‘کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے تریاقی کا کام‘
‘سوات امن معاہدہ‘ کی منظوری کے بعد صوبہ سرحد کے علاقوں دیر کے بعد
بونیر میں بھی ملٹری اپریشن جاری و ساری ہے اور متعدد شدت پسندوں کی
ہلاکتوں کے دعوے کئے جا رہے ہیں- دوسری طرف ایم کیو ایم علاقائی نیم سیاسی
گروہ جو بیس سال سے زائد عرصہ تک محض ‘کراچی‘ تک محدود ہونے کے باجود خود
کو قومی دھارے کی پارٹی ظاہر کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے، اس فوجی
آپریشن کو اپنی‘سوات عدل معاہدہ‘ کی مخالفت کو درست ثابت ہونے پر دکھا رہا
ہے جو کہ سراسر اس کی خوش فہمی ہے یا پھر سادگی-
چاروں طرف نگاہ دوڑا کر اور لسانی یا مذہبی کی بجائے سیاسی حسیات کو بروئے
عمل لا کر دیکھا جائے تو حاصل کلام یہ نکلتا ہے کہ حکومت کے سرحد میں ملٹری
آپریشن کرنے کے فیصلہ میں امریکی دباؤ پیش پیش ہے اور یہ دباؤ اس وقت بڑھ
جاتا ہے جب ایم کیو ایم کے بعد ن لیگ نے بھی ’عدل معاہدے‘ کو ناپسند کرنا
شروع کر دیا اور ‘شدت پسندی‘ یا ‘طالبانائزیشن‘ کے خلاف باقاعدہ اشتہار
بازی شروع کر دی- یہ الگ بات ہے کہ ن لیگ ہو یا ایم کیو ایم ہو، ان دونوں
کا ‘طالبانائزیشن‘ کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ‘چور مچائے شور‘ کے سوا کچھ نہیں
ہے کہ یہ دونوں ضیائی باقیات ہیں اور یہ ضیاالحق ہی تھا جس نے فرقہ بندی،
اسلامائزیشن، کی ملک میں داغ بیل ڈالی اور ان کی قومی سطح پر آبیاری و
سرپرستی کی- یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ ایم کیو ایم اور ن لیگ کےعدل
معاہدہ کےخلاف ہاتھ دھو کر دوالے ہونے کے پیچھے امریکہ بہادر کا ہاتھ ہو
تاکہ حکومت کو سرحد میں اپریشن کرنے کے لئے ‘بلیک میل‘ کیا جاسکے- حکومت پر
ملکی اور غیرملکی دباؤ ہی آپریشن کی وجہ بنا ہے، لہذا ایم کیو ایم سے
مودبانہ پرارتھنا ہے کہ وہ اس آپریشن کو اپنے ‘کھاتے‘ میں ڈال کر سادہ لوح
عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے باز رہے- دوسری طرف، یہ بھی حقیقت کے
انتہائی قریب بات ہے کہ یہ آپریشن سیاست کا ایک حصہ ہو جس کا مقصد
’استعمار‘ کو ’شانت‘ کرنا ہو، باالفاظ دیگر یہ آپریشن ‘دکھاوا‘ یا ’ایکٹنگ‘
بھی ہو سکتا ہے- واضح رہے کہ صحافیوں کو فوجی کاروائی میں شدت پسندوں کی
ہلاکتوں کی تصدیق کرنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے-
’عدل معاہدہ‘ کے بعد طالبانوں کا ہتھیار نہ پھینکنے کو مدِنظر رکھتے ہوئے
بھی دیکھا جائے تو حکومت کا فوجی کارروائی کا فیصلہ عین درست اور بروقت ہے۔
یہ فوجی آپریشن اس لیئے بھی سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ اس سے
‘اتحادیوں‘ کے ہماری جانثار ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کو طالبانوں سے خلط ملط
کرنے کے پراپیگنڈہ کا بھی خوب توڑ کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ ‘استعمار‘ نے ‘آئی
ایس آئی‘ کے خلاف بہت پراپیگنڈہ کیا ہے جس سے اس کا یہ دکھانا مقصود ہے کہ
ہماری بہادر فوج ‘طالبانوں‘ کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور یہ جان بوجھ کر ان کے
خلاف کاروائی نہیں کر رہی- واضح ہو کہ فدوی نے آئی ایس آئی کو ‘جانثار‘
ملکی سلامتی کو اولیت دینے کی وجہ سے لکھا ہے نہ کہ دوسرے ملکوں کی سلامتی
کو خطرے میں ڈالنے والے کاموں مثلاً کشمیر جہاد یا افغان جہاد کی غرض سے-
لہذا اب ہم اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ حکومت کا دیر اور بونیر میں فوجی
کارروائی کرنے کا فیصلہ ‘حب الوطنی‘ کا ایک تازہ ترین عمل ہے اور نظر آتا
ہے کہ ہماری حکومت، پاکستان کو بھنور میں مزید گرنے سے بچانے میں ایڑی چوٹی
کا زور لگا رہی ہے اور اس کے سامنے ہر وقت ایک ہی بات اولیت رکھتی ہے کہ
’سب سے پہلے پاکستان !‘
جہاں تک ‘طالبانوں‘ سے بات چیت کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کی بات ہے یا طاقت
کے استعمال یا عدم استعمال کی بات ہے تو اس ضمن میں مؤدبانہ عرض ہے کہ نمبر
ایک کہ ‘لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘ کے مصداق آپریشن درست ہے- نیز
بات چیت وہیں کامیاب ہوتی ہے جہاں پر ایک دوسرے کی بات کو سننے، سمجھنے،
جانچنے، پرکھنے، غوطے لگانے، حاصل کلام نکالنے اور دلجمعی سے سننے کا جذبہ
و خواہش و نیک نیت دستیاب ہو۔ ‘طالبانوں‘ کے ساتھ بات چیت میں حکومتی نیت
پر بھی شک کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ بہادر ہر وقت سر پر کھڑا رہتا ہے- اسی
طرح مذاکرات میں ‘طالبانوں‘ کی نیت پر بھی شبہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں
’ڈالروں کی چمک‘ کسی بھی وقت اندھا کر سکتی ہے-
اے این پی کا کہنا کہ آپریشن کی بجائے بات چیت، حکمت و عقل کے استعمال اور
مذاکرات سے معاملہ حل کیا جائے، بھی غلط نہیں ہے- وجہ یہ کہ جب ‘کراچی‘ میں
حکمت و عقل سے کام لے کر امن و امان بحال کیا جا سکتا ہے، حکومتی رِٹ قائم
کی جا سکتی ہے، بارہ مئیوں کو برپا ہونے سے روکا جا سکتا ہے، کچھ لو اور
کچھ دو کے تحت مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، تو پھر کوئی وجہ باقی نہیں بچتی کہ
قبائلی علاقوں میں بھی ایسا نہ کیا جا سکے-
’حُسنِ تدبیر سے بن جاتی ہے بگڑی تقدیر‘ |