خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خود خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ وہ شعر ہے جو بار بار پاکستانیوں کو سنایا جاتا ہے کہ خدارا اپنی حالت
پر رحم کرو مگر وہ پاکستانی ہی کیا جو اپنی حالت پر رحم کریں ہم وہ قوم ہے
جو صرف باتیں کرتی ہے مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو ہم قوم نہیں ہوتے بلکہ
ہم سندھی ، پنجابی ، بلوچی، پٹھان ، مہاجر ، سرائیکی ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس وقت کراچی والوں سے مخاطب ہوں کہ جناب آپ کو ۲۰۰۸ میں موقع دیا گیا
تھا اپنی حالت بدلنے کا ۱۲ مئی کا واقعہ اپ کے سامنے تھا اس دن کیا ہوا سب
کو سب معلوم تھا کس کے اشارے پر ہوا وہ بھی پھر بے نظیر کی موت پر کراچی کے
حالات بھی سب نے دیکھے تھے اور سب کو معلوم تھا کہ کون ہے جس کے اگئے پولیس
رینجیرز بے بس ہے مگر پھر بھی سب نے اپنا ووٹ اسی عفریت کو دیا اور پھر ۵
سال بھتے اور سٹرائیک اور سوگ کی نظر ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اب بھی اپ نے ایسا ہی کرنا ہے کیا اب بھی اپ اپنی حالت پر رحم نہیں
کھائیں گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم مہاجر بن کر اردو اسپکینگ بن کر کیوں ووٹ
ڈالتے ہیں ہم پاکستانی بن کر مسلمان بن کر ووٹ کاسٹ کیوں نہیں کرتے ۔ سوال
کیئجئے اپنے آپ سے کیا آپ میں ہمت ہے مزید لاشے اٹھانے کی ۔۔۔؟؟؟ اگر
نہیں تو اس دفعہ دین دار قیادت کو ووٹ دیجیئے لسانیت کو چھوڑ کر اپنے دین
کی طرف آجایئے لوگوں کو ان کی کاسٹ اور بولی سے پہچانے کے بجائے ان کی دین
داری شرافت ایمانداری سے پہچانئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا ووٹ جماعت اسلامی
کے لیئے ہے آپ کس کو ووٹ دیں گئے ۔۔۔۔ فیصلہ آپ خود کیجئے یونین کے صدر
کو یہ فیصلہ نہ کرنے دیئجیے ورنہ آپ میں اور ایک غریب مزارعے میں کیا فرق
رہ گیا ۔۔ شہر اور گاوں میں کیا فرق رہ گیا ۔۔۔یونین کے صدر اور وڈیرے میں
کیا فرق رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |