مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے

نعرہ تکبیر بلند ہوتا ہے اللہ اکبر اور گولی کی آواز آتی ہے اور دوسری طرف سے بھی ایک آہ کے ساتھ آواز بلند ہوتی ہے لاالہ الااللہ یعنی مارنے والا بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان۔ قاتل کا بھی وہی نعروہے جو مقتول کا کلمہ ہے۔ دونوں ہی خدا کی وحدانیت اور الہیت کے ماننے والے ہیں دونوں ہی ایک خدا کو مانے والے ہیں ایک ہی نبی و رسول کے امتی ہیںایک ہی دین کے پیروکار ہیں پھر بھی ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔ ہم ماڈرن دور کی بات کرتے ہیں جدید دنیا کے باسی ہونے کے دعویدار ہیں جمہوریت کے علمبردار ہیں لیکن ہماری عادات و اطوار ہمارے رہن سہن زمانہ جاہلیت سے بھی پہلے سے میل نہیں کھاتے۔

اس دور میں غیر مسلم ہی غیر مسلم کو مارتے تھے۔ اور کوئی نہ کوئی وجہ عناد بھی ہوتی تھی۔ کبھی کوئی زمین کا جھگڑا ہو تا تھا تو کبھی زر کی لڑائی۔ کبھی عزت کی بات ہوتی تھی تو کبھی زن کا مسئلہ لیکن جب اسلام آیا سلامتی کا پرچار ہوادین اسلام کی کرنیں بکھرنے لگیں تو جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے اور پھر جب لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو پھر ہر طرف امن و آشتی کا دور دورہ تھا۔ مسلمان رنگ و نسل سے مبرا۔ اعلی و ادنی کے امیتاز کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کیلئے سلامتی و تحفظ کے ضامن بن گئے۔ وہ زمین و جائیداد کہ جس کا جھگڑا تھا ایکدوسرے پر نچھاور کردی گئیں اور یہاں تک کہ جس کی دو بیویاں تھیں وہ بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کہ جس سے صرف اسلام کا رشتہ تھا کے عقد میں دے دیں۔کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ایک مسلم دوسرے مسلم کو قتل کرے دوسرے مسلمان بھائی کا گلہ کاٹ دے چاہے وجہ عناد بھی موجود ہو۔ پھر کربلاکا میدان لگا جہاں سے پھرکلمہ گو ایک دوسرے ے خون کے پیاسے نظر آئے۔ وجہ ہوس اقتدار تھی وجہ کرسی کا حصول تھا وجہ اپنی حاکمیت کا پرچار تھا اور یہ وبا پھیلتی ہوئی دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی اور پھر نہ فسلطین محفوظ رہا نہ چیچنیا ،لیبیا محفوظ رہا نہ بوسینیا، عراق و کویت دست و گریباں ہوئے تو کبھی افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ تمام جگہوں پر قاتل و مقتول غازی و شہید مسلمان ہونے کا دم بھرتے ہیں اور پاکستان میں بھی بغیر وجہ عناد کے بچے بوڑھے نوجوان مرد و عورت کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے ۔ملک میں آج کے حالات کہ جس میں غیر یقینی اور عدم تحفظ ہر گلی و کوچے میں دکھائی و سنائی دیتا ہے کسی مسلمان کی دوسرے مسلم کے ہاتھوں جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت ایک خواب دکھائی دیتا ہے ۔ سراب معلوم ہوتا ہے
مفلس شہر کو دھن وان سے ڈر لگتا ہے
پر نہ دھن وان کو رحمان سے ڈر لگتا ہے
اب کہاں وہ ایثار و اخوت مدینے جیسی
اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے

کراچی ،کوئٹہ ، اسلام آباد لاہورپختون خواہ میں جہاں مسلمان مسلم کش سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں وہاں پر ہمارے حکمران اپنے اپنے الو سیدھا کرنے کے چکر میں اس کو ہوا دے رہے ہیں۔ کہیں پر پنجابی اور پشتو کا جھگڑا پیدا کیا ہوا ہے کہیں پر سندھی اور بلوچی کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا گیا ہے کوئی کسی کی بات کو سمجھنے اور سننے کو تیار نہیں۔ بے شعور جانوروں کی طرح ایکدوسرے کو نوچنے کیلئے ناخن تیز کئے ہوئے ہیں کہیں پر پیار و محبت امن و آتشی دکھائی و سنائی نہیں دیتی۔

ایک نیا کٹا انتخابات کی شکل میں کھل چکا ہے جتنی زیادہ سختی اس مرتبہ الیکشن کمیشن کی جانب سے برتی جارہی ہے اس سے کہیں زیادہ ماحول میں کشیدگی ہے فضا میں خون کی بو رچ بس چکی ہے۔ تمام ادارے فوسز اور ایجنسیاں ناکامی کا ثبوت ہیں۔ امیدوار جیتنے کی خواہش میں جائز و ناجائز حربے اور ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ بڑی پارٹیوں کی طرف سے اشتہاری مہم پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ اشتہارات ڈاکومنٹریز تقاریر اور ٹاک شوز کی مدد سے میڈیا وار شروع ہوچکی ہے ۔ مالکان زیادہ سے زیادہ کمانے کے چکر میں جھوٹ و سچ کے پلڑے میں کسی کو وزنی شو کررہے ہیں تو کسی کی ٹانگ کھینچ کر زمین بوس کررہے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے حالات جس بات کے متقاضی ہیں ان سے صرف نظر کی جارہی ہے۔ آرمی کا کردار کہیں پر نظر نہیں آرہا۔ سکون کی بانسری بج رہی ہے-

ایم کیو ایم کی شدیدمخالفت اور خواہش کے باوجود الیکشن کا بگل بج چکا ہے۔ غیرملکی اخبارات چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ تمام سیکٹر پر اسلحے اور بارود کے ڈھیر جمع کئے جاچکے ہیں۔ ان کے مطابق بم بلاسٹ میں ایم کیو ایم کا کردار کسی بھی طرح خالی از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن کی بے بسی کا مذاق اڑایا جارہا ہے ۔اور یہانتک کہا جارہا ہے کہ یہ سب ایک ڈرامہ ہے ایک لمحہ میں سب کچھ تبدیل ہو جائیگا اور پتہ لگے گا کہ الیکشن ملتوی ہوچکے ہیں۔اور وہ لمحہ آج آیا کہ کل آیا کے انتظار میں الیکشن میں حقیقی گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی ۔ بے یقینی کی کیفیت میں ڈرے ڈرے انداز میں الیکشن کمپین چلائی جارہی ہے۔ ووٹرز بھی کشمکش کاشکار ہیں گومگو کی کیفیت میں ماحول کا جائزہ لے رہے ہیں۔ تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں لیکن تبدیلی کہیں سے ظاہر ہوتی نظر نہیں آتی ۔ عجیب سی بے بسی اور لاچارگی ہے۔نگران حکومت اس بے یقینی اور مبہم حالات کے خاتمے کیلئے واضح لائحہ وضع کرے بالخصوص کراچی خیبر پختون خواہ کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔ تاکہ الیکشن کا انعقاد محفوظ و مامون طور پر پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211609 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More