سازشوں کے دہانے پر پاکستان اور منی پاکستان کراچی

کراچی شہر قیام پاکستان سے جسے پاکستان کا دل کہا جاتا رہا ہے۔ اس شہر کے اچھے اور برے دونوں طرح کے اثرات ملک کے تمام حصوں میں مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے 67 فیصد ریونیو کا انحصار سندھ پر ہے اور سندھ کے 85 فیصد ریونیو کا انحصار کراچی پر ہے۔ کراچی پاکستان کا وہ سب سے بڑا شہر ہے جس میں الحمداللہ ہمارے ملک کے تمام یعنی چاروں صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر، فاٹا اور گلگت بلتستان کے ہمارے لاکھوں بھائی آباد ہیں۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو تعلیم اور روزگار کے لئے یہاں آتے ہیں اور ان کا قیام عارضی ہیں۔ کراچی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ملک کے دیگر حصوں سے آنے والے لوگوں کو روزگار کے ساتھ ساتھ تعلیم کی سہولیات بھی فراہم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے ہزاروں افراد ہیں جنہوں نے کراچی میں محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ ۔کراچی کی آبادی دو کروڑ کی حد کو چھو رہی ہے مگر بہت عرصے تک اس شہر میں بنیادی ضروریات کا فقدان رہا جو الحمداللہ اب کسی حد تک کم ہو رہا ہے جس کی وجہ شہری حکومت کی کاوشیں اور مختلف حکومتوں کا بھرپور تعاون شامل رہا یہاں بڑے شہروں کی طرح غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد بھی بڑی تعداد میں یعنی قریباً تیس لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے، جن میں افغانی، بنگالی، برمی، ایرانی، عربی، بھارتی اور دیگر ممالک کے باشندے شامل ہیں۔ کراچی کو پاکستان کا پہلا دارالحکومت ہونے اور اسی شہر میں واقع سندھ اسمبلی کو سب سے پہلے قرار داد پاکستان منظور کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اگر کراچی کی خوبیاں بیان کی جائیں تو اس کے لئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے ۔ شہر کراچی کی خوبیوں کاخلاصہ صرف اتنا ہے کہ یہ شہر غریب پرور اورعروس البلاد رہا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ تمام تر باتوں کے باوجود ہم اس شہر کے باسی ہیں۔

(یہاں یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کالم میں تقریباً ساری باتیں ہمارے ایک بھائی عبدالجبار ناصر صاحب کی تحریر سے لیے گئے ہیں۔ جو میں نے سوچا کہ ہمارے پلیٹ فارم ہماری ویب ڈاٹ کام پر بھی شائع ہو جائیں)

معلوم نہیں کچھ عرصے سے پاکستان کے اس عظیم شہر کو کس کی نظر بد لگ گئی۔ جس کے بعد اس کی روشنیاں اندھیروں، وسعت قلبی، تنگی میں، سکون، بربادی میں، بھائی چارہ، دشمنی میں اور روزگار کی فراہمی بے روزگار ی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اگرچہ 80 اور 90ء کی دھائیوں کے بالترتیب آخری اور ابتدائی12سے 15 سال کافی کشیدہ رہے ہیں اس دوران ہزاروں افراد گمنام یا سیکورٹی اداروں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور ہزاروں افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے، تاہم گزشتہ 8 سال کسی حد تک سکون رہا جس کے باعث ایک بار پھر شہر کراچی کی رونقیں بحال ہوئیں ،مگر 2007ء سے معلوم نہیں کسی بد نظرکی نظر لگ گئی ہے یا اسے کسی عالمی سامراج نے ٹارگٹ بنا لیا ہے ۔ حالانکہ 9/11 کے بعد القاعدہ کے نام پر دیگر حصوں کی طرح اس شہر کے باسیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، سعود میمن سمیت سینکڑوں افراد کا تعلق اسی شہر سے ہے جن کو حقیقی مسلمان ہونے کے جرم کی سزا دی گئی، بعض کے بارے میں آج تک معلوم نہیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہیں اور درجنوں افراد آج بھی جیلوں میں قید ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ کچھ واقعات میں ملوث ہوں مگر ایک بڑی تعداد بے گناہوں کی ہے۔

گزشتہ تقریباً ایک سال سے شہر کی حالت دن بدن خوفناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور اب القاعدہ کے بعد طالبان کی شہر میں آمد کے حوالے سے خبریں اور مبینہ چاکنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ضمن میں شہر کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ عوام کو مسلسل خبردار کر رہی ہے ، اس حوالے سے حکومتی اہلکاروں سے ان کی متعدد ملاقاتیں بھی ہوئی اور ہورہی ہیں تاہم حکومت کی جانب سے اب تک اس کی تصدیق نہیں کی گئی ۔ گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات اور سیاسی قیادت کے مابین تلخ بیانات کے تبادلے نے شہریوں کواور خوفزدہ کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق خوف وہراس کے باعث شہر میں ذہنی امراض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس وقت شہر کی 40 فیصد کے قریب آبادی ہائی بلڈ پریشر سمیت دیگر ذہنی موذی امراض میں مبتلا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں درجنوں افراد لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں۔

