عام انتخابات سے قبل ضمنی الیکشن نے آئندہ انتخابات کے
حوالے سے ایک منظر نامہ پیش کردیا تھاکہ متوقع عام انتخابات کس طرح ، اور
کس ماحول میں منعقد ہونگے۔ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے کردار پر
بھی فکر کی ضرورت تھی کہ ضمنی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے امیدواران ،اور
سپورٹرز نے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا ئیں اور الیکشن کمیشن سوائے بے بسی
کی تصویر بننے کے کوئی کردارادا نہیں کرسکا۔دوسری جانب ضمنی انتخابات نے یہ
بھی ثابت کردیا تھاکہ پاکستان کی سیاست میں تشدد و فیوڈل ازم کا خاتمہ بہت
جلد ممکن نہیں ہے کیونکہ جتنے بھی امیدواران کامیاب ہوئے وہ برادری ،جاگیرداری
اور وڈیرانہ نظام کے زیر اثر ہوئے جس بنا ءپر یہ منظر نامہ آیندہ انتخابات
میں تبدیلی ممکن پیدا نہیں کرسکتا،عوام شائد اپنے شعور کے مطابق امیدواران
کے انتخاب کےلئے فکری تبدیلی میں یقین نہیں رکھتے اور وہ اب بھی امید رکھتے
ہیں کہ جاگیر دار اور وڈےرے ہی ان کے مسائل کے حل کےلئے کوئی کردار ادا
کرسکتے ہیں۔ضمنی انتخابات میں جس طرح امن و مان کے حوالے سے ہنگامہ آرایاں
ہوئیں اُس سے یقین ہوچکا تھا کہ مستقبل کے انتخابات کے پس منظر میں پر امن
انعقاد کے تصور کو ممکن نہیں بنایا جاسکے گا ۔ اس لئے بارہا الیکشن کمیشن
کو باور کرایا گیا کہ آیندہ انتخابات پر امن و شفاف منعقد کرنا ہیں تو
سیکورٹی ادار وں کو ہزاروں پولنگ اسٹیشن اور کروڑوں ووٹرز کے تحفظ کےلئے
اقدامات بھی کرنا ہونگے کیونکہ یہی ایک اہم مسئلہ قانون نافذ کرنے والوں کو
درپیش ہے لیکن الیکشن کمیشن انتخابات میں انتخابی مہم ، امیدواران، عوام
اور ووٹرز کے تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی بے بس نظر آتی ہے ۔خیبر پختونخوا
میں قوم پرستوں کی سیاست کے دھڑن تختہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ قوم پرست جماعت کی مخالف قوتوں نے نئے انتخابات کےلئے جہاں سیاسی صف
بندیاں کیں تودوسری جانب مذہبی قوتوں کی جانب سے بھی شدید مخالفت کا سامنا
ہے جبکہ عسکرےت پسندوں کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے اپنی تیاریاں مکمل
کرنے کے اعلان نے بھی ان کےلئے مشکلات پیدا کردیں کہ وہ حکومت سے جدا ہونے
کے بعد اُس قسم کی سیکورٹی حاصل نہیں کرسکے جو اُس وقت انھیں حاصل
تھی۔حکومت میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود حکمران جماعتوں نے عوام میں
موثر کردار ادا نہیںکیا تو دوسری جانب کرپشن نے جس طرح سیاسیقیادت اور
سیاسی رہنماﺅں کو طشت از بام کیا ہے اس سے عوام دوبارہ ا ن جماعتوں کو موقع
دینے کے بجائے ماضی کی طرح اپنی سیاسی رائے تبدیل کرچکی ہے کیونکہ خیبر
پختونخو ا کی عوام سیاسی بلوغت کی بناءپر ان ہی رہنماﺅں کو منتخب کرتی ہیں
جو ان کے قریب رہے لیکن اقتدارسے چمٹے رہنے والیحکمراں جماعتوں نے عوامی
مسائل کے حل کے بجائے اقربا پروری کو ترجیح دی اور عام کارکنان کو مکمل نظر
انداز کیا جس کی وجہ سے انتخابی سرگرمیوں کے بجائے ان جماعتوں کی کوشش ہے
کہ مظلوم بن کر انتخابات میں حصہ لیا جائے اور حالیہ پر تشدد واقعات کو یہ
ظاہر کیا جارہا ہے جیسے اس سے پہلے پر تشدد واقعات نہیں ہوئے تھے جبکہ
امریکہ نواز پالسیوں کی وجہ سے عسکریت پسند اور عوام پہلے ہی ان کی مخالف
بن چکی تھی۔ کراچی میں اٹھنے والے پر تشدد سیاسی بحران کے حوالے سے ایم کیو
ایم گذشتہ کئی سالوں سے خدشات کا اظہار کرتی رہی ہے کہ کراچی میں ایسے
عناصر داخل ہوچکے ہیں جو ملک میں امن کے قیام اور انتخابات میں رکاﺅٹ پیدا
