الیکشن کی بہار اور نئی حکومت سے توقعات

پاکستان میں الیکشن کی گہما گہمی عروج پر ہے عوام میں سیاسی لوگوں کی جیت ہار کے لئے بحث و مباحثہ شروع ہو چکا ہے کوئی کسی کی اچھائی تو کوئی برائی بیان کرتا نظر آتا ہے اور سیاسی ورکر اپنی اپنی پارٹیوں کی تعریفیں کرتے نظر آتے ہیں اب کی بار پاکستان کی تمام جماعتیں ان آنے والے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے بے تاب نظر آرہی ہیں کیونکہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہو رہے ہیں جس میں عدلیہ میڈیا اور ازاد الیکشن کمیشن اور ان کے غیر جانبدار فیصلوں اور ان پر عمل درامد کی وجہ سے پاکستانی عوام میں احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ووٹ کی طاقت سے پاکستان کو تعمیر کر سکتے ہیں اب کی بار الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان مسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی ،جمیعت علما ء اسلام (ف)، (س)،پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان مسلم لیگ (ق) ،متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر چھوٹی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں پچھلے الیکشن میں وہ جماعتیں جن کی تیاری تو پوری طرح تھی مگر انھوں نے عین موقع پر الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا اور الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کے ورکروں میں ایک بے چینی سی پھیل گئی تھی اس وجہ سے ان کو سیاسی طو پر بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا اور پچھلے پانچ سالوں میں ہونے والے بیشتر ملکی فیصلے ان کی مرضی کے خلاف ہوئے تھے اس کی بڑی وجہ ان کا قومی اسمبلی میں نمائندگی کا ہونا ہے اب کی با ر الیکشن کی آس لگائے بیٹھی ہیں کیونکہ وہ بہت جلد عوام میں جانا چاہتی ہیں اور اس کے لیے جماعت کا قومی یا صوبائی اسبملی میں ہونا بہت ہی ضروری ہے اس سلسلے میں سیاست دانوں میں جوڑ توڑ بھی ہوئی اور کوئی ٹکٹ ملنے کی وجہ سے خوش تو کوئی ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہوااب الیکشن کو بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں عوام کو اپنے حق میں راضی کرنے کے لیے کارنر میٹنگز کا آغاز ہو چکا ہے جس کیے اشتہارات اور اور ایس ایم ایس بھی لوگوں کو کیے جا رہے ہیں اور بعض جماعتوں نے تو اپنے قائدین کی آواز میں لوگوں کو کالیں بھی ٹیپ کر کے سنانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے غرض یہ کہ ایک تماشے اور میلے کا سا سماں ہے کوئی سڑکوں کوبنانے کی باتیں کر رہا ہے تو کوئی روزگار کی فراہمی کا یقین دلا رہا ہے کوئی بجلی دینے کی کوئی پانی کی فراہمی غرض یہ کہ ہر وہ کام جس کی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل ہو سکے اور ان کا قیمتی ووٹ ان کے ووٹنگ باکس میں آ سکے اس کے وعدے کیے جا رہے ہیں لیکن اب کی بار بہت سے لوگوں کے لیے الیکشن کے نتائج کافی حیران کن ہوں گے کیونکہ کہ میڈیا کی آزادی نے عوام میں شعور کی ایسی روح پھونک دی ہے کہ کسی سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے ٹی وی پر چلنے والے کرنٹ افئیرز کے پروگراموں نے ایک عام آدمی کو اتنی باتیں سکھا دی ہیں کہ وہ پورا کا پورا اینکرپرسن نظر آتا ہے صرف سیاست نہیں کسی بھی موضوع کو دیکھ لیں میڈیا کی وجہ سے ہر بندہ اس پے بات کر سکتا ہے بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا کی آزادی سے الیکشن کے نتائج کو قبل ازوقت بیان کرنا کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ میڈیا کہ صرف ایک پروگرام سے کسی بھی حلقے کے عوام کا ذہن تبدیل کرنے میں وقت نہیں لگتا سیاسی لوگوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ مفاد پرست لوگ ہوتے ہیں جن کا مفاد عوام کے ووٹوں کی حد تک ہے وہ نکل گیا تو عوام ان کے لیے کوئی معانی نہیں رکھتے جو کسی حد تک سچ بھی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کہ کونپاکستان کی حکمرانی کے منصب پر فائز ہوتا ہے کیونکہ کہ جس طرح کا الیکشن کمیشن ہے اور جس طرح کا ضابطہ اخلاق ہے اور جس طرح کی امیدواروں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں جن میں انتخابی اخراجاتانتخابی مہم اور ان کے اثاثوں کے گوشوارے اس وجہ سے بہت سے امیدوار الیکشن کمیشن کی طرف سے لگائی گئی چھاننی میں سے وہی چھن کے نکل سکے گا جس کا ماضی بے داغ ہو گا اور جس پر کرپشن اور کسی بھی بینک یا دارے کی نادینگی کا کوئی الزام نہ ہو گا اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ ایسے شفاف الیکشن ہوں گے جس میں کسی بھی جماعت کی جیت کو یقینی نہیں کہا جا سکتا نئی منتخب ہونے والی حکومت کو بہت ہی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ معاشی صورتحال بھی ڈھماں ڈول ہے آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی ملک کے زرمبادلہ کے زخائر میں کمی بجٹ خسارے میں اضافہ امن ومان کی صورت حال سب سے بڑھ کر لوڈشیڈنگ جس کا دورانیہ جو کھبی دو گھنٹے ہوتا تھا اب دس سے بارہ گھنٹے تک پہنچ چکا ہے سی این جی ایک نئے بحران کا شکار نظر آتی ہے لوگ اپنی چھٹی کے دن گیس کی لائینوں میں لگ کر گزار رہے ہیں ملک میں بے روزگاری کی شرح انتہائی سطح کو چھو رہی ہے بلوچستان کا مسئلہ اپنی جگہ قائم ہے ایسے حالات میں انتخابات تو صاف ہو جائیں گے مگر جو بھی نئی حکومت بنے گی دوسری اپوزیشن جماعتوں کا اس پر بہت پریشر ہو گا کہ وہ جلد از جلد ملکی حالات کو نارمل پوزیشن پر لے آئے اس کے لئے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے جو کہ نئی نویلی حکومت کے لئے مشکل ہوں گے اب کی بار دیکھنا یہ ہے کہ میدان کون مارتا ہے لیکن راقم کا خیال یہی ہے کہ اب کی بار بھی مخلوط حکومت بنے گی جو ایک دو نہیں بلکہ بہت سی پارٹیوں کے ملاپ سے تشکیل پائے گی اور ظاہری سی بات ہے جب بہت سے لوگ اقتدار میں شامل ہوں تو سب کو خوش کرنا پڑتا ہے اس کے لئے کچھ دو اور کچھ لو کا فارمولہ ہوتا ہے -

ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو عوامی افادیت کے منصوبوں کو جاری رکھا جائے اور قوم کو درپیش بحرانوں کے خاتمے کے لئے کسی بھی مشکل فیصلے سے دریغ نہ کیا جا ئے تاکہ قوم کو ان بحرانوں سے نجات دلائی جا سکے
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227003 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More