پاکستان میں انتخابی مہم عروج پر
ہے، امیدوار گھر، گھر ووٹ مانگ رہے ہیں اور قائدین شہر، شہر جلسوں سے خطاب
کر رہے ہیں۔ پی پی پی چند ایک حلقوں کے علاوہ کہیں نظر نہیں آرہی۔ پی پی پی
کے چیئرمین بلاول بھٹو منظر سے غائب ہیں۔ انتخابی مہم آخرے مرحلے میں داخل
ہو چکی ہے لیکن پارٹی چیئرمین کے بارے میں ابھی تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا
کہ وہ کہاں ہیں۔ گزشتہ دنوں پارٹی کے نام نہاد صدر مخدوم امین فہیم نے
انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ نہیں بلاول پاکستان میں ہیں یا بیرون
ملک۔بلاول کی گمشدگی کئی ایک سوالوں کو جنم دے رہی ہے، لوگ یہ بھی کہہ رہے
ہیں کہ الیکشن منسوخ کر دئےے جائیں گے اس لیے پی پی پی مہم پر فضول خرچی
کرنے پر تیار نہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بلاول اپنی پھوپھی جان کی بے
جا مداخلت کی وجہ سے پارٹی کی قیادت کرنے پر تیار نہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ
بھی کہنا ہے کہ بلاول اپنی جان بچانے کے لیے منظر سے غائب ہو چکے ہیں۔ حتمی
طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے بلاول الیکشن مہم سے دس کش کیوں ہیں
تاہم دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
صدارتی ترجمان چھوٹی، چھوٹی باتوں کا نوٹس تو لے رہے ہیں لیکن بلاول کی
گمشدگی پر مکمل طور پر خاموش ہیں۔ جیالے بھٹو خاندان کی غیر موجودگی میں
خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں اور سیاسی میدان میں اترنے سے گریزاں ہیں۔
زرداری صاحب کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ اتحادیوں کو متحد رکھنے کے
ماہر ہیں اور انہوں نے بردباری اور برداشت کے ہنر سے پانچ سال پورے کیے
لیکن پانچ سال پورے کرنے پر وہ اپنے گھر کو یکجا اور یکسو نہ رکھ سکے۔
بلاول کی غیر موجودگی سے جیالے میدان سیاست میں اپنے جوہر نہ دکھا سکے، جس
کا نتیجہ خاصا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔
پی پی پی کے پاس غربت، ناانصاف، کرپشن، ڈراؤن حملوں اور لوڈشیڈنگ کے علاوہ
عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں لیکن عوام کی ایک کثیر تعداد بھٹو خاندان
سے بار بارٹھسنے کے باوجود امیدیں قائم کیے ہوئے ہے۔ وہ بلاول کی صورت میں
غریب عوام کی بھٹو دوستی سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ زرداری صاحب نے سالوں
بلاول کو اردو سکھانے، تقریر کے فن سے بہرہ ور کرنے اور بینظیر بھٹو کا
جانشین بنانے پر بھرپور محنت کی لیکن آخر دم وہ سب کچھ غارت ہوتا نظر آ رہا
ہے۔ یوں لگتا ہے کہ زردار ی صاحب اپنی ساری کرامات کے باوجود یہاں مات کھا
چکے ہیں اور بینظیر بھٹو کے بیٹے کو میدان میں اتارنے میں ناکام ہیں۔
بلاول کی کمی آصفہ پوری کر سکتی ہیں اگر وہ اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلنے
کی ہمت پیدا کر سکیں ۔ یوں لگتا ہے کہ نوازشریف کے بیٹوں کی طرح بینظیر
بھٹو کی اولاد بھی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر
مولانا مفتی محمود، خان عبدالغفار خان، نواب زادہ نصراللہ خان اور دیگر
سیاسی پروہتوں کی اولاد بھی باپ داد کی کمائی پر گزار کریں اور عوام کو
لوٹنے سے توبہ کرلیں تو یہ قوم نسل در نسل سیاست دانوں سے نجات حاصل کرسکیں
اور ملک میں نظریاتی سیاست کی بناءپڑ سکے۔ برصغیر کے علاوہ تمام جمہوری
ممالک میں نظریات کی بنیاد پر سیاست ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں قبروں کے نام
پر ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ بلاول کے فرار نے باقی موروثی سیاست دانوں کے لیے
راہ عافیت دکھا دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کون، کون بلاول کے نقش قدم پر
چلتا ہے اور کون سیاست کی مقتل گاہ کی زینت بنا رہتا ہے۔ |