کریں گے ، لیکن ہمیشہ اے این پی اور پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے ان
تحفظات کو رد کیا ور ایسے لسانیت کا رنگ دیا ۔ جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے
ہے کہ کراچی مکمل طور پر ایسے عناصر کی دسترس میں آچکا ہے کہ پانچ روز میں
پانچ دہماکے کرکے حکومتی رٹ کی دھجیاں اڑا دیں گئیں ہیں ۔ اے این پی اور
پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کے مخصوص علاقوں میں
مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی پر کھل کرمخالفت کی، ایسے درخو اعتنا سمجھ کر
نظر انداز کیا اور اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی کوشش کی جس کا خمیازہ آج بے
گناہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ یہ درست ہے کہ موجودہ انتخابات میں اے این
پی ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کو نقصان پہنچانے کی دہمکیاں دیں گئیں ،
لیکن یہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ اے این پی اپنی بوئی فصل کاٹ ر ہی ہے ،
ایم کیو ایم کو عسکرےت پسندی مخالفت پر نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن حیران کن
بات یہ ہے کہ پی پی پی کی امریکہ نواز پالیسوں کے باوجود پی پی پی کو خیبر
پختونخوا اور کراچی یا سندھ میں اُس طرح نشانہ نہیں بنا یا گیا جس طرح اے
این پی اور ایم کیو ایم کو بنایا جا رہا ہے اور پی پی پی کی جانب سے ہی
نہیں بلکہ میڈیا میں بھی بلا سوچے سمجھے اس بات کی تشہیر کی جا رہی ہے کہ
پی پی پی بھی اے این پی اور ایم کیو ایم کی طرح محفوظ نہیں ہے جبکہ حقائق
اس کے برعکس اور حیران کن ہیں۔ قابل غور بات یہی ہے کہ پی پی پی کو دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں اے این پی اور ایم کیو ایم کی طرح نقصان نہیں ہوا ہے
۔ ان کی انتخابی ریلیاں ، جلسے اور کارنر میٹنگز محفوظ ہیں اور ان کے
امیدواران کھل کر اپنی انتخابی مہم ہر جگہ چلا رہے ہیں۔ لیاری میں ہونے
والے دہماکے کو پیپلز پارٹی سے نہیں جوڑا سکتا کیونکہ لیاری رسمی طور پر
پیپلز پارٹی سے الگ ہے اور عملی طور پر انتخابات کےلئے امیدواران امن کمیٹی
سے وابستہ ہیں۔ پی پی پی کو نہیں بلکہ صرف اے این پی اور ایم کیو ایم کو
کھل کر نشانہ بنایا جا رہا ہے اس لئے عام انتخابات کے حوالے سےعجیب رجحان
کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پرُ امن انتخابات میں الیکشن کمیشن کوئی کردار
ادا کرسکے گی اس پر بھی اب تک کوئی حوصلہ افزا صورتحال واضح نہیں ہے ،
کیونکہ اب تک الیکشن کمیشن کی جانب سے کئے گئے تمام اقدامات مایوس کن اور
پر امن انتخابات کے انعقاد کےلئے ارباب اختیار کی بے بسی قابل رحم ہے ۔ یہ
بات قابل تسلیم ہے کہ الیکشن کمیشن چند دنوں میں ملک گیر بے امنی کو ختم
نہیں کرسکتا لیکن ضمنی انتخابات میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر اگر ایکشن لے
لیا جاتا تو یقینی طور پر تین صوبوں کی عوام بھی قومی انتخابات میں بڑھ چڑھ
کر حصہ لیتی۔تین صوبوں کی عوام کو انتخابات میں ملکی استحکام کے بجائے خوف
و ہراس نظر آتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے انتخابات صرف پنجاب کےلئے ہو رہے
ہوں کیونکہ ویسے بھی پنجاب ساٹھ فیصد پاکستان ہے اور مملکت کی بیورو کریسی
اور ارباب اختیار کا تعلق بھی زیادہ تر پنجاب سے ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
الیکشن کمیشن پنجابی امن فارمولے کو پاکستان کے تین صوبوں کےلئے کس طرح
نافذ کرکے شفاف پر امن انتخابات کو ممکن بنا کر صرف پنجاب میں الیکشن کا
تاثر ختم کرےگا۔ |