16 فروری 2009ء کو مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ اور 14 اپریل 2009ء کو قومی اسمبلی کی جانب سے اس نظام کی توثیق اور صدر پاکستان کی جانب سے دستخط کے بعد کشیدگی میں شدت آئی ہے غالباً اس کی وجہ شہر کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کی جانب سے اس نظام کی شدید مخالفت اور حکومتی اتحاد میں شامل پختونوں کی نمائندہ جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کی جانب سے یہ معاہدہ کرناہے ۔ سیاسی اور مذہبی قیادت کی جانب سے حمایت اور مخالفت میں سامنے آنے والے بیانات شہر میں کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔ مالا کنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ کے بعد بعض مذہبی طبقوں کو بھی شدید تحفظات ہیں مگر ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی مؤثر آواز سامنے نہیں آئی۔ اس نظام کا دفاع کرنے والوں کی پوزیشن کافی مستحکم رہی مگر 19اپریل 2009ء کو سوات میں مولانا صوفی محمد کے بیان نے معاملات کو کافی پیچیدہ بنایا اور اس کے اثرات بھی کراچی میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت کراچی کے حوالے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہ یہ شہر آتش فشاں کے دہانے پر ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر سب کچھ تباہ کردے گا۔ شہر میں موجود کشیدگی کی مختلف خبریں بتائی جا رہی ہیں ان میں کتنی حقیقت اور صداقت ہے اس کے بارے میں کچھ کہنا فی الحال مشکل ہے تاہم ان تمام کشیدگیوں نے شہر کے باسیوں کو تقریباً مفلوج اور ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔

22 اپریل کو تیسر ٹاؤن میں چرچ کے باہر طالبان کے حوالے سے نعروں کی وال چاکنگ اور بعد کے تصادم نے صورت حال کو بہت ہی کشیدہ بنایا ۔ بدقسمتی سے سابقہ اور موجودہ حکومت نے کسی بھی واقعے کے اصل حقائق تک پہنچنے کی زحمت نہیں کی معلوم نہیں کیا وجہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سیاسی یا مذہبی جماعتوں کے لوگوں کو تو یہ علم ہوا کہ تیسر ٹاؤن کے واقعے میں مبینہ طالبان ملوث ہیں مگر حکومت تاحال خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ اس حوالے سے اقلیتی رکن سلیم خورشید کھوکھر کا یہ بیان انتہائی خوفناک ہے کہ اقلیتیں غیر محفوظ ہیں اور وہ بیرونی ممالک کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ یہ بیان بیرونی عناصر کو ملکی معاملات میں مداخلت کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حالات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں سیاسی اور مذہبی فسادات کسی بھی وقت شروع ہوسکتے ہیں۔ کراچی کے شہری اور دیہی علاقوں میں باقاعدہ پہرے کا نظام قائم ہوچکا ہے اور بعض علاقے تو نوگوایریا ہی بن چکے ہیں۔ بعض علاقوں میں مساجد اور مدارس میں ائمہ اور مؤذنوں تک کو نکل جانے کا حکم دینے کی اطلاعات ہیں ۔ صورت حال اس حد تک کشیدہ ہے کہ بعض علاقوں میں رات تو کیا دن کے اوقات میں بھی گلیوں میں جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ صورتحال کسی ایک طرف کی نہیں بلکہ جہاں جس کا بس چلتا ہے وہ اپنا کام کررہا ہے ۔

صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، اے این پی کے قائد اسفند یار ولی خان، مذہبی اکابر باالخصوص دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے علماء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہر کا امن تباہ ہونے سے بچائیں اللہ نہ کرے حالات قابو سے باہر ہوگئے تو بقول عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے لوگ سوات، اور فاٹا کو بھول جائیں گے۔ اہل شہر پر بھی ذمہ دای عائد ہوتی ہے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں بلکہ حقائق پر نظر رکھیں۔ مذہبی طبقے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تمام مکاتب فکر سے رابطے کرکے اصل حقائق کو تلاش کریں اگر واقعی کچھ مذہبی عناصر ملوث ہیں تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ آنکھ بند کر کے ایک دوسرے پر تنقید اور فتوے دینا سوائے تباہی کے کچھ انہیں دے گا۔ اس حوالے سے اکابر علمائے دیوبند کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ تمام اہل وطن کو غور کرنا ہوگا کہ ہمارے اندرونی اختلافات کا نتیجہ کہیں شاہراہ فیصل، لیاری ایکسپریس وے دیگر شاہراہوں اور سڑکوں پر لاشوں کے انبار کے علاوہ پاک سر زمین پر (خاکم بدہن) امریکی اور برطانوی افواج کے گشت کا باعث نہ بنیں۔ اہل پاکستان بھی اپنی توجہ اس پر مرکوز کریں کیونکہ اگرخدانخواستہ کراچی کو کچھ ہوا تو ملک بھر میں شاید کچھ نہ بچے گا۔ کشیدگی٬ تلخی، بداعتمادی اور مخالفانہ بیان بازی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کراچی پاکستان کا بیروت بننے جارہا ہے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533008 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.