پاکستانی قوم اس وقت اپنی زندگی
کے انتہائی خطرناک ، صبر آزما دوراہے پر کھڑی ہے اور انتہائی حوصلہ شکن موڑ
بھی ان کے راستے کا دیوار بنی ہوئی ہے۔ ان کی حیثیت (معذرت کے ساتھ )بھیڑوں
کے ایک ایسے گلّے کی ہو چکی ہے جس کا کوئی قابلِ بھروسہ نگہبان نہیں ، اور
اس سے بھی اذیت ناک بات یہ ہے کہ پوری قوم دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔ ان
کے عقائد کو متزلزل کرنے اور اس کی تہذیب و ثقافت ہی نہیں بلکہ دینی شعار
کو بھی مختلف عنوان و انداز سے نشانے پر رکھا جا رہا ہے۔جیسا کہ ہندوستان
کی ثقافت ان کی میڈیا اور فلموں کے ذریعے ہمارے گھروں میں پیوسط ہیں۔
روزآنہ نہتے، معصوم ، بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلانا اور لوٹ مار،
اسنیچنگ کے ذریعے زندگیوں سے کھلواڑ بھی اب مستقل مشغلہ بن گیا ہے۔ اس طرح
کا کھیل عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے، البتہ ہمارے قائدین ان سارے معاملے
کو تر نوالہ اور مقوی غذا سمجھ کر ہضم کر جاتے ہیں مگر ان معاملوں کے حل کی
طرف نہیں جھانکتے۔ اگر اس طرف خلوصِ دل سے توجہ دی جاتی تو آج تک یہ شرمناک
کھیل جاری نہیں رہتا۔ قائدین سیاست میں ایسے بہت سے نام ہیں جن کی بے بسی
اور کمزوری اور اسکے بعض نامور قائدین کی سراسیمگی ہو یا ان کی کوئی غیبی
سودے بازی اس کا اظہار تو ہمیشہ ہی سیاست کی نگری میں ہوتا رہا ہے اور پھر
یہ ڈرامہ تو ہمارے جمہوری نظام کا اب مستقلاً شعار ہی بن گیا ہے۔ ان کیسوں
کے کَل پُرزے مزے لے لے کر میڈیا اور اخبارات میں خوب پھڑکتے، ناچتے گاتے
ہیں۔ بس ذرا سا فرق یہ ہے کہ پرانے زمانے میں بے اصولی ، بے حیائی پر اگر
شرم آتی تھی تو اب اس روش میں ہر ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتا ہے۔اگر
آپ کو یقین نہیں تو اصغر خان کیس آپ سب کے سامنے اپنا راز فاش کر چکا ہے۔
مگر آج چونکہ الیکشن کا دور دورہ ہے تو یہی لیڈران آپ تک بذاتِ خود پہنچ
رہے ہیں جبکہ پچھلے پانچ سالوں تک آپ کو بھولے سے بھی یاد نہیں کیا تھا۔ آج
آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہی لیڈرانِ ملت ! بہی خواہ ملت کے غم میں کتنے
دبلے ہوتے جا رہے ہیںکیونکہ انہیں ووٹ کا تَر نوالہ چاہیئے جو صرف آپ ہی
انہیں دے سکتے ہیں۔آج آپ کو یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اگر مغلئی نظام
میں بزدلوں اور نفس پرستوں کی روش تھی تو ہمارے جمہوری نظام میں بھی وہ
کتنا ثمر بار ہے، اور یہ ثمر موسم کے حساب سے پھل دے رہا ہے۔ ایک اخبار کے
مطابق ایک ایک ووٹ پندرہ سے بیس ہزار روپئے میں خریدے جا رہے ہیں اور اس
ملک کے انتہائی پِسے ہوئے لوگ مجبوری حالات کے سبب یہ کارگزاری سر انجام
دینے میں پیچھے نہیں ہونگے۔ آج ہر رنگ کی سیاست آپ کا کس کس طرح استقبال کر
رہی ہے۔ بس آپ کو اتنا یاد رہے کہ آج آپ کے جاگنے کا وقت ہے دوستو! وگرنہ
اگلے پانچ سال بھی مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری ، نشانہ وار قتل، اور
دہشت گردی کے چنگل سے آپ نکل نہیں پائیں گے۔
ہمارے ملک میں بہت سے ایسے قائدین بھی موجود ہیں جو اخباروں میں مراسلوں کے
ذریعے ہی زندہ ہیں اور بہت سی تنظمیں ایسی بھی ہیں جو عموماً بند کمروں میں
موٹی موٹی رقمیں صرف کرکے سیمینار کرتے ہیں اور قرار دادیں پاس کرتے ہیں
اور پریس ریلیز جاری کرکے اپنے وجود کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ معاف کیجئے ! ہم
نے تو ایسے ایسے قوی الہیکل لیڈران بھی میڈیا کے ذریعے دیکھے ہیں جن کے
لہجے کسی چکی کے پاٹ کی طرح چلتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے جب ہمارے درمیان ایسی
