچار کیا۔کیا یہ
پارٹی دشمنی نہیں؟yesمحسن علی قریشی کی موجودگی میں اپ کو پی پی میں نقب
لگانے کی ہمت نہیں ہوئی۔کیا فرزند محسن کے شبیری جانثار کی ٹکٹ تبدیل
کروانے کی سازش بزدلی کی ائینہ دار تو نہیں؟ yesبذدلی دھوکہ دہی جوڑ توڑ
اور فریب کے دیوانے گودے سرمایہ دار اورسیاسی امیدوار عوام کی فلاح و بہبود
کا تصور کرسکتے ہیں؟no ۔ pp کے نیو برانڈز ٹکٹ ہولڈرز ارشد عباس اور امجد
عباس نے اپنی شکست بھانپ کر یوسف رضا گیلانی کا تعاون حاصل کیا۔ گیلانی دو
دن قبل ڈاکٹر شبیر علی کو دستبردار کروانے کے لئے کوٹ ادو پہنچے مگر پانچ
ہزار جیالوں اور عوامی لشکر کے اژدہام نے ڈاکٹر شبیر علی قریشی کو دستبردار
نہ ہونے اور ظالموں کے خلاف الیکشن لڑنے کا بیک زبان مشورہ دیا۔ گیلانی کی
امد اور اپکے مذموم عزائم کو شکست ہوئی۔ کیا گیلانی کو استعمال کرنا جمہوری
اور سیاسی روایات کا قتل عام نہیں ؟ yesجناب محولہ بالہ سوالات کے جوابات
الم نشرح ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی پی پی زرداریوں گیلانیوں اور
وڈیروں کے تسلط میں جا چکی ہے۔موجودہ پی پی پی کو قائد عوام بھٹو کی جماعت
کہنا خود بھٹوز کی تو ہین کرنے کے مترادف ہے۔اگر وڈیروں نے مستقبل میں پی
پی پی کی کمانڈ جاری رکھی تو بھٹو فیملی کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں
گی۔بھٹو ازم کے فلسفے کی بحالی کی خاطر پی پی پی کی قیادت زرداریوں کی
بجائے فاطمہ بھٹو اور زوالفقار بھٹو جونیر کے سپرد کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر شبیر علی قریشی امیدوار برائے na 176 اورpp 251 پر بیرسٹر یوسف ہنجرا
کے ساتھ اللہ کی غریب مخلوق اور جیالے ثابت قدمی کے ساتھ موجود ہیں۔ ایک
طرف جاگیرداروں کھروں ہنجراوں اور قریشیوں کے پاس دولت کے انبار ہیں مگر
دوسری طرف شبیر علی کے ساتھ لاکھوں بے کس و نا کس ووٹرز کی عقیدت اور رحمت
خداوندی کی عظیم قوت ہے۔ تیر کا نشان لوڈ شیڈنگ کی پہچان ہے مگر گھڑا عوامی
مصائب کو ٹھنڈک مہیا کرنے کا نشان ہے۔ جاگیردار جھوٹ فراڈ اور کرپشن کے
ائینہ دار ہیں۔یوں اس مرتبہna 176 اورpp 251 پر وڈیروں اور عوامی قوت و
عقیدت کے مابین تاریخ ساز انتخابی معرکہ متوقع ہے۔ عوامی قوت کے تیور دیکھر
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فطرت یذداں نے وڈیروں ظالموں کی زلت امیز
شکست کو اموختہ کردیا ہے۔قائد عوام بھٹو کا قول ہے تخت والو جاگیردارو غریب
مخلوق کی اواز پر کان دھرو کیونکہ یہ اللہ کی اواز ہے۔ اللہ کی اواز کو ان
سنا کرنے والے اسمانی عذاب کا نشانہ بنتے ہیں۔ غلام عباس قریشی اور ppکے
ٹکٹ ہولڈرز ارشد امجد کو بھٹو کے قول کی روشنی میں عوامی حمایت کے دلدار
لاکھوں دلوں کے مسیحا محسن ابن محسن اورحسینیت کے شہسوار حق و سچ کے رجال
کار ڈاکٹر شبیر علی قریشی کے خلاف غیر جمہوری سازشوں سے فوری تائب ہونا
چاہیے تاکہ ازادانہ انتخاب کی راہ ہموار کی جائے ورنہ ہر طرف یذیذیت کی
نفرت و حقارت کی صدائے باز گشت سنائی دے گی بحرف اخر گیارہ مئی کو حسینیت
کے پیروکار ہی فتح یاب ہونگے۔ ووٹرز کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے کلہاڑے
سے لیلائے اقتدار کے مجنوں جاگیرداروں اور سیاسی یذیذوں کا سر قلم کردیں۔ |