انتخابات اور خواتین

اس وقت ملک کے آسمان پر انتخابات کے بادل گردش کررہے ہیں۔ اخبارات ہوں یا چینل ہر جگہ انتخابات پر بات کی جارہی ہے۔ گھر سے باہر نکلیں تو جگہ جگہ مختلف سیاسی جماعتوں کے پرچم لہرارہے ہیں۔

آنے والے مہینے کی 11تاریخ کو تاریخ پاکستان کے صفحات عوامی فیصلے کے نام سے شناخت کریں گے ۔ اس دن عوام اگلے 5سالوں کی تقدیر پر مہر ثبت کریں گے ۔ یہ وہ دن ہے جب عوام کو مل کر یہ طے کرنا ہے کہ گزرے ہوئے سالوں میں اُن کا فیصلہ کس حد تک درست تھا اور آنے والے پانچ سالوں کے لئے انہیں کیا فیصلہ کرنا ہے۔

انتخابات کے عمل کو بروقت مکمل کرنے کی غرض سے ملک بھرمیں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ مرد حضرات اس دن ووٹ ڈال کر آنے کے بعد سارا دن ٹی وی کے سامنے ڈٹے حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے رہتے ہیں ‘جب کہ خواتین کے لئے یہ دن کسی تہوار سے کم نہیں ہوتا جس میں گھر والوں کی فرمائش پر مزے مزے کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور عام طور پر خواتین کا زیادہ وقت باورچی خانے میں گزر جاتا ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خواتین ان چکروں میں اس دن کے اہم ترین کام ‘یعنی ووٹ ڈالنے کو ‘ پس پشت ڈال دیتی ہیں جس کے نتیجے میں ووٹ ڈالنے والی خواتین کی شرح مزید کم ہوجاتی ہے ۔

موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین اپنا حق رائے دیہی ضرور استعمال کریں کیوں کہ خواتین آبادی کا 49 فیصد ہیں۔ آنے والے انتخابات میں جاری ہونے والی انتخابی فہرستوں میں مرد وں کے مقابلے میں خواتین ووٹروں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ کم ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری حتمی انتخابی فہرستوں کے مطابق ملک میں8کروڑ 61 لاکھ 89 ہزار 802 ووٹر ہیں جن میں سے 4 کروڑ 85 لاکھ 92 ہزار 387 مرد اور 3 کروڑ 75 لاکھ 97 ہزار 415 خواتین ہیں۔آبادی کے تناسب سے خواتین ووٹروں کی تعداد کم ہونے کو سنگین معاملہ قرار دیاجارہا ہے۔

بلوچستان‘ خیبرپختونخوا ہ اور قبائلی علاقوں کا معاملہ تو کچھ یوں ہے کہ خواتین قومی شناختی کارڈ ہی نہیں بنواتیں جس کی وجہ سے اُن کے ووٹ بھی نہیں بن پاتے۔ویسے امسال باجوڑ ایجنسی سے تین خواتین بادام زری ‘نصرت بیگم اور گلاں بی بی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جو یقینا خوش آئند بات ہے۔اب کم از کم ان علاقوں کی خواتین کی حالت زار پر ملک کے ایوان بالا میں بات کرنے والا کوئی تو ہوگا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق حکومت کی طرف سے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے خاندانوں کے لئے ایک ہزار روپے ماہانہ امداد دینے کے بے نظیر انکم سپورٹ پرگرام کے آغاز پر پسماندہ علاقوں میں رہنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے قومی شناختی کارڈ بنوائے اور وہ نادرا کے نئے نظام کے تحت خودکار طریقے سے انتخابی فہرستوں میں شامل ہو گئیں لیکن اس کے باوجود مردوں کے مقابلے میں ابھی تک خواتین ووٹروں کی تعداد قابل ذکر حد تک کم ہے۔

ملک کے ”ترقی یافتہ “شہروں سے خواتین پہلے بھی منتخب ہوکر اسمبلیوں تک آتی رہیں ہیں لیکن منتخب ہونے والی خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت نہایت کم ہے۔ ایسی صورت حال میں جن خواتین کو ووٹ کا حق حاصل ہے انہیںلازمی طور پر گھروں سے نکل کر اپنا حق رائے دیہی استعمال کرنا چاہئے ۔ انہیں نہ صرف خواتین کے حق میں ووٹ ڈالنے چاہئے بلکہ اپنے ووٹ کا استعمال انتہائی سمجھ داری کے ساتھ کرنا چاہئے کیوں کہ یہ وہ وقت ہے جب آپ اپنے آنے والے 5سالوں کا فیصلہ کرنے جارہی ہیں۔

ووٹ ڈالتے وقت قومی ذمہ داری کو ملحوظ نظر رکھیں کیوں کہ آپ کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ہی آپ کے معاشی ‘ سماجی اور ماحولیاتی مستقبل کا تعین کریں گے تو پھر قومی شعور اور ذمہ داری کو بروئے کار لاتے ہوئے گھر سے نکلیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں بصورت دیگر حکمرانوں کی نااہلی کا شکوہ نہ کریں کیوں کہ یہ وہی لوگ تو ہیں جو اپنے اپنے جوشیلے نعروں اور جھوٹے وعدوں کی وجہ سے آپ کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لہٰذا پرہیز علاج سے بہترہے کی پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے ووٹ دینے سے پہلے ہی سوچ بچار کے مراحل طے کرلیں۔
Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.