ایسی قیادت ابھرے گی تو ملت کے مقدر میں آٹے کی طرح پِسنے کے سوا اور کیا
چارہ رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ملت (عوام) تسلسل سے سزا بھگت
رہی ہے اور نسل در نسل تباہ ہوتی جا رہی ہے، اور کیسے تباہ نہ ہو، غریب
عوام کے لئے امیر حکمرانوں نے چھوڑا ہی کیا ہے۔جن کا ذکر کرتے کرتے کالم
نویسوں کے ہاتھ تھک چکے ہیں مگر ارباب چُپ کا روزہ نہیں توڑتے۔ مہنگائی ،بے
روزگاری، لوڈ شیڈنگ خاص طور پر نمایاں مسائل ہیں اور ساتھ میں امن و امان
کا فقدان تو ہے ہی۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
کٹھن اندھیروں کی رہ گزر پہ چراغِ صبح جلا جلا کے
قسم سے آنکھیں بھی تھک گئی ہیں آنسو چھپا چھپا کے
ہماری قیادتوں کے ڈھلمل رویوں اور تذبذب فیصلوں کا ہی دخل رہا ہے کہ جس کے
نتیجے میں عوام کا ہر معاملہ دن بدن پیچیدہ در پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ عنقریب
ہی الیکشن بھی ہونے والے ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ ہماری ملکی قیادت کے بڑے
بُت کون کون سے رنگ اختیار کرتی ہے اور عوام کا سودا کس سوداگر سے کرتی ہے۔
ویسے تو سرِفہرست امریکہ ہے ہی جس کے چنگل میں یہ عوامی اور جمہوری حکومتیں
ہمیشہ گھری رہتی ہیں۔ بجائے اُن سے نجات حاصل کرنے کے مزید قرض لے کر انہیں
اور اپنے اوپر مسلط کرنے کے دَر پہ ہیں۔ خدا خیر کرے کہ زلزلے کے جھٹکے
ایسے تو نہیں آ رہے ہیں ، یہ ہمارے اعمالوں کے صلے ہی تو ہیں جو قدرتی آفات
نازل ہو رہے ہیں، کیونکہ ہم سُپر پاور صرف اللہ رب العزت کی ذات کو مانتے
ہیں مگر ساتھ میں امریکہ کو بھی اس دوڑ میں نہیں چھوڑتے کیونکہ وہ دنیاوی
اعتبار سے خود کو سُپر پاور کہلاتا ہے۔ ہمیں حیرت اس پر نہیں کہ مسلمان اس
ڈرامہ کے کردار کو کیوں نہیں چھوڑتے اور ہمارے قائدین اتنے کم نظر کیوں ہو
گئے ہیں کہ وہ اپنی کمزوری اور بے وقعتی کا علاج صرف دنیوی تدابیر رکھنے
والوں میں ہی کیوں تلاش کرتے ہیں ، اور ایک سانپ سے بار بار ڈسے جانے پر ہی
کیوں مضر ہیں اور پھر وہیں پر اپنی سیاسی رفعت اور سر بلندی کیوں تلاش کر
تے ہیں جہاں پر ڈالروں کے چند انعامات اور امداد کے سوا اب تک کچھ ملا ہی
نہیںاور نہ ہی اس سے زیادہ کچھ ملنے کی اُمید کی جا سکتی ہے۔شاعر سے بہت
معذرت کے ساتھ:
یہ جو ناحق تم ڈرون گِراتے رہتے ہو
ہزاروں ڈالر لٹاتے رہتے ہو
زخم بھرتا نہیں کسی بھی صورت
کیسا مرہم لگاتے رہتے ہو
بہرحال! ہمارے ملک میں غریبوں اور متوسط طبقوں کا جو حالِ زارہے اس
پرمستزاد یہ ہے کہ مرکزی و ریاستی حکومتوں نے جو سلوک روا رکھا ہے وہ کافی
افسوس ناک ہے، حکومتوں کو اپنے نظریے اور رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت
ہے اور عوام کے مسائل پر انہیں سنجیدگی کا ثبوت پیش کرنا چاہیئے اوریہ
احساس دلایاجاناچاہیئے کہ ملک پرغریبوں کا وہی حق ہے جو دوسرے طبقے کے
لوگوں کاہے۔ عوام کی حق تلفی کرناحکومتوں کا کام نہیں بلکہ ان کی داد رسی
ان کا فریضہ اولین ہے۔ ناحق انہیں کسی پریشانی سے دوچار نہیںکیاجاناچاہیئے،
بہرحال یہ سب اب گزرچکا ہے، اس کاماتم بیکارہے۔ الیکشن ہونے کوہیں اور عوام
کو اپنے لئے اگلے پانچ سال تک کےلئے حکمران چننا ہے۔ پچھلے پانچ سال تک
عوام نے حکمرانوں کی جو کوتاہیوں، غلطیوں و خامیوں سے سبق سیکھاہے اسی لحاظ
سے عوام کو اب ووٹ کا حق استعمال کرناچاہیئے اور ہم سب یہ امید کرتے ہیں کہ
عوام اب کسی غلطی کو نہیں دہرائیں گے، ایک مشہورکہاوت ہے کہ ”جو اپنی
غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے، قدرت انہیں غلطیوں کو دہرانے کی سزادیتی ہے“
آیئے دعاکریں کہ قدرت ہمیں مزید کوئی غلطی کی توفیق اورسزانہ دے۔ |